سوال : اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے پاس آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک ہے جو مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے ۔ ہر سال ربیع الاول کے متبرک مہینے میں مختصر سی دعوت کا اہتمام کر کے موئے مبارک کی زیارت کا انتظام کرتا ہوں۔ اس سال میں نے اپنے ایک قریبی دوست سے اس کا اظہار کیا اور انہیں گھر پر آثار مبارک کی زیارت کے لئے مدعو کیا۔ وہ کچھ پس و پیش کئے۔ بات چیت کے دوران میں نے ان سے کہا کہ صحابہ کرام نے نہ صرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کی حفاظت کی ہے بلکہ ان کی عقیدت و محبت کا عالم یہ تھا کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خونِ مبارک کو نوش کرلیا کرتے تھے۔ میرے دوست نے فوری انکار کردیا اور کہا کہ بات قطعاً ثابت نہیں۔
میں آپ سے خواہش کرتا ہوں کہ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک نوش کیا یا نہیں ؟ اس خصوص میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی ؟
عبدالرشید، حسینی علم
جواب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خونِ مبارک کو نوش کرنا متعدد صحابہ کرام سے منقول ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے صاحبزادے حضرت عامر روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد ماجد نے بیان کیا کہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچھنہ لگارہے تھے، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا : اے عبداللہ ! اس خون کو لیجا و اور ا یسی جگہ بہادو، جہاں کوئی نہ دیکھے، پس جب وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے تو خون مبارک کی طرف مائل ہوئے اور اسے نوش کرلیا، جب وہ واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عبداللہ ! تم نے خون کو کیا کیا ؟ عرض کیا : میں نے اس کو میرے علم میں سب سے زیادہ پوشیدہ مقام میں رکھا ہے، وہ لوگوں سے پوشیدہ رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تم نے اسکو پی لیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا : ہاں ! (حاکم ج : 3 ص : 554 )
دارقطنی میں حضرت اسماء بنت ابی بکر سے یہی روایت ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں۔ ’’ لاتمسک النار ‘ ‘ (اے عبداللہ ! تمکو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی)
حضرت عبداللہ بن زبیر نہایت بہادر ، دلیر، طاقتور ، خوب قوت کے مالک تھے ۔ الاصابہ فی تمیز الصحابہ ج : 2 ص : 31 میں ہے : قال ابو موسی : قال ابو عاصم : فکانوا یرون ان القوۃ التی بہ من ذلک الدم ۔ یعنی حضرت عبداللہ بن زبیرؓ میں جو طاقت و قوت تھی وہ اسی خون مبارک کی وجہ سے تھی۔
مواھب لدنیہ میں کتاب الجوھر المکنون فی ذکر القبائل والبطون سے منقول ہے : حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب آپ صلی اللہ وسلم کے خون مبارک کو نوش کیا تو ان کا منہ مشک کی خوشبو سے مہکنے لگا اور وفات تک ان کے منہ میں اس کی خوشبو باقی تھی۔
سنن سعید بن منصور میں ہے کہ حضرت ابو سعید خدریؓ کے والد حضرت مالک بن سنان نے احد کے دن جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا تو وہ زخم کے مقام کو چوسنے لگے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کلی کرو ۔ انہوں نے عرض کیا : میں اس کو کبھی کلی نہیں کروں گا۔ انہوں نے اس کو نگل لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس آدمی کو دیکھ لے چنانچہ وہ جنگ احد میں شہید ہوئے۔
طبرانی کی روا یت میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ من خالط دمی دمہ لاتمسہ النار‘‘ یعنی میرا خون جس کے خون سے مل جائے اس کو آگ نہیں چھوئے گی۔
