رپورتاژ ۔ محمود الحسن ہاشمی
کل ہند مرکزی مجلس چشتیہ نے حضرت امیر خسرو کے مقبول خاص و عام کلام ، شاعری اور موسیقی سے نیز قومی یکجہتی کے لئے ان کی مثالی خدمات سے روشناس کرانے کے لئے تیسرے سالانہ عالمی جشن صوفی موسیقی (عالمی جشن خسرو) کا 12تا 14 ڈسمبر 2015 مختلف مقامات پر اہتمام کیا جو بے حد کامیاب رہا ۔ ہفتہ 12 ڈسمبر کو ٹھیک 6:30 بجے شام پہلے روز کا افتتاحی پروگرام :بہار خسرو مرکزی سبزہ زار باغ عام نامپلی میں بڑے شاندار پیمانے پر منعقد ہوا ۔ سب سے پہلے نوجوان آرٹسٹوں سارنگی نواز سرفرازخان اور طبلہ نواز پون کمار نے راگ یمن پیش کیا اور بعد ازاں جگل بندی پیش کی ۔ ان کے بعد آج کے پروگرام کے اصل فنکار کشمیر سے آنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ گائک پنڈت دھننجے کول کے اسٹیج سنبھالنے سے پہلے پروگرام کے ناظم ڈاکٹر آنند راج ورما نے جشن خسرو کے کنوینر اور کل ہند مرکزی مجلس چشتیہ کے معتمد حضرت مولانا مظفر علی صوفی چشتی کو جشن خسرو کے مقاصد پر روشنی ڈالنے کے لئے آواز دی ۔ صوفی صاحب نے اپنے مختصر سے خطاب میں عالمی جشن خسرو کے انعقاد کے مقاصد عالمی امن کے فروغ ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد کے قیام کو قرار دیا ۔ انہوں نے کہا ’’اس پروگرام کا مقصد عوام میں صوفیانہ کلام کے تئیں دلچسپی پیدا کرنا ہے‘‘ ۔ اس کے بعد صوفیانہ موسیقی کے گائک کی حیثیت سے عالمی شہرت یافتہ پنڈت دھننجے کول نے اپنی پاٹ دار منفرد آواز سے حضرت امیر خسرو کا کلام ، پنجابی شاعر و صوفی بھُلے شاہ کی کافیاں اور بعض کشمیری صوفیوں کا کلام سنا کر سماں باندھ دیا اور سامعین کے دل جیت لئے ۔ ڈائرکٹر جنرل اے سی بی جناب عبدالقیوم خان بھی گیسٹ آف آنر کی حیثیت سے شریک پروگرام رہے ۔ بہار خسرو پروگرام میں امریکہ اور برطانیہ کے قونصل جنرل مسٹر اینڈ مسز فاؤس اور امریکی قونصلٹ کی نمائندگی مسٹر اینڈ مسز اینڈریو میکلسٹر نے آغاز پروگرام سے لیکر ختم پروگرام تک شرکت کرکے ہم ہندوستانیوں کے لئے پابندی وقت کی ایک اعلی مثال پیش کی ۔ ان کے علاوہ پروفیسر عقیل ہاشمی ، مولانا افضل مرزا چشتی نقشبندی ، نواب محمد بہادر خان ، نواب احمد عالم خان ، نواب معین عالم خان بھی شریک محفل تھے ۔ آخر میں جناب ذاکر علی دانش ایڈوکیٹ نے پروگرام میں شرکت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ۔
رنگ خسرو : عالمی جشن خسرو کا دوسرا پروگرام رنگ خسرو کا چومحلہ پیالس میں 13 ڈسمبر کو شام 6:30 بجے آغاز ہوا ۔ رنگ خسرو کا آغاز شفیع خان ستار نواز سے ہوا ۔ بعد ازاں استاد بڑے غلام علی خان کے پوتوں استاد مظہر علی خان اور استاد جواد علی خان نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ استاد مظہر علی خان نے پروگرام کے آغاز میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’مولانا مظفر علی صوفی چشتی قابل مبارکباد اور قابل ستائش ہیں کہ وہ صوفی وراثت کی حفاظت کے لئے اقدامات کررہے ہیں ۔ اس کی آج ضرورت بھی تھی کیونکہ صوفی ورثہ تھوڑا تھوڑا کرکے ختم ہوتا جارہا ہے ۔ صوفی صاحب حیدرآباد کی باکمال شخصیت ہیں جنہوں نے جشن خسرو کے نام سے یہ سلسلہ شروع کیا ہے ۔ صوفی موسیقی اور قوالی کے فروغ کے لئے حضرت امیر خسرو کی جو خدمات ہیں ان کے پیش نظر ان کے نام سے ایسا پروگرام شروع کئے جانے کے وہ مستحق بھی تھے‘‘ ۔
استاد بڑے غلام علی خان کے پوتوں نے ابتداء میں حضرت امیر خسرو کی ایجادات میں سے ایک ترانہ اور ان کا بنایا ہوا ایک راگ پیش کیا پھر ان دونوں فنکاروں نے راگ بہار اور اپنے دادا استاد بڑے غلام علی خان کی بھیرویں پیش کیں اور سماں باندھ دیا ۔ رنگ خسرو پروگرام کے درمیان مہمان خصوصی ڈپٹی سی ایم محمد محمود علی کو تہنیت پیش کی گئی ۔ان کے علاوہ مہمان خصوصی ترکی قونصل جنرل اردا اولتاس ، کمشنر اطلاعات جناب نوین متل ، انجنی کمار آئی پی ایس ، جناب اسمعیل خان چیرمین ٹی ایس ای آر سی کو بھی تہنیت پیش کی گئی ۔ علاوہ ازیں جناب ہپی وینکٹیش آئی اے ایس اور نواب احمد عالم خان کو بھی تہنیت پیش کی گئی ۔ آج کے پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ڈپٹی سی ایم کے ہاتھوں عالمی جشن خسرو کے سوینئر کی رسم اجراء عمل میں آئی جس میں حضرت امیر خسرو کا ہندوی اور فارسی کلام مع انگریزی ترجمہ شامل کیا گیا ہے ۔یوں یہ سوینئر کلام خسرو پر ایک دستاویز کی حیثیت کا حامل ہوگیا ہے ۔ اس تہنیتی وقفہ کے بعد استاد مظہر علی خان اور جواد علی خان نے دوبارہ اپنے فن کا مظاہرہ شروع کیا ۔ وہ زیادہ تر کلاسیکل موسیقی پیش کررہے تھے ۔ مگر انہوں نے اب سامعین کی فرمائش پر حضرت امیر خسرو کا اور دوسرے شعراء کا صوفیانہ کلام سنانا شروع کیا جسے سامعین نے کافی پسند کیا ۔ غرض یہ فرمائشی کلام کا سلسلہ 10 بجے رات تک چلتا رہا ۔ خلوت مبارک کی خوبصورت عمارت بقعۂ نور بنی ہوئی تھی جہاں کبھی آصف جاہی حکمرانوں کا تخت شاہی بچھا کرتا تھا ۔اسی کے دامن میں منعقد رنگ خسرو کی تقریب اب اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکی تھی جس میں آرمی ، پولیس اور سکریٹریٹ کے اعلی افسروں کے علاوہ عمائدین شہر ، بیرونی قونصل ، ججس اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں پروفیسر عقیل ہاشمی ، مولانا افضل مرزا چشتی ، نواب احمد عالم خان ، نواب بہادر خان ، جناب نسیم احمد ،سید تراب علی اور دیگر اصحاب کے نام نمایاں ہیں ۔