بغداد؍ واشنگٹن، 24 جون (سیاست ڈاٹ کام) امریکی خصوصی افواج کو جو عراق میں تین سال کے وقفے سے تعینات کی گئی ہیں، پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ انہیں عراقی فوج کی مدد کرنا ہے اور عسکریت پسندوں سے جنگ کی ان کی صلاحیت بہتر بنانا ہے۔ فوج کے گرین بیریٹس جو کئی برسوں سے اپنے کام کے ایک بنیادی حصے کے طور پر دیگر ممالک کی افواج کو تربیت دینے اور حالات کا اندازہ لگانے کا کام کررہے ہیں۔ عراق میں تعیناتی کیلئے منتخب کئے گئے ہیں، لیکن ان لوگوں کو عراق میں جو فرائض انجام دینے ہوں گے۔ ان سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ کارروائی ہوگی۔ عراقی فوج کے حوصلوں کی پستی دُور کرنی ہوگی جو عسکریت پسندوں کی پیشرفت کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ماہرین نے تجویز پیش کی ہے کہ اعلیٰ سطح کے کمانڈوز فوری طور پر عراقی فوج کے انحطاط کو روک سکیں گے،
تاہم انہیں اس کیلئے وسیع تر کوشش کرنی ہوگی اور گہرے فرقہ وارانہ اختلافات کو دور کرنا ہوگا تاکہ زیادہ ماہر فوجی قیادت تیار کی جاسکے۔ امریکہ اور عراق نے کل ایک اہم معاہدہ پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت عراق میں تعینات 300 خصوصی کارروائی کرنے والے امریکی کمانڈوز کی فوج کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ 12 ارکان پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو پہلے ہی عراق پہنچ چکی ہیں اور جاریہ ہفتہ صورتِ حال کا تخمینہ کرنا شروع کرسکتی ہیں۔ دیگر چار ٹیمیں توقع ہے کہ جلد ہی عراق پہنچ جائیں گی۔ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل جیمس ڈوبک نے جو عراقی افواج کی تربیت کے 2007ء اور 2008ء میں انچارج تھے، کہا کہ وہ فوری طور پر اچھی طرح عراقی فوج کی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکیں گے لیکن وہ دیرینہ مسائل کی یکسوئی فوری طور پر نہیں کرسکیں گے۔ انتظامیہ کی خواہش 2011ء میں یہ تھی کہ عراقی پارلیمنٹ امریکی افواج کو قانونی کارروائی کے معاملے میں تحفظ کرے، جبکہ امریکہ اپنی فوج کو مستقل طور پر عراق میں تعینات کئے ہوئے تھا ۔