کولکتہ ۔ 3 جون ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) لوک سبھا انتخابات میں سی پی آئی ایم کی عدیم المثال بیخ کنی کے پیش نظر قیادت کی تبدیلی کا متحدہ طورپر مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ ریاستی کمیٹی کے جاری اجلاس میں اس مطالبے میں شدت پیدا ہوگئی ۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری پرکاش کرت کو ناقص سیاسی پالیسی پر عمل آوری کیلئے برہمی کا سامنا کرنا پڑا ۔ سی پی آئی ایم نے عام انتخابات میں 60 کی دہائی کے وسط میں اپنے قیام کے بعد کا بدترین مظاہرہ کیا ہے اور گزشتہ چند دن سے نااہل پارٹی قیادت کی تبدیلی کے مطالبے میں شدت پیدا ہورہی تھی ۔ قیادت کی تبدیلی کے مطالبے میں موجودہ درمیانی سطح کے قائدین اور پارٹی سے خارج شدہ قائدین بھی شامل ہوگئے ۔ اس کے علاوہ جاری دو روزہ ریاستی کمیٹی کے اجلاس کا آغاز گرما گرم مباحث کے ساتھ ہوا جس کی حالیہ عرصہ میں کوئی مثال موجود نہیں ہے ۔ ریاستی کمیٹی کے قائدین نے مختلف اضلاع کی نمائندگی کی اور کسی کا نام لئے بغیر پرکاش کرت ریاستی سکریٹری ویمن بوس ، پولیٹ بیورو رکن و سابق چیف منسٹر بدھا دیپ بھٹاچاریہ اور ریاستی قائد اپوزیشن کانتا مشرا کو بحران کے وقت میں قیادت کی فراہمی میں ناکام رہنے پر برہمی ظاہر کی ۔ تریپورہ کے چیف منسٹر مانک سرکار اور پولیٹ بیورو رکن سیتا رام یچوری کے ساتھ پرکاش کرت بھی اجلاس میں موجود تھے۔
پارٹی جس نے مغربی بنگال میں 34 سالہ اقتدار کے بعد 2011 میں ترنمول کانگریس کی کامیابی پر اقتدار اُس کے حوالے کردیا تھا ، 42 لوک سبھا نشستوں میں سے اس بار صرف دو نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکی ۔ 2009 ء میں بائیں محاذ نے 15 نشستوں میں سے 9 نشستیں حاصل کی تھیں۔ علاقائی پارٹیوں پر مشتمل تیسرے محاذ کی تشکیل کا مطالبہ انتخابات سے پہلے عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکا ۔ اعلیٰ سطحی قیادت نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ بدعنوان یوپی اے حکومت کا متبادل ثابت ہونے سے قاصر رہا ۔ ریاستی کمیٹی کے ایک اور قائد نے کہا کہ سی پی آئی ایم قیادت ترنمول کانگریس اور بی جے پی کی صف آرائی کا اندازہ لگانے سے قاصر رہی ۔ بی جے پی قائد نریندر مودی اور چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی کے درمیان انتخابی مہم کے دوران زبانی تکرار کے باوجود بایاں محاذ اندازہ نہیں کرسکا حالانکہ بی جے پی نے ٹی ایم سی کے ووٹ بینکس میں سے کچھ حصہ حاصل کرلیا لیکن درحقیقت بی جے پی نے بائیں بازو کے ووٹ بینک کو ہڑپ لیا۔ اس حقیقت کے باوجود بایاں بازو بی جے پی اور فرقہ وارانہ طاقتوں کے خلاف روایتی جدوجہد کررہا ہے ۔ کئی قائدین نے اعلیٰ سطحی قیادت پر اجتماعی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے ناکامی کیلئے انھیں ذمہ دار قرار دیا۔