سیکشن 7 کے عدم استعمال میں ہی سیاسی مفاد مضمر

پی چدمبرم
ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934ء کے سیکشن 7 میں تحریر ہے:’’مرکزی حکومت اس بینک کو وقفے وقفے سے ایسی ہدایات دے سکتی ہے جو اس بینک کے گورنر کے ساتھ مشاورت کے بعد وہ مفاد عامہ میں ضروری سمجھے۔‘‘قانون میں یہ دفعہ ہے، لیکن اس سیکشن کو کبھی لاگو نہیں کیا گیا۔ اس سیکشن کی طاقت اس کے عدم استعمال میں مضمر ہے۔ پارلیمنٹ نے حکومت سے کیا کہا ہے اسے یوں ملاحظہ کرسکتے ہیں:
سیکشن 7 کی گنجائش
n آپ حکومت ہو، لیکن یاد رکھئے کہ ریزرو بینک (آر بی آئی) بھی ہے۔
n ہم آپ کو ہدایات جاری کرنے کا اختیار سونپتے ہیں لیکن … (وقفہ)، آپ پر گورنر سے مشاورت کرنا لازمی ہے۔ نوٹ کرلیں، آپ گورنر سے مشاورت کیجئے، نہ کہ بینک یا بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرس سے۔
n ہمارا ماننا ہے کہ آپ اور گورنر ایک دوسرے سے وقفہ وقفہ سے مشاورت کرتے ہیں، لیکن یاد رکھئے کہ یہ قانونی مشاورت ہے جبکہ آپ کی معمول کی مشاورتوں کا نتیجہ اتفاق رائے نہ ہوا ہو۔اور جب آپ قانونی مشاورت کرتے ہو، برائے مہربانی ذہن نشین رکھئے کہ آر بی آئی ایکٹ کے تحت یہ آر بی آئی کا فرض ہے کہ ’بینک نوٹوں کی اجرائی کو باقاعدہ رکھے اور مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے کے نقطہ نظر سے ذخائر (بھی) رکھے۔‘
n قانونی مشاورت کے ختم پر ہوسکتا ہے آپ اور گورنر میں اتفاق نہ ہو۔ تب آپ کیا کروگے؟ آپ اپنا نکتہ پیش کردینے کے بعد کیا معاملے کو یونہی چھوڑ دیں گے اور امید کریں گے کہ وقت کے ساتھ گورنر اپنا ذہن بدل لیں گے؟ یا آپ قطعی راہ اختیار کریں گے اور خود کو ناگزیر انجام کیلئے تیار کرلیں گے جو گورنر کا استعفیٰ ہوگا؟
مخالف برائے آر بی آئی
بے شک! مذکورہ بالا قیاسی مکالمہ ہے، لیکن قانون کا اصل جذبہ وہی نکات ہیں۔ حالیہ تبدیلیوں نے واضح کردیا کہ حکومت نے اس قیاسی مکالمہ کو اپنے ذہن میں نہیں دہرایا جب وہ گورنر کے ساتھ معمول کے مشاورتوں کیلئے یکجا ہوئے۔ اس کا نتیجہ حکومت اور آر بی آئی کے درمیان تعطل ہے جس کی سابق میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
آئیے! حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر رگھورام راجن سے بے التفائی برتی گئی، پھر بھی وہ اپنی ابتدائی میعاد جو ستمبر 2016ء میں ختم ہوئی، اس کے بعد خدمات جاری رکھنے پر رضامند تھے۔ ان کے تعلق سے عجیب ریمارک کیا گیا کہ وہ ’معقول حد تک ہندوستانی‘ نہیں ہیں اور عملاً انھیں سبکدوش کیا گیا۔ ڈاکٹر ارجیت پٹیل کو جانشین بنایا گیا لیکن، چند ہفتوں میں ہی اُن کے اختیار کو انتہائی فاش غلطی بنام ’نوٹ بندی‘ کے ذریعے ماند کردیا گیا۔ عالمی سطح پر سنٹرل بینک کے حلقوں میں ڈاکٹر پٹیل کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر پٹیل نے اپنی آزادی اور اتھارٹی کا ادعا کرتے ہوئے نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش ضرور کی۔ حکومت کی ابتدائی فکرمندی محض سود کی شرحوں کے تعلق سے رہی لیکن اس معاملے میں ڈاکٹر پٹیل کا موقف مستحکم رہا؛ انھیں مانیٹری پالیسی کمیٹی کی حمایت حاصل ہوئی۔ جلد ہی حکومت نے تاڑ لیا کہ شرح سود ہی واحد ’رکاوٹ برائے بڑھوتری‘ نہیں بلکہ دیگر خامیاں اُبھر آئی ہیں۔
