عام انتخابات میں اخلاقی اقدار کی شکست

غضنفر علی خان
2014 ء کے عام انتخابات پوری طاقت سے لڑے گئے۔ تمام پارٹیاں خواہ قومی ہوں یا علاقائی خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئی تھیں۔ ہر پارٹی اُمید کررہی ہے کہ جیت اس کی ہوگی۔ خیر جیت کس کی ہوگی، کون ہارے گا، اس سے ہمیں مطلب نہیں اور اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ ابھی ان اہم چناؤ کے نتائج آنے باقی ہیں لیکن ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران انتخابات میں ملحوظ رکھی جانے والی اخلاقی اقدار کو ہر سیاسی پارٹی نے بُری طرح پامال کیا۔ ان اخلاقی قدروں میں ایک دوسرے کا احترام، شخصی حملوں سے گریز، ذاتیات، خاندان یا اس کے افراد کے بارے میں عموماً کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ شخصی حملوں، ذاتیات اور خاندان کے سوا کسی اہم قومی مسئلہ کا تذکرہ نہیں رہا۔ انتخابی مہم میں پلیٹ فارم سے جو تقاریر ہوئیں ان میں پارٹیوں کے لیڈر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے رہے۔ ایک دوسرے کی عیب جوئی کرتے رہے۔

یہ صورتحال اس لئے بھی پیدا ہوئی کہ انتخابات لڑنے والوں کے پاس اپنے بارے میں کچھ کہنے سننے کے لائق تھا ہی نہیں۔ پارٹیوں کو ایک ہی متبادل دکھائی دیا کہ حریف جماعت پر جائز ناجائز، معقول غیر معقول ہر قسم کی تنقید کی جائے۔ کسی پارٹی کے ٹریک ریکارڈ میں رائے دہندوں کو دکھانے اُنھیں لبھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹیوں نے بلا امتیاز شخصی اور خاندانی پس منظر کو تنقید کا نشانہ بنایا، حسب نسب کا تک تذکرہ کیا گیا۔ اس بات کا خیال تک نہیں کیا گیا کہ انتخابی جلسوں کے پلیٹ فارم سے غیر پارلیمانی زبان استعمال نہیں کی جانی چاہئے۔ اس معاملہ میں بی جے پی کی انتخابی مہم کی قیادت کرنے والے نریندر مودی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اور آخری مراحل میں تو وہ ہاتھ دھوکر کانگریس کی انتخابی مہم میں مرکز نگاہ رہیں پرینکا گاندھی کے پیچھے پڑگئے۔ یہ عجیب انتخابات تھے جس میں ہر غیر اہم مسئلہ Non Issue مسئلہ بناکر پیش کیا گیا۔ پرینکا کے نام پر تک اعتراض کیا گیا کہ وہ سیاسی فائدہ کے لئے اپنے نام کے ساتھ گاندھی لگاتی ہیں حالانکہ وہ شادی کے بعد پرینکا وڈرا ہوگئی ہیں۔ وہ اس لئے گاندھی کا اضافہ کرتی ہیں کہ انھیں ’’گاندھی ۔ نہرو‘‘ خاندان سے اپنی وابستگی کا سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو اس سے انتخابات کا کیا تعلق ہے۔ کیا یہ کوئی عوامی مسئلہ ہے، کوئی معاشی، سیاسی، معاشرتی مسئلہ ہے۔

