عصمت ریزی ، سنسرشپ اور قومی عزت میرا بھارت مہان

پرافل بدوائی
اگر حکومت ہند دنیا میں مذاق کا موضوع بننا نہ چاہتی تو وہ دہلی میں ڈسمبر 2012 کے اجتماعی زنابالجبر واقعہ سے متعلق بی بی سی کی ڈاکومنٹری انڈیاس ڈاٹر پر پابندی لگانے کی اس قدر فوری اور موثر اقدام نہ کی ہوتی ۔ نہ صرف یہ کہ دنیا بھر میں کئی افراد نے یہ فلم دیکھی ہے بلکہ یہ خواتین کے حقوق کے لئے ایک کاز بن گئی اس طرح آزادانہ اظہار خیال کے علمبرداروں اور ترقی پسند ہالی ووڈ اداکاروں کے لئے بھی اس کاز کے حوالہ سے حوصلہ افزائی ہوئی ۔ اس فلم میں موثر انداز سے لڑکی کے والدین کی بپتا ، 23 سالہ طالبہ کی زندگی اور امنگوں کو پیش کیا گیا جس کی بربریت کے ساتھ عصمت ریزی کی گئی اور وحشیانہ حملہ میں اسے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ اس فلم میں عصمت ریزی واقعہ کے بعد عصمت ریزی کے خلاف احتجاج کی لہر کو بھی پیش کیا گیا ۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح زنا کرنے والے ان کے وکلاء اور کسی دوسرے خواتین کے خلاف وحشیانہ تشدد کو جائز قرار دے رہے ہیں ۔ اس فلم سے ہندوستانی سماج کی عکاسی ہوئی جہاں خواتین سے بری طرح امتیاز برتا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس فلم پر پریشان کن ردعمل ظاہر کیا جو قابل مذمت ہے ۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ میناکشی لیکھی نے ادعا کیا کہ اس فلم سے سیاحوں کی آمد متاثر ہوگی ۔

وزیر شہری ترقی وینکیا نائیڈو نے اسے مخالف ہند سازش قرار دیا اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت عصمت ریزی کے حوالہ سے قوم دشمن حملے کے لئے کسی کو بھی صرف ہندوستان کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دے گی ۔ حالانکہ فلمساز نے کسی شرائط کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ اس نے جیل حکام کے فوٹیج دکھائے اور ایڈیٹ کیا گیا 15 منٹ کا مواد استعمال کیا ۔ پھر عصمت ریزی کے حوالہ سے صرف ہندوستان کو نشانہ نہیں بنایا ۔ بیویوں کو مارپیٹ کے واقعات کی طرح عصمت ریزی بھی تمام ممالک میں ہے ۔ ہر جگہ جانبداری برتی جارہی ہے ۔ ہندوستان میں ایسے واقعات کی خبریں مکمل طور پر نہیں دی جاتیں ۔
ہندوستان میں حالیہ عرصہ میں عصمت ریزی خاص کر اجتماعی عصمت ریزی کے کئی واقعات ہوئے ہیں ۔ اس وجہ سے دنیا کی توجہ اس طرف ہوئی ہے ۔ ہندوستانی پولیس اور سیاسی قائدین واقعات کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مشورے دینے لگتے ہیں کہ خواتین کس طرح کا لباس پہنیں اور کس قسم کا رویہ رکھیں اور کس طرح انھیں اجنبی افراد سے دور رہنا چاہئے ۔ بہرحال عصمت ریزی کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ خواتین کیسی اور کس قدر بھڑکیلے لباس میں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ 84 سالہ خاتون یا معذور خواتین کی عصمت ریزی کیوں کی جاتی ہے ۔ 6 سال کی لڑکی کی عصمت کیوں لوٹی جاتی ہے ۔ بیشتر زانی اجنبی ہوتے ہیں لیکن اکثر متاثرین کے لئے جانے پہچانے ہوتے ہیں ۔ ریپ کا تعلق جنسی کشش سے نہیں ہے یہ مرد کی طاقت ہے جو جارحانہ انداز میں خواتین کو زیر کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ عصمت ریزی کے جرم میں قید کئے گئے شخص کے وکیل ایم شرما نے فلمساز سے کہا کہ لڑکی پھول کی طرح ہوتی یہ اور پھول کو ہمیشہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وکیل نے یہ بھی کہا کہ ہمارے سماج میں ہم اپنی لڑکیوں کو کسی نامعلوم شخص کے ساتھ شام کے بعد گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتے ۔ ہماری تہذیب ہمارا کلچر بہترین ہے ۔ ہمارے کلچر میں خواتین کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔

ایک اور وکیل اے پی سنگھ نے کہا کہ اگر میری بیٹی یا بہن شادی سے پہلے ناجائز سرگرمیوں میں ملوث ہو اور شرمناک حرکت کرے تو میں اسے اپنے فارم ہاوس لے جاؤں گا اور اپنے پورے خاندان کے سامنے اس پر پٹرول ڈال کر اسے آگ لگادوں گا ۔ زانی مکیش سنگھ کا کہنا ہے کہ رات دیر گئے سڑکوں پر گھومنے والی کوئی لڑکی شریف نہیں ہوتی ۔ اگر وہ مزاحمت نہ کرتی تو اسے ہلاک نہیں کیا جاتا ۔ یہ خیالات دہلادینے والے ہیں اور یہ انہی افراد تک محدود نہیں ہیں ۔ روز بہ روز دیہی پنچایتیں ، پولیس عہدیدار ، سنگھ پریوار قائدین ججس وزراء بشمول چیف منسٹر ہریانہ اور قدیم سنگھی لیڈر ایم این کھتر نے بھی اسی قسم کے خیالات کااظہار کیا ہے ۔ اس قسم کے لوگ انڈیاس ڈاٹر فلم کو ہندوستان کو بدنام کرنے کی کوشش اور ہندوستان کو ترقی کے وقاراور مرتبہ کے لحاظ سے مغرب کے ساتھ کھڑا ہونے سے روکنے کی سازش سے تعبیر کررہے ہیں ۔