شام کے بحران کی یکسوئی کیلئے بشارالاسد کی برطرفی ضروری

روس اور ایران کے ساتھ ملکر کام کرنے تیار ۔پوٹین کی شام کے صدر کو تائید نظرانداز ، اوباما کا جنرل اسمبلی سے خطاب
اقوام متحدہ ۔ 28 ستمبر ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) شام کی خانہ جنگی کا حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر براک اوباما نے آج کہا کہ امریکہ شام کے لیڈر بشارالاسدکی اقتدار سے بیدخلی کیلئے روس اور ساتھ ہی ساتھ ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے تیار ہے ۔ تاہم امریکہ اور روس کے مابین کشیدگی برقرار ہے کیونکہ روس بشارالاسد کا طاقتور حلیف ہے ۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہاکہ اس قدر خونریزی ، تباہی اور بربادی کے بعد ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ اقتدار پر جوں کا توں موقف برقرار نہیں رہ سکتا ۔ اوباما کے بعد جنرل اسمبلی سے صدر روس پوٹین خطاب کرنے والے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ وہ بشارالاسد کا بھرپور دفاع کریں گے ۔ اوباما نے پوٹین کی بشارالاسد کو جاری تائید یکسر مسترد کردی اور کہاکہ موجودہ متبادل یقینا تباہ کن ہے لیکن بشارالاسد کی برقراری بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ۔ شام میں 2011 ء میں شروع ہوئی اس لڑائی میں اب تک 250,000 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور نقل مقام کرنے والوں کا ایک سیلاب اُمڈ پڑا ہے ۔ اس کے علاوہ اسلامک اسٹیٹ اور دیگر انتہاپسند گروپس کے لئے ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ اوباما کی جانب سے بشارالاسد کی اقتدار پر برقراری کی شدید مخالفت کے باوجود امریکہ کو اُنھیں اقتدار سے معزول کرنے کیلئے سیاسی عمل میں کافی توانائی صرف کرنی پڑ رہی ہے ۔ اس معاملے میں روس سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس نے بشارالاسد کو اقوام متحدہ تحدیدات سے روک رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہاں کی حکومت کو ہتھیار بھی فراہم کررہا ہے ۔ اوباما نے 43 منٹ کے اپنے خطاب کے دوران شام کے بحران کا دیگر عالمی چیلنجس کے پس منظر میں سفارتی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے پیچیدہ مسائل پر اپنی پیشرفت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ضرورت ہو وہ طاقت کا استعمال کرنے میں پس و پیش نہیں کریں گے اور دنیا کو اس فلسفہ کا اسیر نہیں بنانا چاہئے کہ طاقتور ہی ہمیشہ صحیح ہوتا ہے ۔ اوباما نے کیوبا کے ساتھ نصف صدی بعد سفارتی روابط کے احیاء کا حوالہ دیا ۔ ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کا بھی انھوں نے تذکرہ کیا ۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ معاملت کو پائے تکمیل تک پہونچانے میں روس امریکہ کا ساجھیدار رہا ہے ۔