بابری مسجد …مذاکرات نہیں فیصلہ چاہئے
یوگی راج میں بھکت بے قابو
رشیدالدین
ایودھیا میں 6 ڈسمبر 1992 ء کو جب بابری مسجد شہید کی گئی تو رات میں اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے قوم سے نشری خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ’’مسجد وہیں بنے گی‘‘ مسجد تو بنی نہیں لیکن مسجد کی شہادت کے فوری بعد مسجد کے مقام پر عارضی مندر کھڑا کردیا گیا۔ عارضی مندر آج تک نہ صرف برقرار ہے بلکہ اسے وقتاً فوقتاً مضبوط و مستحکم کرتے ہوئے مستقل ڈھانچہ کی شکل دیدی گئی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں ایودھیا تنازعہ کو عدالت کے باہر باہمی مشاورت اور دوستانہ انداز میں حل کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ مشورہ اپنی جگہ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالتی احکامات کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسجد کے مقام پر جوں کا توں موقف برقرار نہیں رکھا گیا، اس پر عدالت کا کیا موقف ہے۔ اس طرح مسجد کے مقام پر تعمیر کردہ عارضی ڈھانچہ غیر قانونی ہے اور اگر اسے ہٹانے کی کارروائی ہوتی ہے تب کہیں جاکر عدالت کے باہر خوشگوار حل کے سلسلہ میں مذاکرات پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ اب عدالت کا کام ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے غیر قانونی ڈھانچے کے بارے میں اپنا موقف واضح کریں۔ یہی اصولی اور قانونی موقف بھی ہے کہ جب تک عارضی ڈھانچہ برقرار رہے گا ، اس وقت تک بات چیت نہیں کی جاسکتی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب دنیا بھر میں ہندوستان کی رسوائی ہوئی اور دنیا میں ٹیلی ویژن اسکرین پر تاریخی مسجد کو شہید ہوتے دیکھا تو نرسمہا راؤ کو حکومت کی ساکھ بچانے کیلئے اسی مقام پر تعمیر کا اعلان کرنا پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ مرکز کا موقف بھی بدلنے لگا ہے اور نرسمہا راؤ آخر کار وعدہ سے مکر گئے۔ بعد میں کیا ہوا ، کس طرح نرسمہا راؤ نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو سیاسی طور پر پھلنے پھولنے کا موقع دیا ، اس سے دنیا واقف ہے۔ اتنا ہی نہیں ان کا عبرتناک انجام بابری مسجد کے مجرمین کیلئے درس عبرت ہے ۔ عدالت کے باہر مسئلہ کی یکسوئی کی باتیں سننے اور کہنے میں تو اچھی لگتی ہے لیکن یہ محض مفروضہ کے سوا کچھ نہیں ۔ مسجد کی اراضی کی ملکیت کا تنازعہ 70 برسوں سے عدالت میں زیر دوران ہے اور گزشتہ 24 برسوں سے مسجد کی شہادت کی سازش کا مقدمہ بھی چل رہا ہے ۔ ایسے میں عدالت کے باہر مسئلہ کی یکسوئی کس طرح ممکن ہے اور دونوں مقدمات کا کیا ہوگا ؟ جہاں تک شرعی موقف ہے ، کوئی بھی مسجد تاقیامت مسجد برقرار رہتی ہے اور اسے منتقل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بابری مسجد کوئی گھریلو تنازعہ نہیں کہ کونسلنگ کے ذریعہ یکسوئی کردی جائے۔ مولانا علی میاں جب حیات تھے تب ان کی صدارت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی بابری مسجد کمیٹی نے تنازعہ کے حل کو قوم کی ضمیر پر چھوڑ دیا تھا ۔ آج جبکہ دوبارہ بابری مسجد مسئلہ کو ہوا دی جارہی ہے تو قوم کا ضمیر آخر کہاں گیا۔ قوم اپنے ضمیر کو ٹٹولنے کی کوشش کرے کہ آیا یہ مسئلہ مزید بگاڑ اور عوام کو بانٹنے کی کوشش تو نہیں؟ عدلیہ کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر یہ مسئلہ عدالت کے باہر حل ہوسکتا تو پھر فریقین عدالت سے رجوع کیوں ہوتے۔