ایک قریشی لڑکے نے بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنہ لگانے کے بعد آپ کے خون مبارک کو پی لیا تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذھب فقد احرزت نفسک من النار ۔ یعنی جا ! تو نے اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے محفوظ کرلیا۔
متذکرہ بالا دلائل سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک نوش کرنا صحابہ سے ثابت ہے اور وہ نہ صرف پاک و طاہر ہے بلکہ دنیا میں طاقت و قوت کا باعث اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے بچاکر جنت کا مستحق بنانے کا موجب ہے ۔
ساس و خسر کی اجازت کے بغیر
دعوت میں جانا
سوال : ایک عورت اپنے میکے میں قیام کے دوران اس عورت کے ماں باپ کے رشتہ دار کی طرف سے شادی میں شرکت کے لئے اس کے خسر کے نام رقعہ دیا گیا جس میں ’’ معہ متعلقین ‘‘ بھی لکھا ہوا تھا ۔ اس عورت کے سسرال کا کوئی بھی شخص شادی میں شرکت نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اس کا شوہر بھی۔ اس نے اکیلے ساس اور خسر کی اجازت کے بغیر صرف اپنے شوہر کی اجازت سے اکیلی اپنے ماں باپ کے ساتھ شادی میں شرکت کی۔ اس کا یہ عمل کہاں تک درست ہے ۔ کیا ساس و خسر کے احکامات اور ان کی عزت واحترام یا اجازت عورت پر لازمی نہیں ہے ؟ کیا ہر معاملہ میں عورت کے لئے صرف ا پنے شوہر کی اجازت کافی ہے ؟
فرید کوثر، مراد نگر
جواب : اگرچہ بیوی پر شوہر کی اطاعت لازم ہے اور کسی مسئلہ میں شوہر کی اجازت کافی ہے ۔ تاہم خسر اور ساس کے احترام کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر بیوی شوہر کی اجازت سے کوئی کام کرے تو شرعاً ساس اور خسر کی بھی اجازت لینا لازم نہیں لیکن اس عمل سے شوہر کے والدین کو تکلیف ہوتی ہو یا ان کی ناگواری کا ذریعہ ہوتی ہو تو بیوی کو یہ امور ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ یہ عمل اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے اور اس کیلئے دلیل کی ضرورت نہیں۔
امر بالمعروف
سوال : زید کے نکاح میں چار سے زائد بیویاں موجود ہیں۔ کیا زید کا یہ عمل شرعاً درست ہوسکتا ہے ؟ ان سے ہونے والی اولاد کا کیا حکم ہوگا ۔ کیا زید کا حقیقی بیٹا اپنے والد کو نصیحت کرسکتا ہے ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ زید کے مکان میں لڑکی ملازمت کرتی ہے ۔ زید کے گھر والوں کا سلوک اس ملازمہ کے ساتھ انتہائی ظالمانہ ہے۔ زید نے گھر والوں کی اس حرکت و رویہ پر اختلاف کیا ۔ زید کے والد ان حقائق سے واقف ہونے کے باوجود گھر والوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیا زید اپنے والد اور گھر والوں کی مخالفت کرسکتا ہے ؟
نام…
جواب : ہر مسلمان کو بشرط عدل بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کی شریعت نے اجازت دی ہے ۔ چار کے بعد جس عورت سے نکاح ہوگا وہ شرعاً نکاح فاسد ہے، چار عورتوں سے نکاح کے بعد پانچویں عورت سے اگر نکاح کرلیا گیا ہے تو اس سے فوری علحدگی اختیار کرلینا ضروری ہے اور یہ حکم اس وقت ہے جب یہ عمل لا علمی میں کیا گیا ہو۔ اس صورت میں اولاد ہوئی ہو تو اس کا نسب ناکح (باپ) سے ثابت ہوگا اور اگر حرام ہونے کا علم تھا یا اب علم ہوجانے کے بعد بھی پانچویں عورت سے صحبت کرے تو شرعاً زنا ہے اور زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا اورایسی اولاد کی نسبت ماں کی طرف ہوگی۔
