پارلیمنٹ میں تعطل… کہیں خوشی کہیں غم
بلند شہر تشدد … یوگی ادتیہ ناتھ بے نقاب
رشیدالدین
’’کہیں خوشی کہیں غم‘‘ تین ریاستوں کے انتخابی نتائج کے بعد قومی سطح پر سیاسی منظر کچھ اسی طرح کا ہے ۔ مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں مسلسل شکست کا سامنا کرنے والی کانگریس پارٹی کے حوصلے بلند ہیں جبکہ مودی لہر کا بھرم رکھنے والی بی جے پی تینوں ریاستوں میں اقتدار سے محرومی کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کے پیر زمین پر آچکے ہوں گے جو کل تک فضاؤں میں تھے۔ بی جے پی نے اس بات کو فراموش کردیا تھا کہ جمہوریت میں حقیقی بادشاہ گر عوام ہیں۔ کسی کے وزارت عظمی پر فائز ہوجانے اور کسی کے نام میں ’’شاہ‘‘ کے اضافہ سے وہ بادشاہ نہیں ہوجاتا۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے عوام نے بی جے پی ہی نہیں سنگھ پریوار کے غرور اور تکبر کو نیچا کردیا ۔ بی جے پی نے تینوں ریاستوں میں اس قدر ہزیمت کا تصور بھی نہیں کیا تھا، حکومتوں سے محرومی سے زیادہ بی جے پی کو اس بات کا غم ستا رہا ہے کہ جسے کل تک ’’نامدار‘‘ کہا جاتا رہا ، اس نے ’’کامدار‘‘ کو پچھاڑ دیا۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی کو پپو ، امول بے بی اور بفون کے علاوہ نہ جانے کن کن القاب سے نوازا گیا لیکن انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو آخر کار منوالیا ہے۔ یہ نتائج راہول گاندھی کے کامیاب سیاسی سفر کا آغاز ہوسکتے ہیں۔ ہندی بیلٹ کی یہ تین ریاستیں بی جے پی کے مضبوط قلعے تصور کئے جاتے تھے جو عوامی ناراضگی کے سیلاب میں ڈھیر ہوگئے ۔ وزارت عظمیٰ کے بارے میں بی جے پی کو اگر کسی سے خوف تھا تو وہ راہول گاندھی ہیں۔ تین ریاستوں کی شکست سے نہ صرف وزارت عظمیٰ کی کرسی خطرہ میں دکھائی دے رہی ہے بلکہ این ڈی اے میں شامل جماعتیں بی جے پی کو آنکھیں دکھا رہی ہیں۔ اسمبلی چناؤ کے نتائج کے ساتھ ہی لوک سبھا انتخابات کی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ کامیابی سے سرشار کانگریس پارٹی قومی سطح پر مخالف بی جے پی جماعتوں کو متحد کر رہی ہے جبکہ بی جے پی اپنے گھر کو بچانے کی فکر میں ہے تاکہ کوئی حلیف این ڈی اے سے علحدگی اختیار نہ کرلیں۔ اسمبلی کے نتائج کا اثر پارلیمنٹ اجلاس پر بھی پڑا۔ دونوں ایوانوں میں پہلے ہی دن سے تعطل برقرار ہے اور کوئی کارروائی نہیں ہو پا رہی ہے۔ اپوزیشن مختلف مسائل پر حکومت کو گھیرنے کی فراق میں ہے تو بی جے پی شکست کے غم سے ابھرنے کیلئے اپوزیشن پر جوابی حملہ کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی کا حال کافی برا ہے اور وہ دفاعی موقف سے بھی کم درجہ میں دکھائی دے رہی ہے ۔ وہ دن ہوا ہوگئے جب سرکاری بنچوں سے اپوزیشن پر جارحانہ حملے کئے جاتے تھے لیکن جملہ بازی کے بے تاج بادشاہ نریندر مودی اور ان کے وزیروں کی زبانیں جیسے گنگ ہوچکی ہیں۔ رافیل جنگی جہازوں کی خریداری کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کی آڑ میں بی جے پی جوابی ہنگامہ آرائی کر رہی ہے۔ جہاں تک سپریم کورٹ کے فیصلہ کا سوال ہے ، عدالت نے دستیاب مواد کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔ حکومت نے یہ کہتے ہوئے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ طیاروں کی معاملت اور قیمت کے تعین کی تفصیلات سے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو واقف کیا جاچکا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عدالت کے فیصلہ کی آڑ میں 30,000 کروڑ کے اس اسکام کی پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ اس ڈیل میں نریندر مودی نے اپنے دوست امبانی کو فائدہ پہنچایا۔ اگر یہ بات غلط ہے تو پھر حقائق سے قوم کو واقف کرایا جائے ۔ جوابی ہنگامہ آرائی کا مقصد اپوزیشن کی آواز کو کچلنا ہے۔ شور و غل کے درمیان مباحث کے بغیر سرکاری بلز کی منظوری کا سلسلہ جاری ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہر بات پر ٹوئیٹ کرنے والے نریندر مودی تین ریاستوں کی شکست پر خاموش ہیں۔ اگر ان ریاستوں میں بی جے پی جیت جاتی تو ملک بھر میں جشن منایا جاتا اور مودی من کی بات میں اس کا تذکرہ کرتے۔ شکست کے بعد بی جے پی کے ذہنی دیوالیہ پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی اور امیت شاہ گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے کارنامے اور کارکردگی بیان کرنے کے بجائے سابق کانگریس دور حکومت کی ناکامیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ وہ شائد بھول گئے کہ اقتدار میں بی جے پی ہے کانگریس نہیں۔ اپنی حکومت کے کارنامے اور کارکردگی سے شائد وہ بھی مطمئن نہیں، لہذا کانگریس پر تنقید کی سیاست کر رہے ہیں۔ تین ریاستوں میں کانگریس کی مہم سے زیادہ بی جے پی سے عوامی ناراضگی نے حکومتوں کا تختہ الٹ دیا ۔ اگر یہی رجحان جاری رہا تو مرکز میں بھی زوال یقینی ہے۔ کانگریس نے تینوں ریاستوں میں قیادت کے مسئلہ کو خیر خوبی سے حل کرلیا۔ سابق میں کانگریس کے بارے میں مشہور تھا کہ کسی بھی ریاست میں کامیابی کے بعد چیف منسٹر کا نام سیلڈ کور میں دہلی سے آتا ہے لیکن راہول گاندھی نے اس روایت کو توڑتے ہوئے ریاستوں کے کارکنوں کی رائے حاصل کی اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے زبردست کشمکش کے باوجود راہول گاندھی نے انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ اس معاملہ کو حل کردیا۔ اس طرح پارٹی پر ہائی کمان کی مضبوط گرفت کا پتہ چلتا ہے۔
لوک سبھا انتخابات کی مہم کیلئے کانگریس اور بی جے پی نے اپنے ایجنڈہ کی تیاری کا آغاز کردیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں دونوں جانب سے عام انتخابات کی تیاریوں کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ کانگریس کو تین ریاستوں کی کامیابی سے نیا حوصلہ ملا اور وہ مودی حکومت کی ناکامیوں کو مزید آگے بڑھاکر مرکز میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے پاس ترقی کا کوئی ایجنڈہ نہیں ہے ، لہذا اس کے لئے انتخابی ایجنڈہ کو طئے کرنا آسان نہیں۔ حالیہ شکست کے بعد مبصرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی حکومت شہرت پسند اسکیمات کے ذریعہ عوام کو خوش کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ اگر شہرت پسند اسکیمات سے کوئی خاص فائدہ نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو دوبارہ ہوا دی جائے گی۔ رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ بی جے پی کے پاس آخری ہتھیار ہے لیکن اس مسئلہ سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں۔ حالیہ عرصہ میں ایودھیا اور دہلی میں رام مندر کے نام پر سادھو سنتوں اور وشواہندو پریشد کے اجلاس منعقد ہوئے۔ یہ اجلاس فلاپ شو ثابت ہوئے ، لہذا بی جے پی کو رام مندر مسئلہ پر ہندو ووٹ متحد کرنا آسان نہیں ہوگا۔ 1990 ء سے رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ بی جے پی کے انتخابی منشور میں ہمیشہ شامل کیا جاتا رہا لیکن برسر اقتدار آنے کے باوجود بی جے پی اس جانب کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کا بھروسہ بھی بی جے پی پر سے اٹھ چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے کشیدگی میں اضافہ اور پھر ایک مرتبہ سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعہ عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پاکستان سے کشیدگی کا یہ معاملہ دونوں ممالک کے درمیان میچ فکسنگ بھی ہوسکتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر میں فوجی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوگیا اور دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی بڑے پیمانہ پر تشہیر کی جارہی ہے۔ بی جے پی جو چاروں طرف سے مسائل میں گھر چکی ہے ، اسے تین ریاستوں کی شکست کے بعد آخرکار کانگریس کے ایجنڈہ کو اختیار کرنا پڑا۔ چھتیس گڑھ ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومتوں کی جانب سے کسانوں کے قرض کی معافی کے بعد آسام اور گجرات کی بی جے پی حکومتوں نے بھی قرض کی معافی کا اعلان کردیا ۔ پنجاب اور کرناٹک میں کانگریس حکومتوں کی جانب سے قرض کی معافی کے بعد کسانوں کو خوش کرنے کا ایک نیا رجحان چل پڑا ہے۔ بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری شائد یوگی ادتیہ ناتھ کو دی گئی ہے۔ وہ اترپردیش میں وقفہ وقفہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ 3 ڈسمبر کو بلند شہر کے پرتشدد واقعات کے بعد ملک کے انصاف پسند افراد آخر کار اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور ہوگئے۔ 83 سابق بیورو کریٹس اور سیول سروینٹس نے کھلا خط جاری کیا جس میں یوگی ادتیہ ناتھ کے منصوبہ کو بے نقاب کیا گیا۔ سابق اعلیٰ عہدیداروں نے بتایا کہ کس طرح اترپردیش کے مختلف شہروں میں اکثریتی طبقہ کی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو خوفزدہ اور دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے پولیس ایڈمنسٹریشن کو امن و ضبط کی صورتحال پر قابو پانے کے بجائے گاؤ رکھشا پر توجہ دینے کی ہدایت دی جس سے صاف ظاہر ہے کہ یوگی گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا لائسنس جاری کرچکے ہیں۔ بلند شہر میں تشدد کے موقع پر ایسے پولیس عہدیدار کو گولی ماردی گئی جنہوں نے اخلاق کے قتل کی تحقیقات کی تھی۔ بیورو کریٹس نے چیف منسٹر کی جانب سے دستور کی توہین پر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی پر سوال اٹھایا اور ریمارک کیا کہ انتخابی تقاریر میں گرجنے والے نریندر مودی بت کی طرح خاموش ہیں۔ نفرت کے سوداگروں کی سرگرمیوں پر محمد علی وفا نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
شہر کا شہر ہے نفرت کی دکانوں سے سجا
اب یہاں کون محبت کا تمنائی ہے