عراق میں مسلکی تشدد ، مہلوکین کی تعداد 96 ہوگئی

تکریت ۔ 21 مئی (اے ایف پی) فوجیوں اور بندوق برداروں کے درمیان جھڑپوں اور 5 بم حملوں سے عراق میں 8 افراد ہلاک ہوگئے جس کے ساتھ ہی گذشتہ روز سے جاری مسلکی تشدد میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 96 ہوگئی۔ سرکاری عہدیداروں کے بموجب تازہ ترین تشدد کی وارداتوں میں جاریہ ماہ تاحال 370 سے زیادہ جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ بغداد کے شمال میں ترمیا کے علاقہ میں عراقی فوجیوں اور بندوق برداروں کے درمیان جھڑپوں اور خودکش بم حملہ سے 3 فوجی ہلاک اور کم از کم 7 زخمی ہوگئے۔ صیانتی اور طبی عہدیداروں کے بموجب شیعہ غالب آبادی والے علاقہ توز خرمتو جو عراقی صوبہ صلاح الدین میں ہے، 3 افراد دو کار بم دھماکوں سے ہلاک کردیئے گئے جبکہ دیگر 44 زخمی ہوئے۔ 10 مکانوں کو شدید نقصان پہنچا۔ پولیس اور ایک ڈاکٹر کے بیان کے بموجب شمالی شہر کرکک کی بھیڑوں کے گوشت کے بازار میں دو لب سڑک بم دھماکوں سے دو افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوگئے۔ عہدیدار کے بموجب دھماکوں سے کئی بھیڑیں بھی ہلاک ہوگئیں جو مردہ حالت میں مقام واردات پر پڑی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ توز خرمتو اور کرکک عراق کے خودمختار کرد علاقہ کا بڑا حصہ ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ان واقعات پر سخت اعتراض کیا گیا ہے۔ سفارتکاروں اور عہدیداروں کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا ہے اور ملک کے طویل مدتی استحکام کو یہ اختلافات ایک بڑا خطرہ سمجھے جارہے ہیں۔ ایک دن قبل ہی عراق میں ملک گیر سطح پر حملوں میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جاریہ ماہ تشدد کی لہر میں تاحال 374 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ وزیراعظم عراق نوری المالکی نے اپنے منصوبوں کا اعلان کیا جن کے تحت ملک کی صیانتی حکمت عملی اور عملہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا جائے گا۔ اس مسئلہ پر آج کابینہ کے ایک اجلاس میں تبادلہ خیال کے بعد اقدامات کئے جائیں گے۔ عراق میں تشدد 2006ء اور 2007ء میں عروج پر پہنچ گیا تھا لیکن اس کے بعد اس میں انحطاط پیدا ہوا لیکن حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جاریہ ماہ کے پہلے پانچ مہینوں میں اب تک 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں