قاہرہ 16 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) قاہرہ میں دو بم حملوں سے 6 افراد بشمول دو ملازمین پولیس زخمی ہوگئے۔ مصر کے اسلام پسند صدر محمد مُرسی کی اقتدار سے معزولی کے بعد یہ تازہ ترین حملے تھے۔ پہلے حملہ سے ایک مکان کی چھت اُچھل کر دور جاپڑی جہاں پر ٹریفک پولیس ایک مصروف چوراہے پر تعینات تھی۔ الغالہ چوراہا کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مضافاتی علاقہ دوکی میں واقع ہے۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ بم جو علی الصبح دھماکہ سے پھٹ پڑا۔ حملہ آوروں نے اِس مقام پر نصب کیا تھا یہ اُسے پھینکا گیا تھا۔ دو ملازمین پولیس اور راہ گیر معمولی سے زخمی ہوئے۔ صیانتی اور طبی عہدیداروں نے کہاکہ شام میں دوسرا بم مغربی قاہرہ میں دھماکہ سے پھٹ پڑا جس سے 3 شہری زخمی ہوگئے۔
وزارت داخلہ کے بموجب ایک پولیس کار دھماکہ سے تباہ ہوگئی۔ جس کا معائنہ کیا جارہا ہے۔ صیانتی خدمات کے عہدیدار نے کہاکہ مصر جولائی سے عسکریت پسندوں کی فائرنگ اور سلسلہ وار بم دھماکوں سے دہل رہا ہے۔ جبکہ فوج نے محمد مُرسی کو اقتدار سے بیدخل کردیا تھا۔ وہ ملک کے پہلے شہری اور منتخبہ صدر تھے۔ مُرسی جون 2012 ء میں منتخب کئے گئے تھے اس سے پہلے عوامی بغاوت میں میں سابق مرد آہن حسنیٰ مبارک کو اقتدار سے بیدخل کردیا گیا تھا۔ عہدیداروں نے سابق سربراہ فوج عبدالفتح السیسی کو صدر کے عہدہ پر فائز کردیا تھا۔ اُنھوں نے تیزی سے مُرسی کی معزولی کے بعد اُن کے حامیوں کو کچلنا شروع کردیا۔
دھاؤں کے دوران 1400 سے زیادہ افراد ہلاک کردیئے گئے۔ 15 ہزار سے زیادہ اسلام پسند جن میں سے بیشتر محمد مُرسی کی تحریک اخوان المسلمین سے تعلق رکھتے تھے، قید کردیئے گئے۔ سینکڑوں افراد کو تیز رفتار مقدمات کے بعد سزائے موت دے دی گئی۔ عہدیداروں نے کہاکہ عسکریت پسندوں نے مُرسی کی برطرفی کے بعد سے اب تک تقریباً 500 افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ اسے حکومت کی کارروائی پر ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔ عسکریت پسندوں کے بیشتر حملے شورش زدہ جزیرہ نمائے سینائی میں کئے گئے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں دلیرانہ حملے بھی کئے گئے۔ جن کی وجہ سے دریائے نیل کے ڈیلٹا اور قاہرہ کے علاقے بھی متاثر ہوئے۔ بیشتر حملوں کی ذمہ داری انصار بیت المقدس نے قبول کرلی ہے جسے القاعدہ سے تحریک یافتہ گروپ سمجھا جاتا ہے جس کا ہیڈکوارٹر سینائی میں ہے۔ 2 اپریل کو ایک پولیس کا جنرل اُس وقت ہلاک ہوگیا تھا
جب قاہرہ یونیورسٹی کے روبرو 3 خواتین نے خود کو دھماکہ سے اُڑادیا تھا۔ ایک دن بعد کابینہ نے دہشت گردی کی سزا میں اضافہ کردیا اور اِن جرائم کا دائرہ وسیع کردیا جو اِس زمرہ میں شامل کئے جاسکتے تھے۔ عہدیداروں نے موجودہ حملہ کا الزام اخوان المسلمین پر عائد کیا ہے جسے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر پہلے ہی بلیک لسٹ کیا جاچکا ہے۔ سربراہ فوج عبدالفتح السیسی صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں اور اُنھوں نے بڑے پیمانے پر 26 تا 27 مئی مقررہ انتخابات میں کامیابی کا یقین ہے۔ مُرسی کی برطرفی کے بعد اِن کی مقبولیت عروج پر ہے۔