شاہ عبداللہ ابن عبدالعزیز

محمد اے وحید
شہزادہ عبداللہ وہابی حکومت سعودی عرب کے بانی(شاہ عبدالعزیز ابن سعود) کے 10 ویں فرزند ہیں۔ ان کی پیدائش 1924 ء ریاض میں ہوئی ۔ ان کی والدہ شمال کے طاقتور قبیلہ شمار (Shammar) کی دختر تھیں۔ ان کے سوتیلے بھائیوں میں شاہ سعود ، شاہ فیصل ، شاہ خالد ، شاہ فہد ، شہزادہ سلطان (وزیر دفاع) کے علاوہ شہزادہ طلال شامل ہیں (طلال نے اگست 1962 ء میں آزاد خیال شہزادوں کی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے شاہی خاندان سے انحراف کیا اور قاہرہ میں اختیار کی تھی) ۔ عبداللہ کی پرورش خالص دینی ماحول میں ’’عالم، فاضل‘‘ اساتذہ کی نگرانی میں ہوئی ۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی عبداللہ نے فوجی تربیت حاصل کی اور 1962 ء میں ’’نیشنل گارڈ‘‘ کے کمانڈر کا عہدہ سنبھالا (اس وقت تک یہ ادارہ شہزادہ خالد کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ فیصل کی تخت نشینی کے ساتھ شہزادہ خالد کو ولی عہد سلطنت مقرر کیا گیا تھا ۔ ٹھیک اسی لمحہ شہزادہ خالد نیشنل گارڈ کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے تھے) ۔

نیشنل گارڈ بھی مسلح افواج کی طرح سعودی حکومت کا ایک اہم ادارہ ہے جس میں شاہی خاندان کے وفادار قبائلی نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ وہابی حکومت کے اس کلیدی ادارہ کی قیادت کرتے ہوئے عبداللہ کو اس وقت بھی مملکت کے اہم امور میں مشاورت کا حق حاصل تھا جبکہ شہزادہ فہد کو ولی عہد سلطنت مقرر کیا گیا تھا ۔اس ادارہ سے عبداللہ کی شخصی دلچسپی کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ عبداللہ کی شناخت بن گیا ہے ۔

1979 ء میں حرم شریف پر دہشت گردوں کے حملہ کے بعد مقدس عمارت سے شرپسندوں کو مار بھگانے میں نیشنل گارڈ کی کوتاہیوں پر انگشت نمائی ہوئی تھی، لیکن اس واقعہ کے باوجود عبداللہ کا دامن بے داغ رہا، چنانچہ ایک سال کے بعد (10 نومبر 1980 ء) اس حملہ میں ملوث (63) دہشت گردوں کو عدالت نے سزائے موت سنائی اور مجرموں کی گردن اڑانے کی ذمہ داری نیشنل گارڈ کو سونپی گئی۔
عبداللہ کے قدامت پسند خیالات اور روایتی عرب وضع قطع کے حوالہ سے عام طور پر راسخ العقیدہ عرب نوجوان اور خاص طور پر نیشنل گارڈ میں شامل قبائلی سپاہی ان کا بے حد احترام کرتے تھے اور ہر لمحہ ان پر جان چھڑکنے کیلئے مستعد نظر آتے تھے۔ اس طرح عبداللہ کو ن سپاہیوں کی ٹھوس وفاداری اور پشت پناہی حاصل تھی۔ عبداللہ قبائلوں کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتے اور وقت بے وقت صحراء میں شکار کی مہمات میں شرکت کرتے تھے۔

