مارکنڈے کاٹجو
ہندوستان میں گاندھی جی کو بابائے قوم مانا جاتا ہے اور یہی رتبہ محمد علی جناح کو پاکستان میں حاصل ہے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی ممالک کیلئے ‘ جو در حقیقت ایک تھے اور مستقبل میں دوبارہ ایک ہوسکتے ہیں ( میرا مضمون ملاحظہ فرمائیں ۔ باہمی بہتری کیلئے ہندوستان و پاکستان کو متحد ہونا چاہئے ‘ ہفنگٹن پوسٹ ) حقیقی بابائے قوم مغل شہنشاہ اکبر ہیں۔
آج ہم ہندوستانی جو کچھ بھی ہیں وہ زیادہ تر اکبر کی ڈالی گئی مضبوط بنیادوں کی وجہ سے ہیں ۔ اکبر اعظم ‘ اشوک اعظم کے ساتھ دنیا کے سب سے عظیم حکمران رہے ہیں۔ اکبر کی وجہ سے ہی آج ہم نہ صرف ہندو ‘ مسلم ‘ سکھ ‘ عیسائی ‘ جین ‘ پارسی وغیرہ بلکہ ہندوستانی ہیں۔ ایس کے باوجود افسوس یہ ہے کہ کئی ہندو اکبر کو ایک مسلمان قرار دیتے ہیں جبکہ کئی مسلمان اکبر کو ایک ہندو قرار دیتے ہیں ( کیونکہ وہ کئی ہندو تہوار اور رسومات اختیار کرتے تھے ) ۔ اسی بات سے میری یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ ہندوستان میں 90 فیصد ہندو اور 90 فیصد مسلمان بیوقوف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک سنی مسلمان ہوتے ہوئے اکبر ایک حقیقی ہندوستانی تھا ۔
اکبر نے دیکھا کہ ہندوستان ایک کثرت والا ملک ہے اسی لئے ہندوستان کو متحد رکھنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام مذاہب اور برادریوں کو مساوی احترام دیا جائے ۔ اسی بات کو سمجھنے کے نتیجہ میں اکبر نے صلح کل کی دانشمندانہ پالیسی اختیار کی تھی جو عالمی بھائی چارہ سے متعلق ہے ۔ ( اکبر کی ایک مشترکہ مذہب ’ دین الہی ‘ کی بنیاد ڈالنے کی کوشش ناکام رہی لیکن صلح کل کی پالیسی کافی کامیاب رہی ) ۔
اس معاملہ میں اکبر اپنے وقتوں سے کافی آگے تھا ۔ وہ یوروپی اقوام سے بھی کافی آگے تھا جو اس وقت مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے تھے ۔ کیتھولک طبقہ پروٹسٹنٹس کو ہلاک کردیا تھا اور پروٹسٹنٹ طبقہ کیتھولک کو مار رہا تھا اور دونوں ہی یہودیوں کا قتل عام کر رہے تھے ۔ مثال کے طور پر 1572 میں اقلیتی پروٹسٹنٹ برادری ک کیتھولکس کی جانب سے یوم سنٹ بارتھولومیو کے موقع پر فرانس میں قتل عام کیا گیا ۔ اسی طرح ہالینڈ میں البا کے اسپینی ڈیوک نے پروٹسٹنٹ برادری کا قتل عام کیا ۔ اسی طرح کیتھولکس کو آئرلینڈ میں کرام ویل کے ہاتھوں قتل کیا گیا اور کیتھولکس و پروٹسٹنٹس نے جرمنی کی 30 سال کی جنگ میں ایک دوسرے کو قتل کیا ۔ اس کے بعد عیسائی برادری نے سارے یوروپ میں یہودیوں کو قتل کیا جس کے بعد دوسری جنگ عظیم ہوئی ۔
سپریم کورٹ میں ہنسا ورودھن سنگھ بمقابلہ مرزا پور موتی قریش جماعت فیصلہ 2011 میں میں نے کہا تھا کہ ’’ عصری ہندوستان کا معمار عظیم مغل حکمران اکبر تھا جس نے تمام برادری کے افراد کو مساوی احترام دیا تھا اور انہیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق بلا لحاظ مذہب و ذات پات اعلی عہدوں پر فائز بھی کیا تھا ۔
شہنشاہ اکبر نے تمام مذاہب کے ماہرین کے ساتھ مذاکرے کئے ۔ نہ صرف مسلم اسکالرس بلکہ ہندو ‘ عیسائی ‘ پارسی اور سکھ اسکالرس کو بھی عزت و احترام دیا ۔ جو لوگ اس کے دربار میں آتے انہیں احترام دیا جاتا ۔ ان کے خیالات سنے جاتے ۔ یہ وعظ و بیان کبھی تنہائی میں ہوتا اور کبھی عبادت خانہ میں ہوتا ( جو اب بھی فتح پور سیکری میں موجود ہے ) ۔ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والے جمع ہوتے اور روادارانہ جذبہ کے ساتھ اپنے خیالات کا تبادلہ عمل میں لاتے ۔ اکبر کا مذہبی رواداری اور تمام برادریوں کے احترام کا جو جذبہ تھا وہ آج بھی زیادہ قابل عمل ہے جہاں اقلیتی برادری کو حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ‘ انہیں قتل کیا جا رہا ہے اور خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔
شہنشاہ اکبر نے اپنی صلح کل کی پالیسی کا اعلان کردیا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام مذاہب و برادریوں کیلئے عالمی روادری ہوگی ۔ اس نے 1564 میں جزیہ ختم کردیا اور 1963 پر ہندووں پر مذہبی سفر کا ٹیکس معاف کردیا ۔ اس نے ہندو بیویوں کو شادی کے بعد بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دی ۔ یہ سب کچھ فتح پور سیکری میں جودھا بائی پیلس سے ظاہر ہوتا ہے جو ہندو فن تعمیر کے انداز سے تعمیر کیا گیا تھا ۔
1578 میں پارسی شخصیت دستور مہرجی رانا کو شہنشاہ کے دربار میں طلب کیا گیا اور ان کی اکبر کے ساتھ تفصیلی بات چیت ہوئی جس سے پارسی مذہب کو سمجھنے میں مدد ملی ۔ اسی طرح عیسائی پادری انٹونیو منسوراٹے ‘ پادری رڈولف اکیواوا اور پادری فرانسسکو ہنرک بھی شہنشاہ کے دربار میں اس کی خواہش پر آئے اور عیسائی مذہب سمجھایا ۔ شہنشاہ اکبر سکھ ازم سے بھی واقف تھا اور اس نے گرو امر داس اور گرو رام داس سے رابطے بنائے ۔
جس طرح کیمرج ہسٹری آف انڈیا میں کہا گیا ہے شہنشاہ اکبر نے اپنے تمام امور پر مہارت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس نے صرف مسلمانوں پر توجہ نہیں دی ۔ وہ اپنے وقتوں سے بہت آگے تھا ۔ جس طرح پنڈت جواہر لال نہرو نے ’ ڈسکوری آف انڈیا ‘ میں کہا تھا کہ اکبر کی کامیابی حیرت انگیز تھی ۔ اس نے ہندوستان کے کثیر عناصر میں یکجہتی کا عنصر پیدا کیا تھا ۔ 1582 میں شہنشاہ اکبر نے ایک جین وفد کو مدعو کیا ۔ جین رہنماوں نے عدم تشدد کا اپنا نظریہ پیش کیا جس سے اکبر کافی متاثر ہوا ۔ اس نے اپنے غذا اور پانی کم کردی اور پھر اس سال کئی مہینوں تک گوشت خوری سے دور رہا ۔ اس نے شکار ترک کردیا جو اس کا محبوب مشغلہ تھا ۔ اس نے قیدی اور محروس پرندوں کو آزاد کردیا ۔ جانوروں کے ذبیحہ کو مخصوص دنوں میں ممنوع کردیا اور 1587 میں سال میں تقریبا نصف ایام تک ان کا ذبیحہ ممنوع تھا ۔ جین برادری سے اکبر کے رابطے 1568 میں شروع ہوئے جب پدما سندر کو اس نے اعزاز پیش کیا ۔ جین برادری کا شہنشاہ اکبر پر کافی اثر رہا ہے ۔
اکبر نے جین برادری کے رہنماوں کے مذاکرے کروائے ۔ ان کو کافی قریب سے مجھا اور ان کی مذہبی تقاریب کو فروغ دیا ۔ ایک مذاکرے میں کامیاب رہنے والے جین رہنما کو جگت گرو کا خطاب دیا ۔ جین رہنما ہیرا وجئے سوری کی تعلیمات جاننے کے بعد اکبر نے انہیں اپنے دربار میں مدعو کیا ۔ سوری نے اسے قبول کیا ۔ ہری وجئے سوری اور کچھ افراد پر مشتمل وفد فتح پور سیکری تک پیدل پہونچا اور یہاں ان کاشاہانہ استقبال کیا ۔ ہری وجئے سوری کے ابو الفضل کے ساتھ مذاکرات ہوئے ۔ جب ان کا شہنشاہ سے تعارف کروایا گیا تو انہوں نے حقیقی مذہب کا دفاع کیا اور کہا کہ تمام مذاہب کی بنیاد رحم ہے اور خدا ایک ہے حالاینکہ مختلف مذاہب میں اسے مختلف نام دئے جاتے ہیں۔
شہنشاہ کو ترغیب دی گئی کہ وہ گجرات میں چھ ماہ کیلئے جانوروں کاذبیحہ روک دیں۔ مہلوک افراد کی جائیدادیں ضبط نہ کی جائیں ‘ جزیہ ختم کردیں اور محروس پرندوں اور قیدیوں کو رہا کردیا جائے ۔ سوری چار سال تک اکبر کے دربار میں رہے اور 1586 میں گجرات چلے گئے ۔ اس وقت اکبر نے شکار سے دور رہنے کا عہد کیا اور گوشت کھانے کو ترک کیا ۔ جب سوری احمد آباد روانہ ہو رہے تھے شہنشاہ نے انہیں پدما سندر کی مورتیاں پیش کیں جو ان کے محل میں محفوظ تھیں۔ اکبر نے سوری کو ایک تحفہ پیش کیا اور اسے قبول کرنے پر انہیں مجبور کیا ۔ اکبر جمعہ اور اتوار کو اور مزید کچھ ایام میں گوشت کھانے سے گریز کرتا تھا جیسا کہ آئین اکبر ( ابوالفضل ) میں موجود ہے ۔ یہ سب کچھ عظیم شہنشاہ اکبر کی رواداری کی دانشمندانہ پالیسی کا نتیجہ تھا کہ مغل شہنشاہی اتنا طویل عرصہ برقرار رہی ۔ اسی طرح کی صرف رواداری کی پالیسی ہی ہمارے ملک کو کثرت کے باوجود متحد رکھ سکتی ہے ۔
شہنشاہ اکبر اجمیر شریف میں درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒسے خاص عقیدت رکھتے تھے ۔ جب وہ پہلی مرتبہ وہاں گئے وہ سادے کپڑوں میں آگرہ سے پیدل وہاں پہونچے تھے اور کئی برسوں تک سالانہ عرس میں شرکت کرتا رہا ۔ وہ اجمیر کے قریب 10 تا 12 میل پیدل چلا کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہ شیخ سلیم چشتی کا بھی عقیدت مند تھا جو سیکری کی پہاڑیوں میں رہا کرتے تھے ۔ جب وہ پہلی مرتبہ سیکری گیا تو آگرہ سے 40 میل پیدل چل کر وہاں گیا تھا اور حضرت سلیم چشتی ؒ سے اپنا مسئلہ سنایا تھا کہ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے ۔ حضرت سلیم چشتی ؒ نے اسے دعا دی کہ اللہ اسے چار بیٹے عطا کریگا ۔ جب اس کا پہلا بیٹا جودھا بائی سے پیدا ہوا تو اس کا نام سلیم رکھا گیا اور ریاست کے نئے دارالحکومت فتح پور سیکری کی تعمیر عمل میں لائی گئی ۔
اکبر تمام مذاہب کا احترام کرتا تھا اس میں معمولی درجہ کی فرقہ پرستی بھی نہیں تھی ۔ ٹوڈر مل ‘ مان سنگھ ‘ بیربل جیسے ہندووں کو اس کے دربار میں اعلی عہدے حاصل تھے ۔ کئی فوجی کمانڈر بھی ہندو تھے ۔ سانحہ یہ ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے 90 فیصد کم عقل اور بیوقوف یہ تک نہیں جانتے کہ ان کی قوم کا اصل بابائے قوم کون ہے ۔
یہ کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی نے ہمیں 1947 میں رواداری سکھائی ہے ۔ یہ پوری طرح غلط ہے ۔ در اصل عام جلسوں میں رام راجیہ ‘ گئو رکھشا ‘ ورناشرم ‘ برہما چاریہ وغیرہ کی تعلیم دیتے ہوئے گاندھی جی مسلمانوں کو مسلم لیگ جیسی بنیاد پرست تنظیم کی سمت ڈھکیل رہے تھے ۔ یہی بات پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی برطانوی پالیسی کیلئے معاون رہی ۔ ملک کے عظیم مجاہدین آزادی جیسے بھگت سنگھ ‘ چندر شیکھر آزاد ‘ سوریہ سین ‘ اشفاق اللہ خان ‘ رام پرساد بسمل ‘ راج گرو ‘ سکھدیو ‘ خودی رام بوس نے برطانوی سامراج کے خلاف جو حقیقی جدوجہد آزادی شروع کی تھی اس سے توجہ ہٹاتے ہوئے جدوجہد آزادی کو ستیہ گرہ جیسی مہم سے جوڑتے ہوئے گاندھی جی اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ ہندوستان آزاد نہ ہونے پائے ۔
پھر انگریز کیوں چلے گئے ؟
یہ بات طئے ہے کہ انگریز گاندھی جی کے ڈراموں ( بھوک ہڑتال ‘ نمک مارچ وغیرہ ) کی وجہ سے ہندوستان سے نہیں گئے ۔ کیا اس وجہ سے کوئی ملک چھوڑ سکتا ہے ۔ ایک حقیقی معنوں کی جدوجہد ہمیشہ ہی ایک مسلح جدوجہد ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی سامراج اپنا ملک نہیں چھوڑتا جب تک مسلح جدوجہد نہ ہو ۔ امریکیوں نے برطانیہ کے خلاف 1775-1781 تک اپنی آزادی کی لڑائی پھول اور گلدستے پیش کرتے ہوئے لڑی ہے یا پھر ایک فوج نے یہ کام کیا ہے ؟ ۔ کیا بلیور نے اسپینی حکمرانوں سے ستیہ گرہ سے مقابلہ کیا ہے یا پھر اپنی بٹالین استعمال کی ؟ ۔ کیا چی منہہ نے فرانس سے اپنی بندوقوں سے مقابلہ کیا یا پھر نمک مارچ کیا ۔ کیا چین نے جاپان سے بھوک ہڑتال کرتے ہوئے اور رگھو پتی راگھو راجا رام گاتے ہوئے مقابلہ کیا تھا ؟ ۔
نہیں ۔ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ جرمنی نے دوسری جنگ عظیم میں انگلینڈ پر حملہ کردیا تھا اور اسے کافی کمزور کردیا تھا ۔ ایسے میں انگلینڈ کو احساس ہوا کہ وہ موجودہ صورتحال میں ہندوستان پر اپنی گرفت نہیں رکھ سکتا اس لئے یہاں سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ اس کے علاوہ برطانیہ پر امریکہ کا دباو بھی تھا کہ یہاں سے دستبرداری اختیا رکرلے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستانی حقیقت کو جان لیں اور یہ سمجھ جائیں کہ ہماری قوم کا حقیقی بابائے قوم کون ہے ۔
ہندوستان ایسا ملک ہے جہاںکا سماج کثرت میں وحدت والا ہے ۔ ہمیشہ متحد رہنے اور ترقی کرنے کی واحد پالیسی جو کارگر ثابت ہوسکتی ہے وہ اکبر کی پالیسی ہے جس کے ذریعہ تمام برادریوں اور طبقات کو مساوی احترام دیا جاتا تھا اسی لئے اکبر حقیقی معنوں میں بابائے قوم ہے ۔ اکبر کی اہمیت آج کے دور میں اور بھی زیادہ ہے جب ہم ملک میں ہجومی تشدد ‘ مظالم اور اقلیتوں کو کچلتا ہوا اور ذات پات اور فرقہ وارانہ تنازعات کو دیکھتے ہیں۔