عدالت اور قانون کی ذمہ داری دستاویزی ثبوت اور حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے۔ عدالت کی نظر میں ہندو مسلم ، امیر غریب اور مذاہب کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہوتا بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر فیصلہ صادر کیا جاتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسجد ایک تاریخی حقیقت ہے جس کے حق میں ٹھوس دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ مسئلہ کی مذاکرات کے ذریعہ یکسوئی کی کوشش سابق میں ہوچکی ہے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ 1990 ء میں جب بی جے پی ایودھیا اور رام مندر کے نام پر تحریک کو ہوا دے رہی تھی ، اس وقت کے وزیراعظم چندر شیکھر نے وی ایچ پی قائدین سے بات چیت کی جو بے نتیجہ ثابت ہوئی ۔ جولائی 2010 ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے عدالت کے باہر تصفیہ کا مشورہ دیا لیکن جب کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دی تو ستمبر 2010 ء کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اراضی کی تین حصوں میں تقسیم کا فیصلہ سنایا ۔ فروری 2015 ء اور مئی 2016 ء کو مقدمہ کے اصل فریق ہاشم انصاری کے ذریعہ مذاکرات کی کوشش کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کو عدالت کے باہر تصفیہ کا جو مشورہ دیا ہے وہ کوئی ہدایت یا فیصلہ نہیں بلکہ محض ایک صلاح ہے ۔ سپریم کورٹ اس کوشش کی ناکامی پر 31 مارچ کو دوبارہ رجوع ہونے کی ہدایت دے چکا ہے جس کا مطلب صاف ہے کہ عدالت میں سماعت کا سلسلہ بحال ہوجائے گا۔ سبرامنیم سوامی نے جب یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ مسلم قائدین سے بات چیت کرچکے ہیں تب عدالت نے انہیں ایک موقع دیا ہے ۔ چیف جسٹس آف انڈیا بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے جو مسئلہ 70 سال سے حل نہ ہوسکا اسے سبرامنیم سوامی کس طرح چند دن میں حل کر لیں گے۔ مذہبی جذبات سے وابستہ مسئلہ قرار دے کر عدالت اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی۔ عدالت کو اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ عدلیہ کی عدول حکمی کرتے ہوئے کس طرح جوں کا توں موقف ختم کیا گیا ۔ ایسے وقت جبکہ اترپردیش کے نتائج کے بعد جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں بے قابو ہیں، سپریم کورٹ کا یہ مشورہ انہیں ایک ہتھیار کے طور پر مل چکا ہے جس کے ذریعہ دوبارہ اپنی دکانیں چمکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذاکرات کے مسئلہ پر خود ہندو تنظیموں کی رائے ایک نہیں ہے ۔ اراضی پر دعویداری پیش کرنے والے اکھاڑوں نے بھی بات چیت کو بے فیض قرار دیا۔ رہا سوال مسلم تنظیموں اور قائدین کی جانب سے بیان بازی کا تو ان کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں۔ بابری مسجد کے ملبہ پر اپنی دکان چمکانے اور اپنے وجود کا احساس دلانے والے دوبارہ سرگرم ہوچکے ہیں۔ ہر کوئی اپنی مصلحت اور فائدہ کو پیش نظر رکھ کر رائے زنی کر رہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ کرے جو مسلمانان ہند کی معتبر اور متحدہ آواز ہے۔ بورڈ کی بابری مسجد کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جانا چاہئے اور اگر کمیٹی متحرک نہیں ہے تو مسلمانوں کی نمائندہ شخصیتوں کے ساتھ مل کر کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی ہو۔ مسلمانوں کے درمیان موجود مودی کے بھکت بھی میدان میں آچکے ہیں۔ مسلم جماعتوں ، تنظیموں اور قائدین کو اپنے سیاسی مفادات اور مجبوریوں کے تحت رائے دیتے ہوئے عوام کو مذاق کا موضوع بنانے سے باز آنا چاہئے ۔ یہ اللہ کے گھر کا معاملہ ہے اور آخرت میں جواب دہی کے تصور کے ساتھ لب کشائی کی جائے ۔