نیشنل گارڈ کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے عبداللہ نے برطانیہ ، فرانس اور جرمنی سے وسیع پیمانہ پر عصری اسلحہ و آلات کی خریداری کی ۔ اس ادارہ کے بیشتر اسلحہ و آلات کی خریداری اول شاہ سعود کے دور میں اور اس کے بعد شاہ فیصل نے کی تھی ۔ اسلحہ و آلات کی خریداری میں یوروپی مارکٹ سے رجوع ہونے کا مقصد رحقیقت امریکہ پر انحصار کم کرنا تھا ۔ 25 مارچ 1975 ء کو شاہ فیصل کے قتل کے بعد شہزادہ خالد تخت نشین ہوئے جبکہ شہزادہ فہد کو ولی عہد سلطنت اور نائب وزیر اعظم (اول) مقرر کیا گیا۔ 29 مارچ 1975 ء کو شہزادہ عبداللہ ) نائب وزیراعظم دوم) نامزد کئے گئے ۔ سعودی عرب کے شاہی خاندان میں کئی قبیلے شامل ہیں جن میں قابل ذکر ’’الشیخ‘’ ’’السدیری‘‘ ’’جلوی‘‘ ’’Shammar ‘‘ ہیں۔ 1982 ء میں شاہ خالد کے انتقال پر شاہی خاندان نے فہد کی تخت نشینی کا اعلان کرتے ہوئے عبداللہ کو ولی عہد سلطنت و نائب وزیراعظم (اول) مقرر کیا جبکہ سلطان کو نائب وزیراعظم (دوم)و وزیر دفاع بنایا گیا۔

حالانکہ فہد اور عبداللہ کی پرورش شاہی خاندان کے آسودہ ماحول میں ہوئی تھی۔ فہد اور عبداللہ کے درمیان مزاج ، عادات و اطوار ، طرز زندگی اور سیاسی افکار میں ہم آہنگی نظر نہ آئی ۔ ایک طرف فہد وسیع النظری اور فراخ دستی کے ساتھ ملک میں جدید ٹکنالوجی اور تیز رفتار ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرنا چاہتے تھے تو دوسری طرف عبداللہ کے ناقدین ان پر ہمیشہ قدامت پسندی کا الزام لگاتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ سعودی عرب صرف تیل پیدا کرنے والا ملک نہیں ہے ۔ اس ملک کے مذہبی ، ثقافتی اور تاریخی پس منظر کو داؤ پر لگاتے ہوئے تیز رفتار ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرنا آسان نہ ہوگا، اس لئے وہ اعتدال پسندی کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ حالانکہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے درمیان مسابقت عام ہے۔ شاہ عبداللہ کہتے تھے کہ سعودی عرب کو صرف اتنی مقدار میں تیل پیدا کرنا چاہئے جتنا اس کی داخلی کھپت کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے ناگزیر ہے۔ ان کی اولین ترجیح ہر قیمت پر سعودی عرب کا استحکام تھا۔ تاہم ان کی خواہش تھی کہ سعودی عرب بیرونی اثرات اور دباؤ سے پاک رہے ۔ حالانکہ عبداللہ نے کئی مرتبہ بیرونی ملکوں کا دورہ کیا ۔ سعودی عرب سے باہر ان کا حلقۂ احباب محدود تھا۔ وہ عرب ملکوں کے ساتھ اعتدال پسند پالیسی کے حامی تھے۔ کئی عرب قائدین کے ساتھ اُن کے دوستانہ مراسم تھے، ان میں بعض ایسے قائدین بھی شامل ہیں جن کے ساتھ عبداللہ کی نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے ۔ لبنان کے بایاں بازو قائد (کمال جنبلات) جیسی نزاعی شخصیت کے ساتھ عبداللہ کے قریبی تعلقات رہے۔ (جنبلات کو بیروت میں خانہ جنگی کے دوران 16 مارچ 1977 ء کو قتل کردیا گیا تھا)

عبداللہ نے کئی شادیاں کیں۔ وہ اپنا زیادہ وقت ریاض میں گزارنا پسند کرتے تھے۔ خانگی زندگی میں وہ بے حد محتاط رہتے تھے۔ تاہم عبداللہ شکاری مہمات اور گھڑے سواری پسند کرتے تھے۔ عبداللہ نے ریاض میں ایک (Riding Club) قائم کی تھی جس کا مقصد سعودی عرب کی روایت گھڑے سواری کا تحفظ کرنا تھا۔ شاہ فہد کے انتقال (یکم اگست 2005 )ء کے بعد عبداللہ تخت نشین ہوئے جبکہ سلطان کو نائب وزیراعظم (اول) و وزیر دفاع بنایا گیا ۔ تخت نشینی کے بعد سے مملکت میں تر قیاتی منصوبوں پر غیر معمولی توجہ دیتے ہوئے شاہ عبداللہ نے نقادوں کی عملاب زبان بند کردی تھی۔