ایک گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ اس کا ایک کام چور بیٹا تھاجو شیخی بگھارنے میں بہت ماہر تھا، اس کو شیخ چلّی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ بڑھیا محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ بھرتی تھی۔ ایک دن بڑھیا بیمار ہوگئی، گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا ، رات کو ماں، بیٹا دونوں نے فاقہ کیا۔ اگلے دن ماں نے کہا: ’’ اب تم کچھ کام کرو، جنگل سے لکڑیاں ہی لاکر بیچ دیا کرو تاکہ گزر اوقات ہوسکے۔‘‘ شیخ چلی نے جنگل کی راہ لی۔
جو درخت اس کے راستے میں آتا، وہ اس سے پوچھتا’’ میں تجھے کاٹ لوں یا نہیں۔‘‘ کسی درخت نے بھی اس کا جواب نہ دیا۔ شام ہونے کو تھی ، شیخ چلی گھر واپس آنے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ ایک اور درخت نظر آیا، اس نے پاس جاکر پوچھا۔ ’ میں تجھے کاٹ لو ں ؟ ‘‘ درخت بولا: ’’ ہاں کاٹ لے مگر ایک نصیحت کرتا ہوں۔ میری لکڑی سے پلنگ بنانا اور بادشاہ کے دربار میں لے جانا، اگر بادشاہ اس کی قیمت پوچھے تو کہنا کہ پہلے ایک دو راتیں اس پر سوئے، پھر اگر مناسب سمجھے تو خریدے ۔ ‘‘ شیخ چلی نے درخت کی ہدایت کے مطابق اس سے لکڑیاں کاٹ کر پلنگ تیار کیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچا۔ بادشاہ نے قیمت پوچھی تو شیخ چلی نے کہا : ’’ پہلے آپ اس کو ایک دورات استعمال کریں، اگر اس میں کوئی خوبی پائیں تو انعام کے طور پر جو دل چاہے دے دیں۔‘‘
بادشاہ بہت حیران ہوا، اور شیخ چلی کے کہنے پر نوکروں کو حکم دیا کہ آج یہی پلنگ اس کے لئے بچھایا جائے۔اور جب بادشاہ اس پلنگ پر سوگیا تو آدھی رات کو پلنگ کا ایک پایا بولا : ’’ آج بادشاہ کی جان خطرے میں ہے۔‘‘ دوسرے نے کہا: ’’ وہ کیسے ؟ ‘‘۔ تیسرا بولا : ’’ بادشاہ کے جوتے میں کالا سانپ تھا۔‘‘ چوتھے نے کہا :’’ بادشاہ کو چاہیئے کہ صبح جوتے کو اچھی طرح جھاڑ کر پہنے۔‘‘ دوسری رات جب بادشاہ سویا تو پھر پلنگ کے پایوں نے باتیں شروع کیں۔ ایک بولا کہ تم پلنگ کو سنبھالے رکھو۔میں کچھ خبریں جمع کرلوں۔
تینوں پایوں نے پلنگ کو تھامے رکھا۔ جب چوتھا واپس آیا تو اس نے خبر سنائی کہ بادشاہ کا وزیر سازش کرکے بادشاہ کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ پھر دوسرا پایا گیا اور خبر لایا کہ بادشاہ کی بیوی وزیر سے مل کر بادشاہ کو زہر دینا چاہتی ہے۔ تیسرے پائے نے تجویز پیش کی کہ بادشاہ کو چاہیئے کہ وزیر کو مروا دے۔ چوتھا پایا گیا اور یہ خبر لایا کہ بادشاہ کو جو دودھ صبح پینے کو دیا جائے گا ،اس میں زہر ہوگا۔ بادشاہ یہ سب کچھ سن رہا تھا۔ صبح اُٹھ کر جب اُسے دودھ دیا گیا تو اُس نے نہیں پیا بلکہ ایک کتے کو پلادیا۔ کتا اسے پیتے ہی مرگیا کیونکہ اس کی بیوی اور اس کا وزیر دونوں مل کر اس کی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے وزیر کو مروادیا اور اپنی بیوی کو محل سے نکال دیا۔ بادشاہ نے شیخ چلی کو بلایا اور بہت سارا انعام دیا۔ شیخ چلی اَب مالدار ہوگیا اور لوگ اسے شیخ چلی کے بجائے شیخ صاحب کہنے لگے۔ بادشاہ کے دربار میں اس کی عزت ہونے لگی اور دونوں ماں بیٹا بڑے آرام کی زندگی بسر کرنے لگے۔