ضمنی انتخابات کے بعد ‘ میدان بہت وسیع ہے۔

کیا 1990میں قائم کئے گئے متحدہ فرنٹ کے خطوط پر مخالف مودی اتحاد2019میں قائم کیاجاسکے گا؟
سال 1990میں این ٹی راما راؤ نے وی پی سنگھ کو وزیراعظم بننے کے بعدمبارکباد دی تھی کیونکہ غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی ’’ متحدہ فرنٹ‘‘ کی حکومت کی تشکیل عمل میں ائی تھی ‘ ہم نے سابق وزیراعظم وی پی سنگھ سے پوچھاتھا کہ کیا اس قسم کی ’’کھچڑی حکومت‘‘ ملک کے لئے بہتر تھی۔ اپنے دھیمے ردعمل میں انہوں نے کہاتھا کہ ’’ مجھے نہیں معلوم کی ٹھیک ہے یا نہیں‘ مگر یہ ضروری تھا‘‘۔

دراصل سنگھ تیسرے محاذ کی سیاست کا اصلی چہرہ تھے۔ 1989میں وہ غیرمعمولی نوعیت کے اتحاد سے کرشماتی طور پر وزیر اعظم بنے تھے جبکہ بی جے پی او رلفٹ نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیاتھا۔ اس لئے ایک نکاتی ایجنڈہ راجیو گاندھی کی حکومت کو بیدخل کرنا کارآمد ثابت ہوا تھا۔

اب سوال یہ کہایہ مذکورہ سیاسی طوفان میں کیا اسی طرح کا مخالف نریندر مودی اتحاد 2019میں کارآمد ثابت ہوگا؟۔ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان میں ہوئے حالیہ ضمنی انتخابی کے کامیاب اتحاد کے بعد اس کو مستقبل کے نشان کے طور پر دیکھاجارہا ہے۔

قدیم او رروایتی حلیف بہرحال اس بات پر غور کررہے ہیں کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست میں مودی کی رفتار پر کس طر ح روک لگایاجائے۔مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے پہلے اس با ت کا اعلان کردیا ہے کہ وہ علاقائی پارٹیوں کا ایک ’فیڈر ل فرنٹ‘ دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔

تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے بھی قومی اتحاد کا خواب دیکھ رہے ہیں۔پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو بائیڈو جو کسی وقت میں تیسرے محاذ کا پرچم تھامے تھے ‘ این ڈی اے سے علیحدگی کے بعد اسی طرح کی سونچ پر کام کررہے ہیں

۔اسی موقع کے تلاش میں یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی نے مودی کے اہم مخالفین کے لئے ایک عشائیہ کا اہتمام کیاتھا۔ شرد پورایک اور وزیراعظم کے دعویدار شرد پوار بھی اس دعوت میں شامل تھے۔

اگر 1989میں وہ مخالف کانگریس تحریک تھی جس میں دائیں او ربائیں سب ایک ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے تھے ‘ اس مرتبہ یہ نہ صرف مخالف بی جے پی ہے بلکہ مخالف مودی بھی ہے جس کو اتحادی عنصر کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

یہ سفر نہایت اہم کا حامل ہے۔ عظیم اتحاد کے طرف پیشقدمی بی جے پی کے خلاف ہی محاذ ارائی نہیں ہے بلکہ یہ سیاست میں اپنی من مانی کررہے ہی امیت شاہ او رمودی کی زندگی کیلئے بھی ایک بڑا خوف ہے۔

سال1996میں اے بی واجپائی کی تیرہ دنو ں کی حکومت اوپر چڑھ گئی کیونکہ کئی چھوٹی علاقائی جماعتیں بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی کی ’’ فرقہ پرست‘ سیاست کا حصہ بننے کے لئے ہچکچاہٹ محسوس کررہے تھے۔

آج بی جے پی پر ہندتوا کی مہراس کی اکیلے پن کی وجہہ سے نہیں ہے مگر اپوزیشن جماعتوں میں اس بات کی تشویش ضرور ہے کہ مودی اور شاہ کی زیر قیادت بی جے پی ایک خطرناک انتخابی مشین ہے جو دیگر ہر سیاسی جماعتوں کو ختم کردیں گے۔

اس میں ہندوتوا کی حقیقی ساتھی شیو سینا بھی شامل ہے جو بی جے پی کی قیادت کو ہذف تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں گنوانا چاہتی ہے‘ ایک دوسری تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جنگی خطوط پر اس مرتبہ جدوجہد نظریات کے خلاف نہیں بلکہ شخصیات کے خلاف ہے۔

مگر کیا یہ مودی کو ہرانے کی خواہش متضاد اپوزیشن کے لئے ایک کھیل تبدیل کرنے والا اقدام بنے گی؟اگر حقیقی تناسب میں اس کا جواب تلاش کیاجائے تو یہ مثبت ثابت ہوگا۔سال2014کی لوک سبھا اعداد وشمار کی بناء پر ایس پی او ربی ایس پی کا ایک اتحاد بی جے پی کو اترپردیش میں35سیٹوں پر شکست دے سکتا تھا‘ اس ریاست سے جہاں پر بھگوا پارٹی نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں۔

الائنس ہوسکتا ہے کہ اس کے اعداد وشمار کا احساس رکھتا ہو مگر وہ مودی کے ’ ’متاثرہ کرنے والی‘ سیاست کا شکار ہوسکتے ہیں۔ سال1971میں اندرا گاندھی نے تمام اتحادیوں کو جیلوں میں بند کرکے ایک مضبوط پیغام دیاتھا۔اندرانے کہاتھا کہ ’’ وہ کہتے ہیں اندر ا ہٹاؤ ‘ میں کہتی ہوں غریبی ہٹاؤ‘‘اور انہو ں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کی صفائی کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیاتھا ممکن ہے کہ مودی بھی اس حربے پر کام کریں گے ۔

اس کے علاوہ جب مخالف مودی اپوزیشن کو وزیراعظم کے انتظامیہ حوصلہ افزائی میںآجائیں گے مگر انہیں کانگریس کے انتخابی حربوں کا بھی خوف جاری رہے گا۔او ریہی وجہہ ہے کہ قومی سطح پر اتحاد قائم کرنے میں راہول کی زیر قیادت کانگریس کو مشکلات کا سامنا درپیش ہے۔

مثال کے طور پر ایک ممتا اور ایک پوار وسیع پیمانے پر راہول گاندھی کی قیادت کے مخالف مانے جاتے ہیں۔ایک مودی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کرسکتے ہیں وہیں اپوزیشن کو ایک امیدوار کے نام کے ساتھ متحد ہونے میں دشواریاں پیش ائیں گی۔

اپوزیشن کے لئے دوسرا بڑا مسئلے تمام علاقائی جماعتوں کو ایک قطار میں لانا ہے اور مودی کے آبائی مقام پر مقامی لوگوں کو متحد کرنا ہوگا۔جیسے ائی پی ایل کا دور ہے وہیں ہی توقع کی جارہی ہے کہ انڈین پولٹیکل لیگ بھی فرنچائسی ماڈل پر کھیلا جائے گا۔قومی کھلاڑیوں پر بی جے پی اب بھی حاوی ہے‘ مگر اصلی سیاسی مقابلہ گھریلو میدان میں جیتنے پر منحصر ہوگا۔