ڈاکٹر مجید خان
غور وفکر کے اصلاح کے موضوع کو مزید وسعت دیتے ہوئے میں اس کو اور موثر بنانے کے لئے چند تجاویز پیش کرنا چاہوں گا ۔ یہ میرے اپنے مشاہدات اور تصورات ہیں سب کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ ان نفسیاتی معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاح معاشرہ کے عملی پروگرامس کو بہتر انداز میں مرتب کیا جاسکتا ہے ۔
سب سے پہلے اس بات کو ماننا پڑے گا کہ عوامی اجلاس میں صرف تقاریر ہوسکتی ہیں کام نہیں ۔ ٹھوس کام کیلئے عوام کو مختلف درجوں میں منقسم کرنا ہوگا ۔ یہ درجہ بندی خواتین اور مردوں کی علحدہ ، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا زمرہ الگ ، والدین کا گروپ الگ اور سب سے اہم عمر کے لحاظ سے درجہ بندی مختلف ہونی چاہئے ۔
15 تا 25 سال کے لڑکے اور لڑکیوں کے گروپ پر اولین توجہ کی ضرورت ہے ۔ عقلی اعتبار سے کالج کے طلباء ہوں تو ان سے مخاطبت علحدہ انداز میں ہونی چاہئے ۔ بہرحال بہت ہی مخصوص اور مرکوز انداز میں یہ پروگرام ، ورکشاپ کی شکل میں منعقد کیا جانا چاہئے اسکے لئے پہلے ہی سے مندوبین کی رجسٹری ہونی چاہئے اور پروگرامس کو ایک منظم انداز میں منعقد کرنا چاہئے ۔ اس ورکشاپ میں نوجوانوں کو چھوٹے چھوٹے گروپس میں دئے گئے زندگی کے متفرق مگر معنی خیز مسائل پر بحث کرتے ہوئے ایک مشترکہ جواب کمپیوٹر پر تیار کرکے پورے گروپ کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔
کسی بھی تحریک کے اغراض و مقاصد کو سمجھنے کیلئے موضوع کا صحیح جائزہ لینے کی صلاحیت ہونی چاہئے ورنہ تعمیری بحث کے بجائے ٹکراؤ یا تکرار شروع ہوسکتی ہے ۔ بات کرنے سے زیادہ کسی کے بھی خیالات کو غیر جانبدارانہ انداز میں تجزیہ کرنے کی تربیت و تعلیم ضروری ہے ۔
سامعین اگر کھلے ذہن کے حامل ہوں تو یہ مشق آسان ہے اگر بند ذہن کے ہوں یعنی انکے خیالات کسی خاص ماحول ، تعلیم و تربیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں اور بیان کردہ معلومات انکی شخصیت ، مزاج اور ان سے ہم آہنگ نہ ہوں تو پھر لامتناہی تکرار کا سلسلہ جاری ہوسکتا ہے ۔ ایسے افرادکی غورو فکر کی اصلاح ممکن نہیں ہے ۔ ان کو ان مجالس میں شامل کرنا بے فیض ہے ۔ گوکہ تمام طلباء کو ایک اسکول میں ایک ہی نصاب کے تحت مساویانہ تعلیم دی جاتی ہے مگر ہر طالبعلم اپنے خاص طرز سے سوچتا ہے اور اپنا ذہن بناتا ہے ۔ گو کہ اسکولی نظام معلومات کی یکسانیت پہنچانا چاہتا ہے مگر عام طور پر طلبا جوابات حفظ کرلیتے ہیں اور غور وفکر کا فقدان ہوتا ہے ۔ اچھے اسکول وہ ہیں جو معلومات کو مسائل زندگی سے مربوط کرتے ہوئے طلباء کی غور و فکر کو وسعت دیتے ہوئے انکی یادداشت کو کارکرد بناتے ہیں ۔ مضامین کو رٹ لینے سے درجہ اول میں کامیاب تو ہوجائیں گے مگر عقلی نشو و نما نہیں ہوگی ۔ مثلاً دس دفعہ دہراکر یاد کرلیں کہ غدر کی تاریخ 1857 تھی اور صحیح جواب آپ لکھ دیں تو صد فیصد نمبر حاصل کرینگے مگر اسکی غورو فکر کی ارتقا میں کیا اہمیت ہے اگر کوئی طالبعلم 1860 لکھ دے یا 1850 لکھ دے تو کیا فرق ہوتا ہے ۔ مگر نستعلیقی اساتذہ اس کو غلط کہیں گے اگر اس کے بجائے ہندوستانی فوجی بغاوت کے تعلق سے سوال کیاجائے تو پھر طلباء تاریخ کو سمجھ سکیں گے ۔ بہرحال ہر اسکول میں ہر مضمون کے پڑھانے کے بعد طلباء سے اس پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا جائے تو انکی توجہ اور دلچسپی کا اظہار ہوگا ۔ اب ایک خاندان کی عملی مثال پیش کرتا ہوں ۔ لڑکی کو بہترین ایمسیٹ کوچنگ ادارے میں شریک کروایا گیا اور والدین امید افزا تھے کہ وہ چونکہ ذہین اور محنتی لڑکی ہے اس لئے اس کے آگے کے امتحانات بھی بآسانی کامیاب کرلے گی مگر ادارے سے مسلسل شکایات غیر حاضری ، عدم دلچسپی اور غیر ذمہ دارانہ حرکات کی آنی شروع ہوئیں ۔ غیر ذمہ دارانہ رویے میں سیل فون کے کرتوت اور لڑکوں سے ضرورت سے زیادہ بے تکلفی ۔ جب لڑکی سے پوچھا جاتا تو تشدد اور لڑائی جھگڑے ہوتے گئے اور کمرے میں بند ہو کر کلائیوں کو کاٹ لیا یا پھر نیند کی دوائیں کھالیں ۔ کھانا بند کردینا اور ماں باپ سے بات چیت موقف ہوجاتی ہے ۔