عدالت کے مشورہ کے بعد جب ہندوتوا طاقتوں کو محسوس ہوگیا کہ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو انہوں نے مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کے مطالبہ میں شدت پیدا کردی ہے ۔ سبرامنیم سوامی جنہوں نے سپریم کورٹ سے عدالت کے باہر مقدمہ کی یکسوئی کی رائے حاصل کی تھی ، وہ بھی مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی وکالت کی ہے ۔ اترپردیش اور دوسری ریاستوں میں بہتر مظاہرہ کے بعد بی جے پی اپریل 2018 ء کے بعد راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل کرلے گی ۔ ایسے میں حکومت کیلئے کوئی بھی قانون سازی کو منظوری دینا آسان ہوجائے گا ۔ ایسے وقت جبکہ مخصوص نظریات کا ملک بھر میں غلبہ بڑھتا جارہا ہے ، ان پر دنیا بھر کے انسانی حقوق کے اداروں کی نگرانی میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ اگر اکثریت اور طاقت کے غلبہ کے نشہ میں من مانی فیصلے کئے جائیں تو یہ فیصلے ملک کی سالمیت اور یکجہتی کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی مسلم دشمنی سے کون واقف نہیں ، یہ وہی شخص ہے جس نے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کیلئے عدالت میں درخواست دائر کی ہے ۔ کیا سپریم کورٹ اس معاملہ کو بھی عدالت کے باہر بات چیت سے یکسوئی کا مشورہ دے گا۔ بابری مسجد کی شہادت کے ملزمین کے خلاف سازش کا مقدمہ سپریم کورٹ میں جاری ہے جس میں ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی اور ونئے کٹیار جیسے اہم قائدین شامل ہیں۔ کیا سپریم کورٹ اس مقدمہ کو بھی عدالت کے باہر حل کرنے کی سفارش کرے گا ؟ بابری مسجد کے حق میں عدالت میں جو دلائل اور دستاویزی ثبوت پیش کئے گئے ہیں، وہ انتہائی مستحکم ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل دلائل کی کمزوری کے سبب فریق ثانی عدالت کے فیصلہ کے بجائے آستھا کی بنیاد پر عدالت کے باہر مقدمہ کی یکسوئی چاہتا ہے ۔ اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کا یوگی راج جیسے ہی شروع ہوا ریاست نراجیت کی طرف بڑھنے لگی ہے ۔ دیش بھکتی کے دعویدار ملک دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ اقلیتوں کو طرح طرح سے نشانہ بنانے کی سازشیں کی جارہی ہیں اور پہلے قدم کے طور پر مسلمانوں کیلئے حلال چیز کو حرام قرار دینے کا قدم اٹھایا گیا۔ حکومت اترپردیش کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ کسی مذہب کو اس بات پر پابند کریں کہ وہ غذا کے طور پر کیا استعمال کریں۔ مسالخ پر حملے اور انہیں بند کرنے کے احکامات کے پس پردہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی سازش ہے لیکن یہ سلسلہ تادیر قائم نہیں رہ سکتا ۔ وزیراعظم کے بیانات نمائشی ہوچکے ہیں۔ ایک طرف وہ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا نعرہ لگا رہے ہیں لیکن اترپردیش میں یوگی راج کا نعرہ کچھ یوں ہے ’’یو پی میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کہنا ہے‘‘۔ یوگی کی حلف برداری میں ملائم سنگھ اور اکھلیش کی شرکت نے سیکولر طاقتوں کو شرمسار کردیا ہے ۔ مایاوتی نے اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو تقریب سے دور رکھا۔ پتہ نہیں کرپشن کے کیا معاملات ہیں کہ باپ بیٹے مودی کی خوشامد کرنے حلف برداری میں پہنچ گئے ۔ ویسے بھی سماج وادی پارٹی کو بی جے پی کے ساتھ کام کرنے کا خاصا تجربہ ہے ۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہے میرے دل پہ حق کس کا حکومت کون کرتا ہے
عبادت گاہ کس کی ہے عبادت کون کرتا ہے