حرام و ناجائز کام سے روکنے کا ہر مسلمان کو حق ہے، لڑکا بھی اپنے والد کو اخلاق کے دائرے میں رہ کر برائی و حرام سے بچنے اور اللہ کے عذاب سے ڈرنے کی تلقین کرسکتا ہے ۔ چھوٹوں کی طرف سے جب نصیحت کرنے کا موقع ہو تو وہ بڑوں کے آداب اور ان کے احترام کو پوری طرح ملحوظ رکھیں اور حق سبحانہ سے ہدایت و نیکی و ایمان پر استقامت کی دعاء بھی کریں۔ کسی مجبور و حاجتمند لڑکی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ ا ٹھانا یا اس کو ستانا اور اس پر ظلم و زیادتی کرنا سخت ناپسندیدہ امر اور نہایت بری بات ہے، اللہ سبحانہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوم کی بد دعا سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ سبحانہ کے درمیان کوئی شئی آڑ یا حجاب نہیں بنتی بلکہ وہ راست اللہ تک پہونچتی ہے۔ مذکورہ در سوال لڑکی پر ظلم کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس لڑکی سے معافی چاہیں اور آئندہ اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک سے باز آئیں تاکہ اللہ کی گرفت اور اس کی پکڑ اور عذاب آخرت سے مامون و محفوظ رہ سکیں۔
بعد ختم قرآن ایصال ثواب کرنا
سوال : پہلے میں قرآن ایک بار پڑھی بعد میں دور شروع ہوا ، اب دور ختم ہونے کے بعد فاتحہ دلانا صحیح ہے کیا؟ حضور کے نام پر بخشنا جائز ہے؟ دور ختم ہونے کے بعد کیا کرنا چاہئے ۔شریعت کے مطابق بتائے تو بڑی مہربانی ہوگی ؟
حسنیٰ خاتون، معین آباد
جواب : قران کی تلاوت اجر و ثواب کا باعث ہے ۔ قرآن کو ختم کرنا پسندیدہ عمل ہے اور قرآن پڑھنے والا اور قرآن ختم کرنے والا اجر و ثواب کا مستحق ہے۔ ختم قرآن پر شرعی طور پر کوئی فاتحہ دلانا یا ایصال ثواب کرنے کا کوئی حکم نہیں ۔ تاہم اگر کوئی تلاوت قرآن کے بعد یا ختم قرآن کے بعد اس کا ثواب اپنے مرحومین کو ایصال کرے تو مرحومین کو بھی اس کا ثواب ملے گا ۔ تلاوت کرنے والے کے اجر و ثواب میں کسی قسم کی ان شاء اللہ کمی نہیں ہوگی۔ چونکہ قرآن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے یہ قرآن ہم کو ملا جو ہمارے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے، ضابطہ حیات ہے، ہمارے دل و بدن کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے، اطمینان قلب کا ذریعہ ہے، دین و دنیا میں ترقی کا راز ہے ۔ اس لئے ختم قرآن کے بعد بطور شکرانہ اس کا ثواب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزرانے تو یہ جذبات محمود ہیں۔
حدیث ’’انا سید ولد آدم ولا فخر‘‘ کی تحقیق
سوال : حال ہی میں میرے ایک دوست سے گفتگو ہوئی وہ ائمہ اربو کی تقلید کو ضروری نہیں سمجھتے، گفتگو کے دو ران میں نے کہا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں بنی آدم کا سردار ہوں، اس پر مجھے کوئی فخر نہیں، یہ حدیث شریف ہے تو میرے دوست نے فوری کہہ دیا اس قسم کی کوئی حدیث نہیں۔ آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں اور کس کتاب میں ہے ؟
حافظ امتیاز علی، ریاض
جواب : سوال میں جس حدیث کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں۔ ’’ انا سید ولد آدم ولد فخر ‘‘ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں۔ امام مسلم نے صحیح مسلم جلد 2 ص : 245 کتاب الفضائل باب تفضیل بنینا صلی اللہ علیہ وسلم علی جمیع الخلائق میں اور امام ترمذی نے جامع ترمذی جلد 2 ص : 201 ابواب المتاقب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں امام ابن ماجہ نے اپنی سنن ابن ماجہ جلد 2 ابواب الزھد باب ذکر الشفاعۃ میں اور امام حاکم نے مستدرک جلد 2 ص 605 کتاب التارے خ ذکر اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ۔ علامہ ابن حبان کتاب الثقات جلد اول ص : 21 میں امام بیھقی نے شعب الایمان جلد 2 ص : 181 باب حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں متن میں معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے ۔