ڈاکٹر سید بشیر احمد
مصحفی اور انشا اپنے وقت کے نامور شعراء تھے ۔ ان دونوں کے درمیان جو نوک جھونک ہوئی اس تعلق سے محمد حسین آزاد کہتے ہیں ’’شرم کی آنکھیں بند ہوگئیں اور بے شرمی کی زبانیں کھل گئیں‘‘ ۔ دونوں شعراء اپنے وقت کے زود گو شعراء تھے ۔ مصحفی نے نہ صرف شاعری کی بلکہ کئی مشاعروں کو صاحب دیوان شاعر بنادیا ۔ اس دور میں مصحفی پر ضعیفی طاری ہورہی تھی ، ان کے بال سرخی مائل (بوجہ خضاب) ہوگئے تھے ۔ انشاء نے ان پر طنز کرتے ہوئے کہا
صفرے پہ ظرافت کے ذرا شیخ کو دیکھو
سر لون کا منھ پیاز کا امچور کی گردن
انشاء اپنے گلہ میں دوپٹہ ڈالے رہتے تھے جس پر مصحفی نے طنز کرتے ہوئے کہا
باندھی دمِ لنگور میں لنگور کی گردن
اس طرح روزمرہ کے سوال و جواب مصحفی کو ناگوار خاطر ہورہے تھے ۔ شہر لکھنؤ میں ان کے تلامذہ کی کثیر تعداد تھی ۔ انہوں نے اپنے استاد کی ناگواری کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت انشاء کی شان میں ایک زوردار ہجو لکھا اور دن اور وقت طے کیا اور ہجویہ اشعار پڑھتے ہوئے انشاؔ کے مکان پہنچے ۔ انشاؔ کو قبل از وقت اس شرارت کا پتہ چل گیا تھا ۔ انہوں نے امرائے شہر اور اپنے دوست احباب کو بھی اپنے ہاں مدعو کرلیا ۔ مکان کو سجایا اور مٹھائی ، پان اور پھولوں کے ہار سے مصحفی کے ہمنواؤں کا استقبال کیا ۔ ہجویہ اشعار کی تعریف کی ، شربت پلایا ، پان کھلائے ، ہار پہنائے ، ہنسی خوشی ان سب کو وداع کیا ۔
جواباً انشا نے اپنے ہمنواؤں کو جمع کیا اور ہجویہ کلام کے ساتھ ایک جلوس کی شکل میں ہاتھیوں پر سوار لوگ ایک گڈا اور ایک گڑیا کو لڑاتے ہجویہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ ہجویہ کلام کا ایک شعر ملاحظہ ہو
سوانگ لایا ہے نیا چرغ کہن
لڑتے ہوئے آئے ہیں مصحفیؔ و مصحفن
اس معرکے میں شہزادہ سلیمان شکوہ اور دیگر امرائے سلطنت نے انشاء کا ساتھ دیا اور مصحفی کو خفت اٹھانی پڑی ۔ ان باتوں سے مصحفی بہت دل گرفتہ ہوگئے تھے ۔ ان کی غزلوں کے اشعار میں وہ رنجیدہ خاطر ہوتے ہیں
مصحفی بے لطف ہے اس شہر میں زندگی
سچ ہے کچھ انسان کی توقیر نہیں یہاں
اس دور میں مصحفی جیسے زود گو شاعر کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے ۔ چنانچہ اس تعلق سے محمد حسین آزاد کی رائے یہ ہے کہ ’’جس شخص کا قلم آٹھ دیوان لکھ کر پھینک دے اس کی قابلیت میں کلام کرنا انصاف کی جان پر ظلم کرنا ہے‘‘ اور نیاز فتح پوری کہتے ہیں کہ ’’اس دور میں مصحفی اپنے فن کا امام تھا اور غزل گوئی میں ایسے ایسے پاکیزہ اسلوب بیان پیدا کئے کہ اس سے قبل کسی شاعر کو اس حیثیت سے مصحفی کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جاسکتا‘‘ ۔
انشا نے نواب سعادت علی خاں کے دربار میں خاص مقام حاصل کرلیا تھا ۔ ایسا مقام کسی اور شاعر کو مشکل ہی سے میسر ہوا ہوگا لیکن یہی قریبی تعلق انشا کے زوال کا باعث بنا ۔ انشا اپنی ظریفانہ باتوں اور شوخیٔ طبع کی وجہ سے نواب صاحب سے بے تکلف ہوگئے تھے ۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ دوپہر کے وقت وہ نواب سعادت علی خاں کے ساتھ کھانا تناول فرمارہے تھے ۔ موسم گرما شباب پر تھا انشا نے اپنی دستار اتار کر نیچے رکھ دی تھی ، نواب نے انشاء کے مُنڈے ہوئے سر کو دیکھ کر پیچھے سے ایک چَپت رسید کردی ۔ انشاء سنبھل گئے اور دستار سر پر رکھ لی اور کہا ’’سبحان اللہ بزرگ لوگ سچ کہا کرتے تھے کہ ننگے سر کھاتے وقت شیطان دھول لگایا کرتا ہے‘‘ ۔ طبیعتاً سعادت علی خان سنجیدہ مزاج آدمی تھے ۔ انشاء کی وقت بے وقت نامناسب حرکات کو وہ زیادہ دن برداشت نہیں کرسکے ۔ انہوں نے انشاء کی دربار میں آمد و رفت کو روک دیا اور گھر سے باہر نکلنے پر بھی پابندی عائد کردی ۔ ان پابندیوں سے انشاء بتدریج مفلوک الحال ہوگئے ۔ شاہی عتاب ، معاشی پریشانیاں اور اس پر جوان بیٹے کا انتقال کرجانا انشاء کے اوسان خطا کرنے کا باعث ہوا ۔ آخری زمانہ انشاء نے بڑی مشکلات میں گذارا ۔ انشاء نے جو بڑے بانکپن سے زندگی گذاری لیکن بعد میں یہ حال ہوگیا تھا کہ نہ وہ جامہ زیبی تھی نہ وہ چہرے پر بشاشت ، ایک مشاعرہ میں وہ میلے کچیلے کپڑے پہنے پہنچے اور اپنا میلا سا تھیلا بازو رکھ کر زمین پر بیٹھ گئے ۔ لوگوں نے عرصہ بعد اس حلیہ میں ان کو دیکھا تو رنج و غم اور تجسس سے ان کے حالات جاننے کی کوشش کی ۔ انشاء نے جوابدہی سے تعرض کرتے ہوئے ان لوگوں سے دریافت کیا کہ ’’مشاعرہ کب شروع ہوگا‘‘ ۔ لوگوں نے ان کو بتایا کہ ’’ابھی کافی وقت لگے گا ابھی تو لوگ جمع ہورہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم تو اپنی غزل سنادیتے ہیں‘‘ اور غزل پڑھنی شروع کردی
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
غزل کیا تھی ، رنج و الم ، حسرت ، مایوسی اور ناکامی کی دردناک تصویر تھی ۔ انہوں نے غزل ختم کی کاغذ پھینکا اور شان بے نیازی سے محفل سے چل پڑے ۔ انشاء کے ہمعصر شاعر رنگین اپنے دوست کا حال معلوم کرنے ان کے پیچھے دوڑ پڑے ۔ انہوں نے دیکھا جہاں امارات کا دور دورہ تھا وہاں پر ویرانی چھائی ہوئی تھی ۔ رنگین نے انشاء کو آواز دی اور حال دریافت کیا ۔ انشاء نے حسرت بھری نظروں سے رنگین کو دیکھا اور ’’شکر ہے‘‘ کہا اور ان کی روح پرواز کرگئی ۔
معاشرہ میں عام طور پر ہم پیشہ افراد میں نوک جھونک کے واقعے منظر عام پر آتے رہتے ہیں ۔ ادبی و شعری محافل میں بھی ایسے واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ اردو کے عظیم المرتبت شاعر مرزا غالب اور استاد شاہ ابراہیم ذوق ہمعصر شعراء تھے ۔ ان دونوں میں آپسی چشمک کے بے شمار واقعات ظہور پذیر ہوئے ۔ ذیل میں ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے ۔ ایک بار مرزا غالبؔ اپنی دیوڑھی میں ٹہل رہے تھے اور ان کے پیچھے ان کے شاگرد بھی تھے اتفاق سے دوسری سمت سے ابراہیم ذوق کی سواری آرہی تھی ۔ غالبؔ نے ان کو دیکھ کر قدرے بلند آواز میں یہ مصرعہ پڑھا
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
غالبؔ کا طنز سن کر ذوق دل ہی دل میں کڑھتے رہے ۔ دوسرے دن انہوں نے بادشاہ وقت بہادر شاہ ظفرؔ کی خدمت میں سارا ماجرا سنایا ۔ ایک مرتبہ جب مرزا غالبؔ بھی موجود تھے اور استاد ذوق بھی تھے ۔ بہادر شاہ ظفر نے غالب سے اس واقعہ کے تعلق سے دریافت کیا ۔غالب بذلہ سنجی اور ظرافت کے ماہر ہی نہیں بلکہ بلا کے حاضر جواب بھی تھے انہوں نے یہ شعر کہا
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
غالبؔ اور ذوقؔ کے درمیان اکثر چشمکیں ہوتی رہتی تھیں ۔ ایک بار بہادر شاہ ظفر کے صاحبزادے کے عقد کے موقع پر مرزا غالبؔ نے سہرا لکھا تھا ان کے شاگردوں نے استاد ذوقؔ پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا
استاد ذوقؔ نے جواباً فرمایا تھا
جس کو دعوی ہے سخن کا یہ سنادے اس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا