خلیل قادری
شام کی تباہی کا اب ساری دنیا میں تذکرہ ہونے لگا ہے ۔ یہاں چھ سال میں وہ تباہی ہوئی ہے جس کی ساری دنیا کوئی مثال نہیں مل سکتی ۔ شام کے عوام جن حالات میں زندگی گذار رہے ہیں وہ انسانیت سوز ہیں۔ یہاں کے عوام زندگی کا ایک ایک لمحہ گذارنے جن المناک حالات کا سامنا کر رہے ہیں وہ ساری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ یہاں عوام کے پر رونق بازاروں کو ویرانوں میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ یہاں انسانیت سسک رہی ہے ۔ زندگی کی ایک ایک سانس کیلئے شام کے عوام وہ قیمت چکانے پر مجبور ہیں جو مابقی دنیا تصور میں بھی نہیں لا سکتی ۔ یہاں شام کی بشارالاسد حکومت ہو یا پھر باغیوں کے فوجی دستے ہوں یا پھر داعش کے تخریب کار ہوں سبھی کیلئے مشترکہ ایجنڈہ ایک ہی نظر آتا ہے اور وہ ہے شام کے عوام کی زندگیوں کو دوبھر کرنا ۔ ان کی زندگیوں کو اجیرن بنانا ۔ ساری مہذب دنیا کیلئے شام کے عوام کی زندگی کسی تازیانے سے کم نہیں کہی جاسکتی ۔ شام کے بعض شہر ایسے بھی ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ عملا یرغمال بنالئے گئے ہیں اور انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں۔ اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے سکریٹری جنرل بان کی مون نے شائد ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ شام کا شہر حلب دوسرا دوزخ بن گیا ہے ۔ یہ تبصرہ صرف ایک شہر تک محدود نہیں ہوسکتا ۔ جو حالات حلب کے ہیں وہ تقریبا سارے شام کے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ کہیں تباہی قدرے کم ہوئی ہو لیکن شائد ہی کوئی خطہ زمین شام میں ایسا ہو جس نے ہولناک تباہی کا سامنا نہیں کیا ہو۔ جو اعداد و شمار اقوام متحدہ کی رپورٹس اور دیگر حوالوں سے سامنے آئے ہیں وہ ساری دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق شام میں گذشتہ چھ سال سے جو خانہ جنگی چل رہی ہے اس میں تین لاکھ اموات ہوئی ہیں۔ ان میں 16 ہزار معصوم بچے بھی موت کے گھاٹ اتار دئے گئے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ تذلیل شائد کہیں دیکھنے کو ملے ۔ شام سے تقریبا 50 لاکھ افراد راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردئے گئے ہیںاور وہ دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرچکے ہیں۔ شام کے ان باشندوں کیلئے خود ان کے اپنے وطن میں سانس لینا دوبھر ہوگیا تھا ۔ یہاں ان کی زندگیاں اجیرن بن گئی تھیں۔ جو لوگ بیرون ملک فرار ہوگئے انہوں نے جو مشکلات جھیلی ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں افراد ایسے بھی ہیںجو خود اپنے ملک میں دربدر بھٹکنے اور زندگی کا ایک لمحہ قدرے سکون سے گذارنے کیلئے کئی کئی دن کا سفر کرنے پر مجبور ہیں ۔ ان کے سفر کا ایک ایک لمحہ اذیتوں اور خوف سے بھرپور ہے ۔ یہاں بے تحاشہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے ۔ کہیں سے اچانک کوئی بم یا میزائیل آگرتا ہے اور درجنوں زندگیاں بیک وقت ختم ہوجاتی ہیں۔ کئی گھر اجڑ جاتے ہیں۔ کئی بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔ کئی خواتین کا سہاگ اجڑ جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی نے اچانک ہی اپنا سفر ختم کردیا ہے اور دنیا کی رک گئی ہے ۔ یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شام کی گلیوں میں موت نے زندگی پر غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔ شامی باشندوں کی زندگیاں ‘ موت سے بدتر کردی گئی ہیں۔ اس کیلئے کسی ایک گوشے کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ کوئی ایک گوشہ اس سے بری الذمہ ہوسکتا ہے ۔ یہاں خود شام کی حکومت ہو یا باغی ہوں یا پھر داعش کے تخریب کار ہوں سبھی نے تباہی میں اپنا اپنا رول ضرور ادا کیا ہے اور انسانیت پر ہونے والے جرائم کا طوق سب کے گلے میں برابر ہے ۔ شام میں تقریبا دس لاکھ افراد عملا یرغمال بنالئے گئے ہیں۔ کوئی شہر شامی حکومت کی افواج کے محاصرہ میں ہے تو کسی ٹاون یا قصبہ پر باغیوں نے اپنا کنٹرول قائم کرتے ہوئے شہریوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے ہیں۔ کہیں داعش کے تخریب کار وحشت مچا رہے ہیں۔ شام سے جو باشندے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں وہ دوسرے ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی کے ایام کاٹنے پر مجبور ہیں ۔
