سیاسی عدم برداشت اور رواداری کا فقدان

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تلنگانہ اسمبلی میں سیاسی اخلاقیات کا جنازہ بہت زیادہ دھوم سے نکل رہا ہے۔ اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس نے جو کچھ کیا ہے وہ درست ہے یا غیر متوقع لیکن حکمراں پارٹی نے قومی پارٹی کے ارکان کے خلاف جس طرح کارروائی کی ہے اس سے مستقبل میں سیاسی نفرتوں کا نیا مزاج فروغ پائے گا۔ عوام کی فلاح و بہبود کی باتیں کرنے والے یہ قائدین جب اپنی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے حد سے گزرتے ہیں تو یہ سیاسی روایت سے ہٹ کر حرکت معلوم ہوتی ہے۔ تلنگانہ اسمبلی و کونسل میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا ہے سیاسی عدم برداشت اور رواداری کے فقدان سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی سیاسی مخالفت کا اظہار کرنے کے لئے بہت سے مہذب طریقے بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں لیکن کانگریس کے ارکان نے گورنر کے خطبہ کے وقت مکہ بازی، دھکم پیل اور چھپ جاؤ کا مظاہرہ کرکے ایوان کے اندر طوفان بدتمیزی مچادی جس کے بعد ایوان نے ہی ندائی ووٹ سے قرارداد منظور کرکے کانگریس کے دو ارکان کی رکنیت منسوخ کروادی اور دیگر 11 ارکان کو معطل کردیا گیا۔ اسمبلی میں حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف کانگریس قائدین نے احتجاجی مظاہرے شروع کئے اور بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھ گئے۔ غیر شائستہ قدم اُٹھاکر اب بھوک ہڑتال پر بیٹھتے ہوئے خود اپنا ہی تمسخر اڑاتے ہوئے دیکھے گئے۔ کیا یہ عوام کی خدمت ہے۔ تلنگانہ کے لوگ غیرت اور تہذیب کے لئے مشہور ہیں لیکن ان کے قائدین نے ان کی غیرت کو رتی بھر اہمیت نہیں دی۔ جب لیڈروں کی جانب سے عوام کے ووٹ کی عزت نہیں کی جاتی تو عوام کو بھی ان لیڈروں کے بارے میں ایک رائے قائم کرلینی چاہئے۔ تلنگانہ میں یہ واقعہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب قومی سطح پر بی جے پی کے خلاف سیکولر پارٹیوں کو یکجا کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ خود کانگریس لیڈر سونیا گاندھی نے سیکولر اتحاد کی کوشش میں دہلی میں ہم خیال پارٹیوں کے لیڈروں کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ 2019 ء کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے خلاف اپوزیشن کی متحدہ مہم کو یقینی بنانے کے مقصد سے سونیا گاندھی کی ڈنر ڈپلومیسی میں کئی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی لیکن تلگو ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ کی پارٹیوں کو اس ڈنر کے لئے مدعو نہ کرکے کانگریس نے کیا تیر مارنے کی تیاری کی ہے۔ یہ ناقابل فہم بات ہے جبکہ دونوں ریاستوں کی جانب سے پارلیمنٹ میں 42 ارکان پارلیمنٹ دیئے جاتے ہیں اور یہ 42 ارکان ان ریاستوں میں درست اتحاد کے ذریعہ کانگریس کے مستقبل کو مضبوط بناسکتے ہیں لیکن سونیا گاندھی کے ڈنر میں صرف 17 پارٹیوں کے نمائندوں کو خاص اہمیت دی گئی جبکہ جتنے بھی ارکان شریک تھے ان کا اپنا علاقائی وزن خود انھیں معلوم ہے۔ تلگو ریاستیں ہی کانگریس کے لئے قومی طاقت کا ذریعہ رہی ہیں۔ ماضی میں آندھراپردیش ہی نے کانگریس کو مضبوط بنایا تھا۔ 2004 ء کے عام انتخابات میں کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے تاریخ بنائی تھی اور اٹل بہاری واجپائی زیرقیادت این ڈی اے کو شکست دے دی تھی۔

