تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
دسویں جماعت کے نتائج ہوں یا سیول سرویسس امتحانات میں منتخب امیدواروں کی فہرست ان میں حیدرآباد کا مقام صفر سطح پر ہے۔ حالیہ برسوں میں آئی اے ایس کی دوڑ میں حیدرآباد میں ریاست تلنگانہ سے کسی مسلم طالب علم نے حصہ نہیں لیا اور لیا ہے تو کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ اس کی وجوہات، اسباب و علل کیا ہیں اس سے مسلم معاشرہ کا عام فرد تو نہیں فکری صلاحیتوں کے حامل افراد واقف ضرور ہوں گے۔ عام مسلمانوں کو جب تک اپنا گریباں جھانکنے کی توفیق نہیں ہوتی اس وقت تک تعلیمی میدان میں ان کے بچوں کے نتائج یوں ہی صفر ہی ہوں گے۔ حیدرآباد میں تعلیمی مراکز، عصری سہولتیں اور تمام سہولتوں کے باوجود تعلیم کا گراف گھٹ رہا ہے۔ خاص کر مسلم گھرانوں کے بچوں کا معیار تعلیم عام طور پر ناقص ہے، چند ایک گھرہوں گے جہاں تندہی اور توجہ خاص کے ساتھ بچوں کو تعلیمی پروان چڑھایا جاتا ہوگا مگر یہ گھرانے بھی ایک محدود سوچ کے ساتھ اپنے بچوں کو صرف ڈاکٹر یا انجینئر بنانے یا پھر بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کو یقینی بنانے تک ہی کوشاں رہتے ہیں۔ سائنس، میاتھس، فزکس، کیمسٹری جیسے اہم نصاب میں کسی مسلم طالب علم کو خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ ان کے علاوہ سیول سرویسس کے لئے طلباء کو تیار کرنے کی فکر رکھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی زوال و انتشار کی نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ مسلمانوں کی تباہی کے تعلق سے جلسوں، اجلاسوں، مساجد کے منبروں پر بڑی بڑی تقاریر ضرور ہوتی ہیں ، اخلاق پست ہونے کا افسوس کیا جاتا ہے، مذہب کی جگہ خرافات، فکر کی جگہ بے فکری، صراطِ مستقیم کی جگہ بے راہ روی کی کئی مثالیں و ثبوت پیش کئے جاتے ہیں اس حقیقت کو سن کر ہر سامع جلسہ ختم ہونے کے بعد اپنے گھر کی راہ لیتا ہے اور اس کا ذہن و خیال تصورات کی پرانی منزلوں پر ہی نیچے اوپر ہوتا رہتا مگر تبدیلی نہیں آتی۔ سماجی برائیوں سے مزاحمت کی جگہ مفاہمت برائے ذاتی مفاد سکہ رائج الوقت بن گیا ہے۔ مسلمانوں کی خاص کر حیدرآبادی مسلم معاشرہ کی زندگی کا سارا نظام شادی خانوں، ہوٹلوں، پان کی دکانوں کے اِرد گرد منڈلارہا ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ماضی میں جن محلہ جات میں لائبریریوں کی کثرت ہوا کرتی تھی وہاں ہوٹلوں اور پان کی دکانات کی بہتات نظر آتی ہے۔ ماضی میں جو کوئی مہمان آتا تو میزبان سے نماز پڑھنے کیلئے قبلہ کا رُخ معلوم کرتا تھا آج جو کوئی مہمان آئے تو سب سے پہلے وائی فائی کا کوڈ معلوم کرتا ہے۔ وائی فائی کا کوڈ معلوم ہوتے ہی میزبان سے رشتہ دارانہ تکلم کے بجائے اپنے سیل فون پر واٹس اپ، فیس بک وغیرہ کے ذریعہ دوستوں میں دل لگارکھتا ہے۔
رشتہ داری اور رشتہ داروں کی عزت و احترام سب بالائے طاق ہوجاتے ہیں۔ اس کے اسباب بہت گہرے ہیں، خرابیوں نے شدت سے جڑ پکڑ لی ہیں۔ پڑھائی پر دھیان نہیں، کتابوں میں دل نہیں، مسلم گھرانوں نے مروجہ اُصول آج کے نوجوانوں اور بچوں کیلئے مستثنیٰ کردیئے گئے ہیں۔ بزرگوں کو یہ پتہ ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، البتہ ان کی اولاد، رشتہ داروں کے بچے کس زوال کا شکار ہورہے ہیں۔ اس طرح کی خرابیوں کے درمیان جب ایس ایس سی نتائج آئیں گے تو اس میں مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں کے نتائج سب سے پیچھے اور ناقص ہوں گے۔ ایسے میں یو پی ایس سی، سیول سرویسس امتحان کی بات بہت دور رہ جائے گی۔ ابتدائی تعلیم کا حال اتنا ابتر ہوگا تو اعلیٰ تعلیم تک پہونچتے پہونچتے مسلم بچوں کی تعداد صفر دکھائی دیتی ہے۔ ماضی اور حال کے حالات کو ملاکر دیکھیں تو پہلے سے زیادہ بہترین کوششیں ہورہی ہیں۔ مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے گروپس ان کی ترقی کے لئے فکر مند ہوکر انتظامات و اقدامات کررہے ہیں مگر ان سے استفادہ کرنے ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے والے کتنے ہیں، یہاں تک پہونچنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ ابتدائی قدم درست اور مضبوط رہیں۔ مسلم نوجوانوں کو آئی اے ایس کے قابل بنانے کے لئے ماضی میں بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور حال سے تو آپ تمام واقف ہی ہیں۔ تلنگانہ حکومت نے اس مرتبہ سرکاری سطح پر مسلم نوجوانوں کو آئی اے ایس کے قابل بنانے کی ٹریننگ کا انتظام بھی کیا ہے ،خانگی اداروں کی جانب سے بھی ہر ممکنہ کوشش کی جاتی رہی ہے مگر ان لاکھ کوششوں اور سو جتن کے باوجود سیول سرویس امتحانات کے نتائج میں مسلم نوجوانوں کا فیصد افسوسناک طور پر گھٹ رہا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو آئی اے ایس بنانے کی فکر رکھنے والے حیدرآباد کے اہم شخصیتوں نے ہر دم کوشش کی ہے۔ حالیہ برسوں میں جناب زاہد علی خاں نے مسلم طلباء کیلئے سہولتیں فراہم کیں امداد اور رہنمائی کیلئے اپنے ادارہ کو دن رات مصروف رکھا۔ ماضی میں مدینہ ایجوکیشن سنٹر پر جناب کے ایم عارف الدین ہوں، جناب غیاث الدین بابو خاں ہوں، جناب محبوب عالم خاں ہوں یا اب پروفیسر ایس اے شکور ہر ایک کی کوشش یہی رہی کہ آئی اے ایس کے ذریعہ مسلمانوں کے بچے سرکاری محکموں میں اپنا مقام بنائیں۔ عدلیہ، کلکٹریٹ، سکریٹریٹ، پولیس میں مسلمانوں کے بچے میرٹ کی بنیاد پر اپنا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوں مگر ان ہزارہا کوششوں کے باوجود کامیاب ہونے والے مسلم بچوں کی تعداد ایک ہندسی سے آگے نہیں بڑھی اور اب تو یہ ایک ہندسی غائب ہوکر صفر پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ مسلم خاندانوں اور والدین کا اپنے بچوں کے تعلق سے فکر مند ہونے کے بارے میں مختلف سطحوں پر طرح طرح کی کہانیاں اور قصے سنائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک قصہ تعلیم اور تجارت کے ٹکراؤ کا بھی ہے۔کسی خاندان میں کوئی بچہ بہت پڑھتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ ایم اے کرلیتا ہے کسی اچھے کالج میں لکچرر ہوکر پروفیسر یا پرنسپل بن کر ریٹائر ہوجانا ہے، جو بچہ اپنے بڑے بھائی کی طرح پڑھ لکھ کر قابل نہیں ہوتا زبردستی سے میٹرک پاس کرلیتا ہے تو غنیمت سمجھ کر باپ اس کو بازار میں ایک چھوٹی سی دکان خرید کر کاروبار سے لگادیتا ہے۔ بڑے بیٹے کی پڑھائی سے خوش اور چھوٹے بیٹے کی پڑھائی سے عدم دلچسپی سے ناخوش باپ اپنے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے کر دکان کھولی اور اسے نہ پڑھنے کی سزا دینے کے لئے دکان پر بٹھادیا تو اس نے پڑھائی سے جان بچانے کیلئے ناتجربہ کے باوجود بازار کی رونق میں دل لگادیا۔
کہتے ہیں وقت سب سے بڑا استاد ہے پڑھنے سے بھاگتا تھا مگر ذہین تھا بہت کچھ سیکھ لیا۔ بڑے بھائی نے ایم اے اکنامکس کرنے کے بعد لکچرر شپ شروع کی اور چھوٹا بھائی اچھی خاصی دکان کا مالک بن گیا۔ کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد بڑا بھائی ایک خانگی کالج میں استاد بن گیا اور گھر پر ٹیوشن دینے لگا جبکہ چھوٹا بھائی ایک بہت بڑی دکان کا مالک بن گیا اور دیگر مقامات پر شاخیں کھول لیں ، شہر کے پاش علاقہ میں شاندار محل نما گھر بنالیا اور کاریں، نوکر چاکر بھی رکھ لئے۔ بڑے بھائی کی آمدنی 3 ہندسوں سے اگے نہیں بڑھ سکی۔ اس واقعہ کو سنانے کا مقصد تعلیم کی نفی کرنا نہیں تھا بلکہ یہ بتانا مقصود تھا کہ تجارت ایسی چیز ہے کہ انسان محنت کرکے کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے جبکہ ملازمت میں وہ خواہ کتنی اعلیٰ کیوں نہ ہو طئے شدہ تنخواہ ہی اس کی زندگی کا مقدر بنتی ہے۔ تجارت کے ساتھ تعلیم بھی ہو تو پھر سونے پہ سہاگہ کہلاتی ہے۔ چشم بینا کے ساتھ اِرد گرد نظر ڈالی جائے تو ایسی بے نقاب حقیقتیں نظر آئیں گی۔ اس تجارت اور تعلیم کی دوڑ میں مسلمان کتنے آگے ہیں یہ بھی آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ، مگر ہمارے پاس لوگوں کی دلیلوں، حیلے بہانوں کا مقدمہ لڑنا آسان کام نہیں۔ مسلمانوں میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا حال کریڈٹ کارڈ کی نذر ہورہا ہے۔ اصل میں ہمارے معاشرہ پر مکروہ اور حجت پسند لوگوں کا غلبہ ہوچکا ہے اور مـجموعی طور پر معاشرہ کو محرومیوں اور مشکلات کی طرف ڈھکیلنے کا کام کیا ہے۔ کل تک جو بچے ٹی وی کے سہارے زندہ تھے آج وہ موبائیل، واٹس اپ اور فیس بک کا آکسیجن لے رہے ہیں۔ آپ میں سے کس کا جی چاہتا ہوگا کہ ان بچوں کے ہاتھوں سے موبائیل چھین لیں، ان پر سختی کی جائے اور انہیں عصری دنیا کے تقاضوں سے محروم رکھا جائے مگر یہ ہو نہیں پاتا۔
kbaig92@gmail.com