عربی زبان کی تدریس اور قرآن فہمی کا ذوق عام کرنے میں پروفیسر عبدالمعز کی نمایاں خدمات

محمد فضیل ندوی
پروفیسر عبدالمعز سابق صدر شعبہ عربی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی 14 اکتوبر 1970 ء کو حیدرآباد کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے ۔ جب آپ نے شعور کی آنکھیں کھولیں تو اپنے گرد و پیش علمی و دینی ماحول پایا ۔ ابتدائی تعلیم گھر پہ ہوئی ۔ والدین کی خصوصی توجہ اور فیضان نظر نے ان کے اندر عقابی روح بیدار کردی ۔ چنانچہ آپ نے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کیلئے ہندوستان کی مایہ ناز دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ کا انتخاب فرمایا اور وہاں کے باکمال اور تجربہ کار اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ۔ نیز علوم اسلامی میں مہارت حاصل کی اور مولوی کامل کی سند عطا کی گئی ۔
دینی تعلیم کے بعد آپ نے عصری تعلیم پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی اور عثمانیہ یونیورسٹی سے PDC کا کورس کیا ۔ گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن بھی عثمانیہ یونیورسٹی سے ہی مکمل کیا ۔ آپ نے (M.A. Arabic ) میں امتیازی نشانات سے کامیابی حاصل کی جس کی وجہ سے آپ کو گولڈ میڈل عطا کیا گیا ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی کے بافیض و باکمال اساتذہ کی صحبت میں رہ کر اپنی علمی تشنگی بجھائی ۔ اور وہاں کے علمی ماحول میں رہ کر اپنے ادبی ذوق کو پروان چڑھایا ۔ عربی زبان و ادب سے آپ کو خاص لگاؤ تھا ۔ عربی زبان سے خصوصی تعلق کو جوڑنے اور پروان چڑھانے میں جناب سمیع اللہ خان کا بھی اہم کردار ہے ۔ جس طرح آپ کو عربی زبان پر دسترس حاصل تھی اسی طرح انگریزی زبان میں بھی دسترس حاصل تھی ۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈاکٹریٹ کی اعلی ڈگری بھی آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ہی حاصل کی ۔ غرض یہ کہ آپ کی نشو و نما اور ارتقاء میں جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ نے اہم رول ادا کیا ۔ آپ کی اعتدال پسندی ، ذوق سلیم خود اس بات کی شہادت کیلئے کافی ہے کہ آپ نے اپنے تعلیمی دور کا زیادہ تر حصہ عثمانیہ یونیورسٹی کی پربہار و پرکیف فضاؤں میں گذارا ۔

پروفیسر عبدالمعز کے تدریسی سفر کا آغاز شاداں کالج خیریت آباد سے ہوا ۔ جہاں کئی سالوں تک آپ نے درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ آپ ایک مثالی استاد تھے ۔ آپ کی شفقت و محبت کی وجہ سے آپ کے شاگرد بہت جلد آپ کے گرویدہ ہوجاتے ۔ بہت ہی کم عمری میں اعلی مرتبہ کو حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ لیکن آپ کی زندگی پر جب ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے کم وقت میں زیادہ کارنامے انجام دیئے ورنہ عام طور پر لوگ زیادہ عمر پانے کے باوجود زیادہ کام نہیں کرپاتے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مرحوم ڈاکٹر عبدالمعز کا تعلیمی وتدریسی سفر بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ آپ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے اور غالباً تین سال تک وہاں برسرخدمت رہے ۔ اور 2006 میں اپنے وطن حیدرآباد واپس ہوئے اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں شعبہ عربی سے وابستگی اختیار کی ۔ آپ نے اپنی سخت محنت ، جہد مسلسل اور کاوشوں سے شعبہ عربی ادب کو بلندی عطا فرمائی ۔ جسے شعبہ عربی کو عروج حاصل ہوا ویسے ہی آپ کو بھی بلندی حاصل ہوئی ۔ چنانچہ اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ سے اسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدہ پر ترقی ملی اور پھر صدر شعبہ عربی کے عہدے پر فائز ہوئے یہ آپ کی زندگی کا سب سے روشن باب ہے جب آپ نے شعبہ عربی کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شعبہ نے پوری یونیورسٹی میں اپنا ایک منفرد مقام بنالیا ۔ کلیم عاجز نے جو شعر کہا ہے وہ آپ پر صادق آتا ہے ۔