پرینکا گاندھی کسی نام سے جانی جائے اس لئے ہندوستان کی معیشت، اس کی صنعتی ترقی، اس ملک کو درپیش سنگین مسائل کا کوئی تعلق نہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسائل کا ایک جنگل ہے اس قسم کے اعتراضات وہ بھی اتنے اہم انتخابات میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ پرینکا نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اُنھوں نے مودی پر خوب تنقید کی لیکن ایک فرق یہ تھا کہ اُنھوں نے مودی کی ذاتیات پر حرف گیری نہیں کی البتہ ان کے گجرات ترقیاتی ماڈل پر تنقید کی جس کا انھیں حق تھا۔ برخلاف اس کے ساری مہم کے دوران ’’ماں ۔ بیٹے‘‘ کا الاپ کرنے والے مودی نے یہ تک نہیں سوچا کہ دنیا کا مقدس ترین رشتہ ’’ماں بیٹے‘‘ ہی کا ہے۔ اس کی پاکیزگی کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ ماں بیٹے سے ان کی مراد سونیا گاندھی اور راہول گاندھی سے تھی۔ ہندوستانی سیاست میں خاندانی سلسلے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ پہلے بھی قرابت داری اور اقربا نوازی ہماری سیاست میں چلتی رہی ہے۔ اختلاف اُصولوں، پالیسیوں اور طریقہ کار کا ہوتا ہے۔ اختلاف نجی اور شخصی نہیں ہوتا۔ اس بات سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ کس پارٹی کے امیدوار نے کس سال شادی کی تھی۔ وہ آج بھی میاں بیوی کی طرح رہتے ہیں یا ان میں علیحدگی ہوگئی ہے۔ پارلیمانی انتخابات کے پرچہ نامزدگی میں ایک کالم ضرور ہوتا ہے کہ جس میں یہ اندراج کرنا پڑتا ہے کہ امیدوار شادی شدہ ہے یا نہیں۔ مودی نے یہ کالم پُر نہیں کیا تھا۔ بس پھر کیا تھا کہ اپوزیشن خاص طور پر کانگریس نے آسمان سر پر اُٹھالیا حالانکہ یہ ایک نجی مسئلہ ہے کہ مودی شادی شدہ ہیں لیکن بلکہ طویل عرصہ سے وہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ مودی نے کوئی غلطی نہیں کی۔ جب کانگریس نے ان پر وار کرنا شروع کیا تو مودی نے جوابی وار میں سارے گاندھی خاندان کی کھدوائی کردی۔ ایسی ایسی باتیں اُنھوں نے کیں کہ لوگوں نے ’’کان پر ہاتھ دھر لئے‘‘۔ اب سوچئے تو سہی کہ کیا گاندھی خاندان کے مسائل یا مودی کا شادی شدہ ہونے کے باوجود پرچہ نامزدگی میں کالم کا پُر نہ کرنا کوئی قومی مسئلہ ہے۔ کیا جمہوریت کی ترقی ، اس کے فنا و بقاء کا اس سے کوئی تعلق ہے جہاں تک نریندر مودی کی بات ہے وہ تو سارا ہندوستان جانتا ہے کہ وہ اول درجہ کے فرقہ پرست ہیں۔ مسلم دشمنی ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ انھوں نے گجرات کی ترقی کا جو دعویٰ کیا ہے وہ کتنا کھوکھلا ہے اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ سونیا گاندھی نے جو انتخابی مہم کے دوران سنجیدہ رہیں مجبور ہوکر یہ کہہ دیا کہ ’’بھگوان ہی گجرات کی ترقی کے مودی ماڈل سے ہندوستان کو بچا سکتا ہے‘‘۔ یہ بات اپنے اندر ایک سچائی رکھتی ہے کہ فرد واحد کسی علاقہ کی ترقی نہیں کرسکتا۔ ترقی کے لئے عوام اور ان میں مخصوص طبقات کی محنت، لگن، جانفشانی اور ایثار و قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مودی جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے کہ گجرات نے جو ترقی کی ہے وہ ترقی ان کی مرہون منت ہے۔ مودی دراصل اس اُصول پر اپنی انتخابی مہم چلاتے رہے کہ ’’جھوٹ کو اتنی بار اور اتنی ڈھٹائی سے بولو کہ یہ سچ معلوم ہونے لگے‘‘۔ لیکن عوام اپنی سمجھ بوجھ استعمال کرتے ہیں اور اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ مودی نے ساری اخلاقی حدیں پار کرلیں۔ انھیں کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ وہ کس کے خلاف کیا بول رہے ہیں۔ اخلاقی طور پر انتخابی مہم میں نہ تو علاقائی جذبات اُبھارے جاسکتے ہیں اور نہ ذات پات کو اُچھالا جاسکتا ہے۔

لیکن اس بات کا بھی اُنھوں نے اترپردیش میں مہم کے کم و بیش آخری مراحل میں ذکر کیا وہ بھی اس لئے کہ اس علاقہ میں بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر اور سابق چیف منسٹر مایاوتی کا اثر انھیں زیادہ دکھائی دیا اور مایاوتی کا تعلق سماج کے کمزور اور پسماندہ طبقہ سے ہے۔ محض ووٹ حاصل کرنے کے لئے مودی نے کہاکہ ان کا تعلق نچلی ذات سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اعتراف اُنھوں نے ساری مہم کے دوران کیوں نہیں کیا، مشرقی یوپی میں وہ بھی مایاوتی کے قلعہ میں کیوں کیا۔ یہ ان کی موقع پرستی کی دلیل ہے۔ مایاوتی کا اثر مشرقی یوپی میں بڑھتا ہوا دکھائی دیا تب مودی کو اپنی ذات کے بارے میں خیال آیا ’’جب کیا تنگ بتوں نے تو خدا یاد آیا‘‘۔ مودی نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے بھی پاپڑ بیلے، اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں کچھ زرخرید لوگ ان کے ہاتھ آگئے لیکن مسلمانوں کی غالب اور فیصلہ کن اکثریت مودی کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ میر جعفر میر صادق کس گروہ میں نہیں ہوتے۔ ان کا کام ہی قوم کے مفادات کا کوڑیوں کے مول سودا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جو کچھ ہوا اس سے مودی کو مسلم ووٹ بینک میں سے کچھ ووٹ بھی نہ مل سکے۔

اخلاقی گراوٹ کی حد یہ ہوئی کہ آخر میں تو مودی اور ان کے پرزور حامی امیت شاہ نے الیکشن کمیشن کی اتھاریٹی کو بھی للکارا اس کو چیلنج کیاکہ اگر وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتا ہے تو کرے یہ بات اُس وقت مودی اور ان کے حامی نے کہی جبکہ دونوں بڑی ریاستوں اترپردیش اور بہار میں ان کے قدم اکھڑے ہوئے دکھائی دیئے۔ الیکشن کمیشن ایک خود مختار دستوری ادارہ ہے لیکن مودی کی خود سری دیکھئے کہ انھوں نے دستوری ادارہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ یہ عجیب و غریب انتخابات ہیں جن میں سوائے قومی مسائل ہر قسم کی بات کی جارہی ہے۔ بی جے پی کے پاس تو اب ’’مندر ۔ مسجد‘‘ کا مسئلہ نہیں رہا اور نہ ہی اس کا کوئی اثر رائے دہندوں پر ہوسکتا ہے۔ اس لئے بی جے پی نے کمزور اور پچھڑے ہوئے طبقات کے ووٹ بٹورنے کے لئے مودی کو امیدوار بنایا اور وہ امیدوار بنتے ہی خود کو ملک کا وزیراعظم سمجھنے لگے۔ جو شخص کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود سب کچھ سمجھ رہا ہو تو اندازہ کیجئے کہ (خدا نہ کرے) آئندہ کیا ہوسکتا ہے۔ انتخابی مہم ہوچکی، سبھی پارٹیوں نے اپنی بھڑاس نکال لی اب رائے دہندے کیا فیصلہ کرتے ہیں اس فیصلہ پر ملک کی سیکولر جمہوریت کا سارا دار و مدار ہوگا۔ لیکن یہ انتخابات اس لئے بھی یاد رکھے جائیں گے کہ ان کے دوران سیاسی پارٹیوں نے ’’اخلاقی اقدار‘‘ کو اپنے رویہ اور طرز عمل سے شکست دے دی۔