ظفر آغا
جسٹس لویا معاملہ میں جانچ کی کوئی ضرورت نہیں! مکہ مسجد بم دھماکے میں ہندوتوا ہیرو اسیما نند دودھ کے دھلے، سادھوی پرگیا ٹھاکر سے پاک و صاف شاید دنیا میں کوئی ہوا ہی نہیں! مودی حکومت کی سابق وزیر مایا کوڈنانی کا احمد آباد فسادات سے کچھ لینا دینا ہی نہیں! یہ وہ تمام لوگ ہیں جو بلواسطہ یا بے واسطہ بی جے پی اور سنگھ سے جڑے ہوئے ہیں۔ نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک کسی بھی عدالت کو ان میں کوئی فرد مجرم نظر نہیں آیا۔ اب ان فیصلوں کے بعد فیض احمد فیض ، کا مصرعہ ’’کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں‘‘ نہ دہرائیں تو پھر کیا کریں!
ایک دور تھا کہ جب پاکستان میں فوج نے بغاوت کی اور وہاں پر جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا تو وہاں کا سپریم کورٹ پاکستان کی فوجی حکومت کے حق میں دینے والے فیصلے پر مہر مثبت کر دیتا تھا۔ آج بھی جب جب پاکستان حافظ سعید جیسے کسی پاکستانی فوج کے پٹھو کو جمہوری حکومت جیل میں بھیج دیتی ہے تو پاکستان کی کوئی نہ کوئی حکومت حافظ سعید کی رہائی کا حکم سنا دیتی ہے۔ کیا اسیما نند اور سادھوی پرگیا ہندوستانی سنگھ نظام کیلئے وہی اہمیت نہیں رکھتے جو مقام حافظ سعید کا پاکستانی فوجی نظام کیلئے رکھتے ہیں! یعنی خواہ وہ ہندوتانی نظام کا پٹھو ہو یا پاکستانی فوج کا پٹھو، دونوں ملکوں کی عدلیہ کے نظام کے پٹھو کبھی کسی جرم کے مرتکب نہیں ہو سکتے ہیں۔ خواہ ان پر کسی جج کے قتل کا الزام ہو، خواہ وہ کسی عبادت گاہ میں بم دھماکے میں مظلوموں کی جان لے لیں یا وہ مشتعل مجمع کی قیادت کر کے کسی سابق ممبر پارلیمنٹ کا قتل کروا دیں۔ چیف جسٹس مشرا کے جج لویا کی موت مقدمے میں فیصلے کے بعد تو کم از کم یہ طے ہو گیا ہے کہ اب اس ملک کی عدلیہ کا مزاج وہی بن چکا ہے جو پاکستانی عدلیہ کا مزاج ہے اور یہ بہت سنجیدہ بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ جسٹس مشرا کو نظام عدلیہ سے فوراً باہر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے دو اسباب ہیں۔ اگر جسٹس مشرا کو باہر نہیں کیا جاتا تو پھر یہ سمجھ لیجئے کہ ہندوستانی عدلیہ بھی پاکستانی عدلیہ بن کر رہ جائے گی۔ پھر تو اس ملک کا نظام ہی جب چاہے عدلیہ کا کان مروڑے اور جو چاہے فیصلہ لکھوا لے۔ اس سے بھی سنجیدہ بات یہ ہے کہ اگر ملک کا سپریم کورٹ جو چاہے فیصلہ دے تو پھر نچلی عدالتوں میں کیا من مانی ہوگی، اس کا اندازہ لگایا جانا ممکن ہے۔ اس لئے خواہ کچھ بھی ہو عدلیہ کو درست کرنا لازمی ہے۔ یہ کرنے کیلئے اگر چیف جسٹس کو ہٹانے کا سخت قدم اٹھانا پڑے تو ملک کے مفاد میں یہ قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن مودی حکومت کے چار برسوں کے اندر اس ملک کا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں بچا جس کو اورپر سے لے کر نیچے تک بھگوا رنگ میں نہیں رنگا گیا ہے! عدلیہ کا ذکر ہو چکا ہے۔
پارلیمنٹ کا یہ عالم ہے کہ وہاں مودی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہے اور اسپیکر اس کو منظور ی ہی نہیں دے رہے ہیں۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کی تاریخ میں ایسا اس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔ یعنی ملک کی پارلیمنٹ نریندر مودی کی جیب میں ہے! حزب اختلاف کی پارٹیاں حکومت کے خلاف منہ ہی نہیں کھول سکتیں۔ اب بتائیے اس کو جمہوریت کہیں گے آپ! پھر انتظامیہ یعنی افسر شاہی کا یہ عالم ہے کہ وہ مودی حکومت کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ پھر میڈیا کا ذکر ہی کیا۔ تمام قومی اخبار، ٹی وی چینل سرکار کے بھونپو بن چکے ہیں۔ یعنی اس ملک میں جمہوری نظام کے تمام عضو مفلوج ہو کئے جا چکے ہیں۔ جمہوریت کا لبادہ پہن کر اس ملک پر محض نریندر مودی اور موہن بھاگوت کی من مانی چل رہی ہے۔
پھر ذرا اور نگاہ ڈالئے تو قیامت ہی نظر آتی ہے۔ کبھی موب لنچنگ ہوتی ہے تو کبھی ایک معصوم بچی کی عصمت دری۔ اتنا ہی نہیں ملزمان کے حق میں ترنگا یاترا نکالی جاتی ہے جس میں ریاستی حکومت کے دو وزراء شریک ہوتے ہیں۔ کیا یہ کسی مہذب سماج کے لچھن ہیں! پھر معاشی نظام پر نگاہ ڈالئے تو عجیب افرا تفری کا عالم ہے۔ بینکوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ڈوبنے کی کگار پر ہیں۔ کبھی نوٹ بندی کا قہر تو کبھی اے ٹی ایم سے نوٹ غائب۔ عوام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کب اپنے ہی پیسے سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ادھرنیرو مودی اور مالیا جیسے ہزاروں کروڑ بینک سے قرض لے کر ملک کے باہر جا چکے ہیں اور مودی حکومت ان کا بال بھی بنگا نہیں کر پا رہی ہے۔
الغرض اس ملک کانظام ہی الٹ چکا ہے۔ مودی حکومت نے پورے جمہوری نظام پر قدغن لگا دی ہے۔ ملک میں معاشی لوٹ کا بازار گرم کر رہی ہے۔ میڈیا حکومت کی جوتیاں اٹھا رہا ہے۔ ہندوستان ہندوستان نہیں بلکہ اندھیر نگری بن چکا ہے جس میں چوپٹ راجا کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اس نظام پر اگر روک نہیں لگتی تو پھر ہندوستان کو دوسرا پاکستان بننے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس لئے ملک میں جو اندھیر نگری مچی ہے اسی پر لگام کسنے کے لئے سب سے پہلے چیف جسٹس کے خلاف مواخذہ کا عمل شروع ہونا چاہئے تاکہ ملک میں آئینی نظام و ضبط قائم ہو سکے!