ایک اندازہ کے مطابق صرف ترکی میں شام کے 27 لاکھ باشندے پہونچ گئے ہیں اور پناہ گزین کی زندگی گذار رہے ہیں۔ لبنان نے 10 لاکھ شامی باشندوں کو اپنی سرحدات میں جگہ دی ہے جبکہ اردن میں 6 لاکھ 55 ہزار سے زائد شامی پناہ گزین ہیں۔ عراق میں 2,28000 شامی پناہ گزین ہیں اور مصر میں ایک لاکھ سے زائد شامی باشندے پہونچ چکے ہیں۔ یہ وہ تعداد ہے جو یوروپ پہونچنے والے پناہ گزینوں سے علیحدہ ہے ۔ یوروپ تک ان پناہ گزینوں کا سفر یقینی طور پر زندگی اور موت کے درمیان کا سفر تھا ۔ زندہ رہنے کی خواہش میں فرار ہونے والوں کا ہر ہر قدم انہیں موت قریب کرتا جا رہا تھا لیکن یہ ان شامی عوام کا ہی حوصلہ تھا کہ وہ تمام خطرات کو قبول کرنے کیلئے تیار تھے کیونکہ زندہ رہنے کی خواہش ہر انسان کو کسی بھی نوعیت کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار کردیتی ہے ۔ یہاں جنگ کی وجہ سے جو اموات ہوئی ہیں ان کے علاوہ تحویل میں اذیتیں دے کر ہلاک کئے جانے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ۔ شامی حکومت کی تحویل میں 17,700 سے زیادہ شامی باشندے سرکاری افواج کی اذیت رسانی سے زندگیاں ہار بیٹھے ہیں۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جیلوں میں سختی اور اذیت رسانی سے مرنے والوں کی تعداد 60 ہزار کے لگ بھگ بتائی گئی ہے ۔ یہی صورتحال باغیوں کے کنٹرول والے علاقوں کی اور داعش کے زیر اثر علاقوں کی بھی ہے ۔ یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جو انسانیت کو شرمسار کردیتے ہیں۔ جو حکمرانوں کو گدی سے اتار پھینکنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس پر ساری دنیا کی آنکھیں نمناک ہوجانی چاہئیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا اپنی رنگینیوں میں ہی گم ہے ۔ کسی کو شامی عوام اور خاص طور پر شامی بچوں پر ڈھائی جا رہی قیامت کی فکر تک لاحق نہیں ہے ۔ دنیا کے بااثر ممالک اور شام کے تنازعہ میںفریق بن جانے والی طاقتیں بھی صرف اپنے مفادات اور بالادستی کیلئے نبرد آزما ہیں۔ انسانیت کی دہائی دینے والوں کو یہاں انسانیت کی کوئی فکر نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ صرف اپنے اقتدار کو بچانے شام کے تنازعہ کا استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس بدترین سانحہ پر عوام فکرمند ہیں لیکن حکمران اپنے اقتدار کے نشے میں چور ہیں اور انہیں بظاہر یہاں کے حالات سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا ۔
شام میں معصوم بچے ایک وقت پیٹ بھرنے کیلئے ترس رہے ہیں۔ وہ زخموں سے چور ہیں لیکن ان کے زخموں کیلئے کوئی مرہم دستیاب نہیں ہو رہا ہے ۔ یہاں بیمار ہیں جن کے علاج کیلئے کوئی سہولت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ لوگ پینے کیلئے پانی کو ترس رہے ہیں لیکن انہیں پیاس بجھانے کیلئے پانی حاصل کرنا آسان نہیں رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ انہیں زندہ رہنے کیلئے ہوا تک زہریلی مل رہی ہے ۔ یہاں کی فضا میں بارود بھرا ہوا ہے اور لوگ اسی میں سانس لینے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ شام میں تباہی کی خبریں پیش کرنے والے اینکرس کیلئے بعض مرتبہ اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے اور وہ سر عام آنسو بہار ہے ہیں لیکن دنیا کے حکمران ان معصوم بچوں کی دلوں کو دہلا دینے والی تصاویر اور ان کی سسکیوں پر کان دھرنے کو تک تیار نہیں ہیں۔ شام میں جو تباہی ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے یہاں معیشت کو تین دہے پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے ۔ انفرا اسٹرکچر کے نام پر یہاں کچھ بھی نہیں بچا ہے ۔ مالیہ تقریبا ختم ہوگیا ہے ۔ خاص طور پر تعلیم اور صحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوگیا ہے ۔ یہاں نہ اسکولس بچے ہیں اور نہ دواخانے ۔ اسکولس اور دواخانوں کے کچھ کھنڈرات اگر بچے بھی ہیں تو یہاں نہ کوئی ٹیچر ہے اور نہ کوئی طالب علم ۔ کوئی ڈاکٹر ہے اور نہ دوسرا طبی عملہ ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہزاروں زخمی اور مریض علاج اور ڈاکٹر کے انتظار میں ایک ایک لمحہ گن گن کر گذار ررہے ہیں۔ حالات کو اور بھی سنگین برقی کی قلت نے کردیا ہے ۔ حقوق انسانی تنظیموں کے مطابق شام میں برقی نعمت غیر مترقبہ ہوگئی ہے ۔ تقریبا سارا شام تاریک ہوگیا ہے ۔ یہاں برقی 83 فیصد تک کم ہوگئی ہے اور جو برقی دستیاب بھی ہے تو وہ حکمرانوں کے محلات اور فوج کے بیارکوں تک محدود کردی گئی ہے ۔ اس ہیبت ناک اور ہولناک تباہی کے بعد بھی اگر شام کے مسئلہ کا کوئی حل دریافت نہیں کیا گیا تو تاریخ عصر حاضر کے حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کریگی ۔ یہاں عوام کی نعشوں پر حکومت کی جا رہی ہے ‘ یہاں کھنڈرات پر محل بنائے جا رہے ہیں اور معصوم بچیوں کی سسکیوں میں حکمران اپنے لئے راگ رنگ تلاش کر رہے ہیں اور یہ انسانیت کی ایسی المناک تصویر ہے جس کی مثال ساری دنیا میں کہیں نہیں مل سکتی ۔