بازاروں سے مول منگا کر رنگ تو سب بھرلیتے ہیں
کم ہیں جن کو خون جگر سے پھول بنانا آئے ہے
آپ ہی کی کوششوں سے فروری 2013 میں شعبہ عربی کے زیر اہتمام دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ہندوستان بھر سے عربی کے پروفیسرس اور ریسرچ اسکالرس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اور یہ سمینار اپنے مقصد کے اعتبار سے نہایت ہی کامیاب و کامران رہا ۔
آپ دل دردمند و فکر ارجمند کے ساتھ ساتھ حیدرآبادی تہذیب و ثقافت کے علمبردار تھے ۔ آپ کی شیریں گفتگو لوگوں کے دلوں کو موہ لیتی تھی ، آپ کی گفتگو میں علمی لطائف اور نکات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح اور بذلہ سنجی کا بھی امتزاج تھا جس کی وجہ سے آپ کی مجلس ہمیشہ پروقار اور ضیابار رہتی تھی ۔ آپ سے ملنے کے بعد ایسا لگتا جیسے سیرابی حاصل ہوئی ہو ۔ آپ ہمیشہ طلبہ کے مستقبل کو روشن و تابناک کرنے کیلئے فکرمند رہتے تھے ۔ اس لئے شعبہ عربی کے طلباہ کیلئے مخصوص موضوعات پر مختلف دانشوروں اور پروفیسرس کے توسیعی خطبات کا اہتمام کرتے تاکہ طلبہ کے اندر نئی روح پھونکی جائے ۔ اور ان کے اندر ذہنی و فکری بلندی پیدا کی جائے ۔ راقم الحروف کو یاد آتا ہے کہ جب اخبار میں عالمی یوم عربی منانے کی خبر شائع ہوئی اور مرحوم سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے وعدہ فرمایا تھا کہ ہم لوگ بھی 18 دسمبر کو ایک تقریب منعقد کریں گے ۔ لیکن افسوس کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ میں امید کرتا ہوں کہ بقیہ اساتذہ و ذمہ داران ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے ۔

استاد اور شاگرد کے درمیان کیا رشتہ ہونا چاہئے وہ اس رشتہ کے امین و پاسبان تھے آپ کسی بھی طالب علم کے ساتھ ترش روئی سے پیش نہیں آتے ۔ خندہ پیشانی ، حسن اخلاق ، ظرافت، مہمان نوازی ، حق گوئی ، حوصلہ افزائی ، آپ کے اہم اوصاف تھے ۔ شاعر نے آپ جیسی شخصیت کے بارے میں کہا ہے ۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
پروفیسر عبدالمعز کو قرآن کریم سے گہرا لگاؤ تھا اسی لئے قرآن مجید کے دروس اور اس سے متعلق پروگرام میں شرکت کرکے خوشی محسوس کرتے ۔ درس تفسیر اور خطاب میں قرآن کے کسی بھی پہلو کو اس قدر خوبصورت اور موثرانداز میں پیش کرتے کہ سننے والوں پر رقت طاری ہوجاتی اور قرآن کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرکے ایک خاص قسم کی لذت محسوس کرتے ۔ برمحل آیات قرآنی سے استدلال کرنا آپ کی اہم خوبی تھی ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے احاطہ میں واقع نمازگاہ کے اندر ہر جمعہ کو خطبہ دیتے اور امامت کا فریضہ بھی انجام دیتے ۔
آپ کسی بھی بات کو بڑے ہی سہل اور عام فہم الفاظ میں بیان کرتے اور مختصر و جامع بیان کرتے ۔ آپ کے اندر سنجیدگی ، متانت ،حلم و بردباری ، میانہ روی ، اعتدال پسندی جیسے اوصاف بدرجہ اتم پائے جاتے تھے ۔ آپ اپنے خطبہ کے ذریعہ سماج کے اندر پھیلی ہوئی برائیوں کے ازالہ کی کوشش کرتے اور قرآن مجید کی عظمت و اہمیت کو بھی بطور خاص بیان کرتے ۔ مختلف نیشنل چینل پر بھی آپ کی تقاریر نشر ہوچکی ہیں ۔ ای ٹی وی اردو پر سیرت النبیؐ سے متعلق آپ کے پروگرامس نہایت ہی موثر ، مفید اور کارآمد ہیں ۔ آپ کو اپنی والدہ صاحبہ سے بڑی عقیدت و محبت تھی ۔ والدہ کی خدمت کو اپنے لئے سرمایہ حیات تصور کرتے تھے چنانچہ جب آپ نے حج کاارادہ فرمایا تو اپنے ساتھ اس مقدس سفر میں اپنی والدہ کوبھی لے گئے ۔ آپ حج کے تمام ارکان و مناسک ادا کرچکے تھے اور زبان پر لبیک الھم لبیک جاری تھا ، والدہ کی طرف سے رمئی جمار کرکے اپنی رہائش گاہ واپس جارہے تھے کہ اچانک گر گئے ،

فوری طور پر آپ کو کوئی دیکھ نہیں سکا ۔ ادھر تاخیر ہونے پر والدہ کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کیوں کہ آپ کسی کے فون کا جواب نہیں دے رہے تھے ۔ کنگ فیصل دواخانہ میں آپ کو شریک کرایا گیا مگر جب تک کافی دیر ہوچکی تھی اور بالآخر 6 اکتوبر کی صبح جو ہندوستان میں عیدالاضحی کا دن تھا آپ اس دارفانی سے رحلت کرگئے ۔ ایسا محسوس ہوا کہ اللہ رب العالمین نے آپ کے فریضہ حج کو قبول کرلیا اور ساتھ ہی آپ کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اعلی علین میں جگہ عطا فرمادی جو شہدا اور صالحین کی جگہ ہوتی ہے ۔ آپ کے جنازہ کی نماز حرم شریف میں ادا کی گئی جس میں کم وبیش پانچ لاکھ سے زائد حجام کرام نے شرکت کی ۔ اور اسی مقدس سرزمین پر آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔ اللہ تعالی آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین
آؑسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے