شمال مشرق کی اکثریت بنگلہ دیش اور پاکستان کے اقلیتوں کی شہریت کے خلاف

پڑوسی ملکوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی اقلیتی گروپس کے غیر قانونی پناہ گزینوں کو شہریت کی منظوری کا معاملہ شمال مشرق میں ایک بڑی مسئلہ بن کر سامنے آنے کا خطرہ ہے۔مقامی باشندوں کو ڈر ے ہے کہ اس طرح کا بل انہیں اپنے آبائی گھر میں اقلیت بننے پر مجبور کردے گا۔شہریت( ترمیم) بل 2016پر تبصرہ کی وجہہ سے آسام ‘ اروناچل پردیش’ میگھالیہ اور میزوروم میں مجوزہ قانون کی شدت کے ساتھ مخالفت کی جارہی ہے۔

مذکورہ بل جس کے تحت افغانستان ‘ بنگلہ دیش‘ اور پاکستان سے آنے والے عیسائی ‘ جین ‘ پارسی ‘ بدھسٹ ‘ سکھ اورہندؤں کو شہریت فراہم کرنے کے لئے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی( جے پی سی) نے غور کررہی ہے۔

حال ہی میں جے پی سی ایک ٹیم نے آسام او رمیگھالیہ کادورہ کیاتھا۔بل کی مخالف میں بہت ساری تنظیموں نے جے پی سی کو یادواشتیں پیش کی ہیں۔تاہم بنگالی بولے جانے والے علاقے بارک ویلی اور کئی دیگر تنظیموں کی جانب سے بل کی حمایت بھی کی جارہی ہے۔

مختلف شعبوں کی جانب سے بھی بل کی مخالفت کی جارہی ہے جس میں کوناراڈ سانگماں کی زیرقیادت میگھالیہ ڈیموکرٹیک الائنس (ایم ڈی اے) جس کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد ہے نے فیصلہ کیاکہ وہ کابینہ میں بلا مبالغہ بل کی مخالفت کریگی۔

بی جے پی او رآر ایس ایس ہمیشہ یہ کہتی ہے کہ دنیا بھر میں رہنے والے ہندو اپنے مادر وطن ہندوستان کے واپس آجائیں ‘ اور مذکورہ بل اسی سونچ کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

مارچ1951تک آسام میں بیرونی ممالک سے ائے ہوئے لوگوں کو قانونی موقف حاصل ہے اور 1971کے بعد آسام اکارڈ کے تحت آنے والے تمام غیرملکی آسام میں غیرقانونی پناہ گزینوں میں شامل ہیں۔

سابق چیف منسٹر آسام اور اسوم گانا پریشد( اے جی پی) لیڈر پرافولا کمار مہانتا نے کہاکہ مذہب کی بنیاد پر شہریت کی اجرائی نہیں ہونی چاہئے۔وہیں تنازع اس وقت پیدا ہوا جب مملکتی وزیر برائے ریلوے راجین گوہان کہاکہ ’’بنگلہ دیشی ہندو ہمیں مدد کریں گے‘ لہذا ہم( بی جے پی)بھی شہریت بل کی حمایت میں ہیں‘‘۔

مگر بنگلہ دیشی مسلمان ہیں جواس بل کی مخالفت کررہے ہیں۔ مگر کچھ لیڈرس جیسے بی جے پی ایم ایل اے اتل بورا نے چیف منسٹر سرباندا سونوال کو ایک مکتوب روانہ کرکے بل کی مخالفت کرنے کی درخواست پیش کی ہے۔

بارک والی سے تعلق رکھنے والے کانگریس لیڈرس بل کی حمایت میں ہے تو پردیش کانگریس بل کی مخالفت کررہی ہے۔