دیکھنے میں وہ ایک عام سی سیدھی سادھی ڈری سہمی اور ہچکچانے والی خاتون لگتی ہیں ۔ ایک ایسی خاتون کہ اگر وہ ایک کار بھی چلائے تو بہت بڑی حیرت کی بات ہوگی ۔ اپنی سانسیں تھامے رکھئے وہ چار پہیوں والی کار تو دور کی بات ہے ایک طیارہ بھی بآسانی اڑاسکتی ہیں ۔ آیئے ملئے کیپٹن سیدہ سلویٰ فاطمہ سے جو ہندوستان میں کمرشیل پائلٹ کا لائسنس حاصل کرنے والی واحد مسلم خاتون ہیں ۔
سلویٰ مسلم خواتین کے بااختیار ہونے کی ایک روشن مثال ہے ۔ ان کا دکنی لب و لہجہ طرز تخاطب اور انداز بیان سلویٰ کی شخصیت کو مزید دلچسپ بنادیتا ہے اور ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ وہ تاریخی شہر حیدرآباد کے تاریخی حصہ یعنی پرانا شہر سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ شہر کا وہ حصہ ہے جہاں شدید غربت پائی جاتی ہے اور شہر کے اس گوشہ میں زندگی ہمیشہ جد وجہد سے دوچار رہتی ہے ۔ سیدہ سلویٰ فاطمہ کا پائلٹ بننا یا ان کی شخصیت اتنی حیرتناک نہیں بلکہ ان کا وہ فیصلہ سب سے زیادہ حیرت انگیز تھا جس میں انھوں نے ایک ایسے شعبہ میں داخل ہونے کا تہیہ کیا جہاں مردوں کا بول بالا ہے اور مرد ہی چھائے ہوئے ہیں ۔ ان خاتون کا سیاہ برقعہ اور سرخ اسکارف ان کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوئے بلکہ حجاب ان کیلئے کامیابی کا زینہ ثابت ہوا ۔ سیدہ سلویٰ فاطمہ اپنے اسکول کے دنوں سے ہی اخبارات میں شہری ہوابازی اور طیاروں کے بارے میں شائع ہونے والی مضامین اور تصاویر جمع کرتی رہتی تھی۔ بچپن سے ہی اس کے ذہن پر بلندیوں پر پرواز کرنے کا جنون سوار تھا ۔ اس کے پرواز تخیل کا یہ حال تھا کہ وہ خود کو ہمیشہ پائلٹ کی نشست پر بیٹھی محسوس کرتی ۔ اسکول کے دور میں سلویٰ فاطمہ گھنٹوں طیاروں کے بارے میں مطالعہ کرتی اور طیاروں کی تصاویر کو اپنے ذہن میں بٹھالیتی لیکن اس کے والد سید اشفاق احمد نے جو پیشہ سے ایک بیکری ورکر ہیں کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ان کی یہ بیٹی پائلٹ بنے گی ۔ بہرحال وہ ایک پائلٹ بننے کا خواب لئے آگے بڑھتی گئی اس کے باوجود کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ پائلٹ بن جائے گی ۔ ا سکی زندگی میں ایک ایسا مرحلہ آیا جہاں اپنے اس ارمان کی تکمیل کی بناء واپسی ناممکن ہوگئی ۔ بات اس وقت کی ہے جب اس نے ایسے ادارہ میں داخلہ لیا جس نے ایمسٹ کی مفت کوچنگ کا پیشکش کیا تھا ۔ انسٹرکٹر نے دریافت کیا کہ آپ کیا بننا چاہیں گی؟ سلویٰ کا جواب تھا ’’پائلٹ‘‘ ۔ یہ جواب وہاں موجود ہر کسی کیلئے ایک خوشگوار حیرت میں تبدیل ہوگیا خاص طور پر اس کے والد کیلئے جنھوں نے اپنی اور ارکان خاندان کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھانے کیلئے کافی جد و جہد کی تھی اور اس کا سلسلہ ہنوز جاری تھا ۔ اس لڑکی کے بلند عزائم و حوصلوں کو دیکھ کر وہاں موجود ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے سلویٰ سے ملنے کیلئے کہا ۔ ایڈیٹر سیاست سے اپنی اس ملاقات کے بارے میں سلویٰ کہتی ہیں ’’جب پائلٹ کی تربیت کیلئے جناب زاہد علی خان نے میری مالی مدد کرنے کا پیشکش کیا ان کے الفاظ میرے کانوں سے ٹکرائے لیکن مجھے اپنی قوت سماعت پر یقین ہی نہیں آیا ، میں سوچنے لگی کہ آخر میں کیا سن رہی ہوں‘‘ ۔ بہرحال آندھرا پردیش ایویشن اکیڈیمی میں پانچ برسوں کی سخت ترین ٹریننگ کے بعد سلویٰ فاطمہ نے 11 مارچ 2013 کو کمرشیل پائلٹ لائسنس ، پرائیوٹ پائلٹ لائسنس اور فلائٹ ریڈیو ٹیلیفون آپریٹر کے لائسنس حاصل کئے ۔
سلویٰ کو سینا 152 اور سینا 172 طیاروں کی 200 گھنٹوں بشمول 123 گھنٹوں تک تنہا پرواز کا اعزاز حاصل ہوا ۔ اب ان کیلئے سخت آزمائش کا وقت آیا ہے انھیں ٹائپ ریٹنگ اور اضافی تربیت کی ضرورت ہے ۔ ایربس A-320 یا بوئنگ کی کلاس ٹریننگ درکار ہے لیکن یہ ایسی ٹریننگ ہے جس پر 30 لاکھ روپئے کے مصارف آتے ہیں اور اس خطیر رقم کے بارے میں 26 سالہ سیدہ سلویٰ فاطمہ سوچ بھی نہیں سکتی اس کے باوجود وہ ہر حال میں یہ تربیت حاصل کرنے کی خواہاں ہے اور اس باحوصلہ خاتون نے اپنے بلند حوصلوں و امنگوں کی پرواز کو ہنوز بہت اونچائی پر رکھا ہے ۔ اس باحوصلہ پائلٹ نے وزیر شہری ہوابازی اشوک گجپتی راجو کو اس ضمن میں توجہ بھی دلائی ہے ۔ سلویٰ سے فون نمبر 9966073368 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے ۔
بشکریہ جے ایس افتخار دی ہندو