متحدہ آندھراپردیش میں 42 لوک سبھا حلقوں کے منجملہ کانگریس نے 29 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی اور 2009 ء کے انتخابات میں اسے 33 حلقوں پر کامیاب بنانے والے راج شیکھر ریڈی تھے جس کے بعد ہی کانگریس زیرقیادت یو پی اے حکومت کو مرکز میں اقتدار حاصل ہوا تھا۔ لیکن اب کانگریس نے ان دو تلگو ریاستوں کے سلسلہ میں اپنا رویہ منفی بناکر خود اپنا نقصان کرلیا ہے۔ ڈنر ڈپلومیسی کے ذریعہ آخر یہ ثابت کردیا گیا کہ کانگریس نے اپنی سابق ناکامیوں سے سبق حاصل نہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنی تنگ نظری کی حد کو توڑا ہے۔ سونیا گاندھی کے 10 جن پتھ کے ہائی پروفائل والے بنکویٹ میں تلگودیشم اور ٹی آر ایس کے نمائندوں کی عدم موجودگی کا اثر آنے والے انتخابات میں دیکھا جائے گا۔ چیف منسٹر تلنگانہ چندرشیکھر راؤ نے پہلے ہی بی جے پی اور کانگریس کے بغیر تیسرا محاذ بنانے کا اعلان کیا لیکن یہ محاذ قائم نہیں ہوگا اور بن جائے تو دیرپا نہیں رہے گا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بی جے پی کو بھی کئی چیالنجس کا سامنا ہے۔ تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس نے مودی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی لیکن ٹی آر ایس نے بی جے پی پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ 2019 ء کے آنے تک قومی سیاسی طاقت کا مرکز بدل جائے تو ایسے میں علاقائی پارٹیوں کا کیا رول ہوگا یہ قابل غور بات ہے۔ کانگریس کے بغیر اتحاد بنانے کی سوچنے والے چیف منسٹر کے سی آر کا موقف کیا ہوگا، غلط اندازے قائم کرلینا بھی سیاسی خودکشی کے مترادف بات ہوگی۔ ٹی آر ایس کو جس قوت کے ساتھ عوام نے سیاسی طاقت بخشی تھی اسی تیزی کے ساتھ قومی عزائم کا خواب بھی چکنا چور کردیا جائے گا۔ اس وقت بظاہر بی جے پی ایک طاقتور جماعت ہے۔ اس نے ہر ریاست میں اپنا سکہ جمانے کی مہم کو کامیاب بنانا شروع کردیا ہے لیکن ریاستوں میں خاص کر ہندی پٹی والی ریاستوں میں عوام کا رجحان بدل رہا ہے تو بی جے پی کی کامیابی کے امکانات پر سوالیہ نشان لگے گا۔ اپنی عقل بیچنے والے سیاستدانوں میں ان دنوں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بعض سیاستداں نے تو اپنی عقل استعمال ہی نہیں کی مگر ان کے دلوں میں حکومت اور اقتدار کی حسرت ضرور ہوتی ہے لیکن ان کے لئے حصول اقتدار کی جدوجہد حرف آخر نہیں ہے۔ بعض اوقات ناممکنات بھی ممکنات ہوجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ کہا جارہا تھا کہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کا کوئی ثانی نہیں ہوگا لیکن اب تیسرے محاذ کی خبروں نے کئی ثانیوں کو پیدا کرنے کا موقع دے دیا ہے۔ عام انتخابات کی تیاری کرنے والوں میں وہ سیاستداں بھی ہیں جو اپنا ہاتھ عاملوں اور علم نجوم کے ماہرین کو دکھاکر سیاسی مستقبل کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان دنوں مقامی جماعت کے سیاستداں بہت زیادہ اُچھل کود کررہے ہیں اور علم نجوم کے لوگوں کے سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلاکر یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا انھیں ان کی جگہ سے نکل کر دیگر ریاستوں میں بھی کامیابی ملے گی یا نہیں۔ کامیابی نہ سہی کم از کم وہ مسلم ووٹوں کو کاٹ کر فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ چنانچہ یہ ماہرین علم نجوم ان کی ہتھیلیوں اور پیشانیوں کی لکیروں کو پڑھ کر جب بتاتے ہیں کہ انھیں اپنے علاقہ کی حد تک ہی محدود رہنے میں ہی ان کی عافیت ہے تو وہ بے چین دکھائی دے رہے ہیں۔

تلنگانہ کی ترقی کے لئے بلند وعدوں کے 4 سالہ طویل سفر کے بعد عوام کو مایوسی ہی ہورہی ہے۔ کے سی آر حکومت نے اپنا پانچواں بجٹ پیش کرکے سب سے زیادہ آبپاشی پر رقم مختص کی ہے۔ مہاراشٹرا میں کسانوں کے کامیاب احتجاج اور مہاراشٹرا کی حکومت کا موافق کسان فیصلہ دیکھنے کے بعد کے سی آر حکومت نے اپنی ریاست میں کسانوں کو خوش کرنے کے نام پر بھاری بجٹ پیش کرنے کا خوش کن اعلان کیا ہے۔ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس ٹی اور ایس سی کے لئے زیادہ بجٹ دیا گیا جبکہ مسلمانوں کو پھر ایک بار میٹھی بولی کے ساتھ نیند کی گولی دے کر صرف 2000 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ تحفظات بھی نہیں ملے اور بجٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں کو چلتی کا نام گاڑی سمجھ کر ہر حکمراں اپنے اندر منفی ایجنڈہ رکھتا ہے۔ کہنے کو تو مسلمانوں نے ہمیشہ حکمرانوں سے دھوکہ کھایا ہے مگر اپنے بچاؤ کے لئے کبھی بھی ایک موقف نہیں اپنایا۔ مسلمانوں کی زندگی اتنی تیڑھی تو نہیں ہے اگر منزل کا تعین کرلیا جائے تو راستے بنتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ سے اپنے نام نہاد لیڈروں کی مقررہ نشانیوں کو ہی اپنی منزل متصور کیا ہے۔ ’حیران ہوں دل کو دوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘ غالب کی کہی یہ بات مسلمانوں کے لئے انداز گفتگو، طرز فکر اور ترجیحات دیکھ کر شرمندگی اور پچھتاوے کی گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ ہندوستان خاص کر تلنگانہ کے مسلمانوں کے لئے جاریہ سال فیصلہ سازی کا ہے۔ بہرحال اس وقت مسلمانوں کو دو آمروں سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مرکز میں ایک آمر ہے تو ریاست میں دوسرا آمر ووٹوں میں نوٹوں کی خوشبو کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے لیڈرس بھی لوک سبھا ہو یا اسمبلیاں دونوں میں نوٹوں کی خوشبو کے مزے لے کر مسلمانوں کے حق میں کچھ نہیں کررہے ہیں۔