کنسٹرکشن کے شعبہ کا معاملہ لیجئے۔ نوٹ بندی نے تعمیراتی شعبہ کو کاری ضرب لگائی۔ اس کے باوجود رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں دگنی سے زیادہ ہوئیں! تاہم، جنوری 2018ء سے ان فرمس کی اسٹاک قیمتوں میں 40 فی صد تک گراوٹ آئی (اور گزشتہ چھ ہفتوں میں 21 فی صد)۔ اس میں کچھ تعجب نہیں، بشرطیکہ آپ غور کریں کہ رئیل اسٹیٹ فرمس اپنے بینک قرضوں کی واپس ادائیگی کیلئے NBFCs (نان بینکنگ فینانشیل کمپنیز) سے رجوع ہوگئے؛ این بی ایف سیز نے کمرشیل پیپر جاری کرتے ہوئے رقم اکٹھا کرادی؛ اور وہ پیپر زیادہ تر میوچول فنڈز اور دیگر فنڈ پر مبنی سرمایہ کاروں نے خریدا۔ یہ سرکٹ کو IL&FS (انفراسٹرکچر لیزنگ اینڈ فینانشیل سرویسز لمیٹیڈ) کے زوال نے ضرب لگائی۔ آج این بی ایف سیز نئے فنڈز اکٹھا کرنے سے قاصر ہیں، فنڈز کیلئے این بی ایف سیز پر منحصر شعبے سکڑ گئے، اور چھوٹی اور اوسط کمپنیاں جو روایتی طور پر این بی ایف سیز سے قرض حاصل کرتی رہیں، وہ یکایک اتھل پتھل کا شکار ہوگئیں۔ اس لئے مارکیٹ میں خوف اور غصہ پایا جاتا ہے۔
خامیاں
حکومت حسب ذیل تین خامیوں سے نمٹنے بے چین ہے۔ اول، لکویڈیٹی (منقولہ جائیدادیں، نقدی) بالخصوص این بی ایف سیز کی لکویڈیٹی صورتحال اور ان کی ناگزیر واپس حوالگی کے امکانات۔ دوم، پبلک سیکٹر بینکوں کے اصل سرمایہ میں گراوٹ، ناکافی سرمایہ اور قرض دینے سے قاصر ہونا؛ ان چیزوں نے کئی بینکوں کو آر بی آئی کے ’عاجلانہ اصلاحی عمل‘ کے تحت لادیا۔ سوم، ایک ’خصوصی گنجائش‘ کی فراہمی تاکہ چھوٹی اور اوسط صنعتوں کو قرض مہیا کرایا جاسکے جو نوٹ بندی اور ناقص جی ایس ٹی سے بدحال ہوئیں، اور اب این بی ایف سی بحران نے ضرب لگائی ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنی خواہشوں کے مطابق کام کرنے کیلئے آر بی آئی کو ترغیب دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔ آر بی آئی بورڈ پر حکومت کے نئے نامزد اراکین کے ذریعے گورنر پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں بھی بظاہر ناکام ہوگئی ہیں۔
حکومت کی مشکل کو بڑھاتے جانے والی تبدیلی بجٹ کے وصولیات اور حقیقی وصولیات کے درمیان بڑھتی خلیج ہے۔ نوٹ بندی سے ایک روپیہ تک ’جٹانے‘ (400,000 کروڑ روپئے کے فائدے کی ڈینگیں ماری گئیں) میں ناکامی کے بعد حکومت نے اپنی نظر آر بی آئی کے ذخائر پر لگائی ہے۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے گورنر سے 100,000 کروڑ روپئے منتقل کرنے کیلئے کہا ہے تاکہ بجٹ کے مصارف کیلئے فینانس فراہم کیا جائے اور ٹارگٹ کے مطابق مالیاتی خسارہ کی پابجائی ہوسکے۔ معلوم ہوا ہے کہ گورنر نے سرے سے انکار کردیا۔ یہی وہ چنگاری ہے جو بارود کے ڈھیر کو جلانے والی ہے۔
چہارشنبہ 31 اکٹوبر کی بات ہے، دہلی اور ممبئی میں یہ بات زوروں پر رہی کہ حکومت سیکشن 7 کے تحت ایک یا زائد مسائل پر کوئی ہدایت جاری کرنے والی ہے اور گورنر بطور احتجاج فوری مستعفی ہوجائیں گے۔ غیرمتوقع طور پر حکومت نے چہارشنبہ کو ایک بیان جاری کیا کہ وہ آر بی آئی کی خودمختاری کا احترام کرتی ہے اور معمول کی مشاورتیں کررہی ہے۔ اگر حالات معمول پر ہی ہوتے تو وہ بیان غیرضروری ہوا؛ اگر حالات نارمل نہیں ہیں تو بیان راست باز یا سنجیدہ نہیں ہے! میں نے یہ تحریر جمعہ کو لکھی۔ اب دیکھنا ہے چنگاری اور بارود کے ڈھیر میں کون دیگر کی طرف بڑھتا ہے؟