عظیم لیڈر کی زندگی کھوکھلے نعروں سے خالی ہوتی ہے

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
سیاستدانوں سے گذارش ہے کہ وہ اس مرتبہ حیدرآباد کے شہریوں پر رحم کریں ، اپنی سیاست چمکانے کیلئے شہری علاقوں کی ترقی کے لئے جھوٹے وعدے نہ کریں۔ ایسے منصوبے کے جھوٹے نشانہ نہ بنائیں جس سے عوام کو ہر وقت مسائل کا شکار رہنا پڑتا ہے۔ حیدرآباد کے بلدی انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان ہوا ہے۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد شہر واپس ہونے پر یہاں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات کیلئے سیاسی پارٹیوں خاص کر حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے پوسٹرس، ہورڈنگس آویزاں دیکھے گئے۔ بی جے پی۔ تلگودیشم اتحاد کے پوسٹرس بھی شمس آباد ایرپورٹ سے نکل کر شہر کی جانب بڑھتی سڑکوں کی دونوں جانب چسپاں نظر آئے اور مقامی جماعت کے گڑھ والے علاقوں میں بھی انتخابات کے بارے میں چرچے سنے گئے تو محسوس ہوا کہ اب سیاستداں شہریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی تیاری کررہے ہیں۔ سڑکوں کی ابتری، ڈرینج کی خرابی سے پیدا ہونے والی بدبودار گلی کوچوں، برقی مسئلہ، پانی کا مسئلہ لیکر عوام جن مسائل سے دوچار ہیں ان کے سامنے سیاسی پارٹیوں نے اپنی کارکردگی کے بلند بانگ جھوٹ کے جھاڑ کھڑے کرنے لگے ہیں تو یہ برابر جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف حرکت ہے۔ جلتی پر تیل پانی ڈالنے سے کیا ہنگامہ ہوگا یہ سیاستدانوں کو معلوم نہیں ہے۔ جن سیاستدانوں نے اب تک عوام کی نفرتوں کا مشاہدہ نہیں کیا اب انہیں انتخابی مہم کے لئے ان کے درمیان سے گذرنا پڑے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا شہریوں نے ہوش کے ناخن لئے ہیں کہ نہیں، ماضی کے تجربات سے گذرنے والے عوام نے آنے والے بلدی انتخابات میں سیاسی نمائندوں کو منہ توڑ جواب دینے کی تیاری کررکھی ہے یا نہیں۔ کسی بھی عظیم لیڈر کی زندگی کھوکھلے نعروں سے خالی ہوتی ہے اور جو سڑک چھاپ لیڈر ہوتاہے وہ بچتا ہی رہتا ہے اس لئے اس کے اندر کی ایمان کی حد تک کی سچائی جاننے کیلئے عوام کو بے ایمان ہوجانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ لیڈر کے اندر کی بے ایمانی کو نکالنے کیلئے اپنے حق ووٹ کا درست استعمال کرنا ہے۔ بدلتے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر اگر پرانے شہر کی سخی طوطے شاہ پارٹی نے بھی اپنا طریقہ واردات بدل لیا ہے تو پھر یہ انتخابات دلچسپ ہوں گے۔ اس سال حیدرآباد کے عوام نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے لئے سیاسی ستاروں کی روشنی میں اپنے نئے سال کی شروعات کی ہے۔ چہ میگوئیاں یہ چل رہی ہیں کہ حکمراں پارٹی جس کا حیدرآباد میں خاص وجود نہیں تھا ان بلدی انتخابات میں اپنا اثر دکھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی۔ اس سلسلہ میں حکمراں ٹی آر ایس نے جی ایچ ایم سی حدود میں جگہ جگہ 1000 ہورڈنگس آویزاں کئے ہیں اس سے اپوزیشن پارٹیوں کو شدید متلی ہورہی ہے

کیونکہ کانگریس اور بی جے پی ۔ تلگودیشم اتحاد کو اڈورٹائزنگ ایجنسیوں نے جگہ دینے سے انکار کردیا ہے ۔ پہلے ہی ان ایجنسیوں کو حکمراں پارٹی نے اپنا ایجنٹ بنالیا ہے یا پھر انہیں دھمکی دی گئی ہے کہ وہ حکمراں پارٹی کے سوا کسی کو موقع نہ دیں۔ ٹی آر ایس کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ اس کو بتدریج سیاسی کامیابی مل رہی ہے اور عوام کی حمایت نے اس کو پہلے سے زیادہ طاقتور بنادیا ہے۔ نومبر کے اختتام تک ہی حکمراں پارٹی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹی آر ایس نے شہر کے اہم مقامات پر ہورڈنگس آویزاں کئے تھے اور ڈسمبر کے اختتام تک اس نے شہر کے تمام اہم مقامات کے ہورڈنگس کی جگہ کو کرایہ پر حاصل کرلیا۔ ان ہورڈنگس کے ذریعہ وہ اپنی مختلف اسکیمات کو عوام کے سامنے پیش کررہی ہے۔ ٹی آر ایس کی اس طرح کی جارحانہ سیاسی انتخابی مہم سے پریشان اپوزیشن پارٹیوں کیلئے نازک مسئلہ پیدا کردیا ہے کیونکہ ایک طرف حکومت نے بہت پہلے ہی سے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو شہر کے کونے کونے میں سرگرم کررکھا تھا تو دوسری طرف ہورڈنگس یا تشہیری مہم شروع کی تھی۔ میونسپل کارپوریشن کے انتخابی عمل کیلئے صرف 14دن کی مہلت دینے کا ارادہ کیا تھا لیکن یہاں حکومت کو ناکامی ہوئی۔ عدالت نے حکومت کے جی او کو معطل کردیا ہے جس سے سیاسی پارٹیوں کو پریشانی ہوگی۔ اتنے کم دنوں میں انتخابی مہم چلانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ۔ حکومت نے جی ایچ ایم سی قانون 1955 میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابی عمل کے ایام کو 45 دن سے گھٹاکر دو ہفتے کردیئے تھے اس فیصلہ کو چیلنج کرتے ہوئے حیدرآباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ بی جے پی نے ٹی آر ایس پر الزام عائد کیا کہ وہ دھاندلیوں کے ذریعہ انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔ انتخابی مہم کی مدت میں کمی کو ایک گہری سازش قرار دینے والی سیاسی پارٹیوں نے حکمراں پارٹی کے خلاف عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن عوام تو وہی کریں گے جو وہ چاہیں گے۔ ٹی آر ایس کے حق میں عوام کی ہمدردی کو دیکھ کر پارٹی کے نوجوان لیڈر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر کے ٹی راما راؤ نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات کے لئے خاص تیاری کرلی ہے۔ ٹی آر ایس کی کامیابی کے امکانات قوی ہیں کیونکہ حکومت نے عوام کے حق میں اب تک جتنی بھی اسکیمات پیش کی ہیں یہ سب کامیاب ہورہی ہیں، صرف حیدرآباد کی ترقی کیلئے اس کی اسکیم نے ابھی تک رنگ نہیں دکھایا ہے۔ غریبوں کیلئے ہر ضلع میں ڈبل بیڈ رومس کے مکانات بنانے کے پراجکٹس پر تیزی سے عمل کرنے والی ٹی آر ایس حکومت حیدرآباد میں غریبوں کیلئے آسرا فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ شہر کے غریب عوام  کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی جارہی ہے کہ اگر ٹی آر ایس کو قطعی اکثریت کے ساتھ بلدی انتخابات میں کامیاب بنایا گیا تو ان کے دن رات خوشحال بنادیئے جائیں گے۔ رہنے کیلئے ڈبل بیڈ روم مکان تیار کیا جائے گا۔  تاہم یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حکومت کے کئی پراجکٹس میں سے کئی پراجکٹس ہنوز شروع نہیں کئے گئے۔ چیف منسٹر کے اعلان کردہ پراجکٹس بظاہر اچھے دکھائی دیتے ہیں ان کی تکمیل کے لئے ایک وقت کا تعین ہونا چاہیئے۔ حیدرآباد میں انتخاب جیتنے کے لئے کوئی بھی سیاسی طاقت تنہا طور پر خواب نہیں دیکھ سکتی یہ خیال بہت پرانا ہے۔

یہاں ایم آئی ایم کے اصل گڑھ میں کسی پارٹی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے یا کوئی پارٹی اس کے حلقوں میں اپنا امیدوار کھڑا کرکے کامیاب ہونے کا خواب نہیں دیکھ سکتی۔ اس مرتبہ ٹی آر ایس کی آندھی کے سامنے ایم آئی ایم کس حد تک ٹکے گی یہ تو نتائج ہی بتائیں گے۔ تاہم اندر ہی اندر سیاسی شراکت داری کے ماہر مقامی جماعت کے لوگوں نے اس بار بھی حکمراں ٹی آر ایس سے سودے بازی کرلی ہے تو پھر عوام کے نصیب میں وہی مسائل برقرار رہیں گے۔ بظاہر ٹی آر ایس اور ایم آئی ایم کے قائدین نے یہ کہا ہے کہ جی ایچ ایم سی انتخابات میں کوئی اتحاد نہیں ہے۔ لیکن اندر ہی اندر خفیہ معاہدہ ہورہا ہے کہ بعض بلدی حلقوں میں ڈمی امیدوار کھڑا کرکے رائے دہندوں کو اُلّو بنایا جائے گا، جہاں تک شہر حیدرآباد کے میئر کے کے عہدہ کا سوال ہے یہ سہرا اسی کے سر بندھے گا جو دلہا بنے گا، باراتیوں میں وہی پارٹیاں ہوں گی جن کو ایم آئی ایم پر بھروسہ تھا یا اس کے جھانسے میں آگئی تھیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیجئے کہ بلدی انتخابات ہوں یا عام انتخابات اس میں عام آدمی کا کوئی فائدہ نہیںہوتا۔ انتخابات عام آدمی کا بزنس نہیں ہوتے بلکہ یہ ان سیاستدانوں کی خاص تجارت ہے جو صرف عوام کے ووٹوں سے اپنا بزنس کارڈ چلاتے ہیں۔ دراصل سیاسی پارٹیوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ عام آدمی کو آگے آنے سے روکنے کیلئے دلچسپ ڈورے دار باتیں کرتی ہیں اور عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ حکمرانی صرف سرداروں کا حق ہے اور الیکشن بھی وہی لڑتے اور جیت سکتے ہیں۔ بغیر کسی معلومات کے رائے دینا آسان کام ہے مگر جن مسائل کا شکار وہاں کے ووٹرس ہیں انہیں شاید یہ ادراک بھی نہ کیونکہ حیدرآباد کی سیاست صرف ایک خاندان کے گرد گھومتی ہے جن کا تعلق ہر دور میں حکمراں پارٹی ہوتا ہے۔2فبروری تک تمام سیاسی پارٹیاں شہر کے رائے دہندوں کے جذبات اور مسائل کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیں گے ۔
kbaig92@gmail.com