میرے اپنے تجربے کی بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اس لڑکی کا تعلیمی مستقبل تاریک اور مستحکم شادی کے آثار موہوم نظر آتے ہیں ۔ اس بگڑی ہوئی شخصیت کی چند خصوصیات میں لکھنا چاہوں گا کیونکہ آجکل کے ماحول میں ایسے واقعات زیادہ دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ اگر اس کو ہم وقت پر سمجھ جائیں تو حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔
ماں نے لڑکی کی غیر موجودگی میں اس کے گرتے ہوئے کردار کے بے شمار واقعات سنائے ۔ جب لڑکی سے علحدہ میں دریافت کیا گیا تو وہ روتے ہوئے بہت ہی موثر انداز میں والدین کی ہر شکایت کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ کہا کہ سب سے پہلی بات تو یہ کہ میری تعلیمی حالت بہترین ہے اور ہر امتحان میں میرا نمبر دس کے اندر ہوا کرتا ہے ۔ میں سب سے دوستی رکھنا چاہتی ہوں جو اساتذہ کو پسند نہیں اور وہ لوگ والدین سے میری شکایت کرتے ہیں اسی لئے مجھے غصہ آتا ہے ۔ میں توڑ پھوڑ کرتی ہوں اور تنگ آکر اپنے آپ کو نقصان پہنچاتی ہوں ۔ عجیب بات تو یہ ہیکہ جب میں انتہائی تشدد کی حالت میں اپنی کلائیوں کو کاٹنے پر اپنا لہو بہتا ہوا دیکھتی ہوں تو پھر مجھے بڑا سکون ہوتا ہے ۔ کئی خاندان اس کشمکش میں مبتلا ہیں اس لئے میں ان بگڑی ہوئی شخصیت کی چند خصوصیات بیان کرنا چاہوں گا جن کو پہچاننا مشکل کام نہیں ہے ۔ ان تمام نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں سب سے اہم جو کیفیت ہوتی ہے وہ اندرونی خوف اور خوف کا تعلق ہے چاہنے والوں کی بے رخی سے اور اظہار بے تعلقی یا چاہنے والوں سے تعلقات کا منقطع ہونے کا اندیشہ ۔ انکے ناپسندیدہ حرکات انہی شکوک اور تصورات پر مبنی ہوتے ہیں ۔ بچپن میں اگر والدین کے درمیان سخت اختلافات اور مسلسل کشیدگی ہو تو یہ احساس تقویت پانے لگتا ہے ۔
ان لوگوں میں تلون مزاجی بڑھتی ہے گھڑی میں یہ لوگ ہنستے کھیلتے رہینگے اور دیکھتے ہی دیکھتے تیور بدل جاتے ہیں اور تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔
اسکے ساتھ ساتھ مستقل اکیلا پن اور اکتاہٹ کا احساس ستاتا رہتا ہے ۔ بیزارگی یعنی Boredom بہت نمایاں معلوم ہوتی ہے ۔ بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی فیصلہ کربیٹھتے ہیں ۔ ضد اور جلد بازی اس کو اور بھی خطرناک صفت بنادیتی ہے ۔ غصے اور جلد بازی میں یہ لوگ کوئی بھی خطرناک اقدام کرسکتے ہیں مثلاً اقدام خودکشی یا گھر سے غائب ہوجانا وغیرہ وعیرہ ۔ یہ بیہودہ حرکات مسلسل رہا نہیں کرتے ہیں جیسے کہ عام دماغی مریضوں میں دیکھا جاتا ہے ۔ دورے کی شکل میں یہ طوفان بدتمیزی اور تشدد آتا ہے اور نقصانات کرتے ہوئے چلا جاتا ہے اور پھر یہ لوگ بالکل اچھے رہتے ہیں مگر افسوس کی بات تو یہ ہیکہ ان کو اپنے کئے ہوئے بدنما اور شرمناک حرکات پر کسی قسم کا تاسف نہیں ہوتا اسکے بجائے وہ اپنی غلطیوں کو دوسروں کے سر تھوپتے ہیں ۔ یہی انکے کردار کی سب سے بڑی خامی و خرابی ہے ۔
اصلاح معاشرہ کو موثر بنانے کے لئے ان اوپر بیان کئے ہوئے شخصیات کی شناخت اگر ہوجائے تو مہم کامیاب ہوسکتی ہے ۔ اس لئے کامیاب ہوسکتی ہے کیونکہ یہ لوگ سماج کو چلاتے ہیں ۔ دوسرے لوگ خاموش اور مقلد ہی ہوا کرتے ہیں ۔ کئی معصوم ان خطرناک لوگوں کے سحر میں اس بری طرح سے مقید ہوجاتے ہیں کہ انکی اپنی سمجھ بوجھ مفلوج ہوجاتی ہے اور ایک روبوٹ کی طرح انکی ہدایت پر جان کی قربانی دینے کیلئے بھی تیار ہوجاتے ہیں ۔ اسی لئے ہم کو چاہئے کہ اصلاح معاشرہ کے ہتھیار کو عصری نفسیاتی معلومات کی روشنی میں تیز سے تیز تر کرتے رہیں ۔