سیاسی طاقت کو مزید قوی کرنے کی آرزو

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
سیاستدانوں کو باشعور ہونا ضروری نہیں، سوسائٹی کی تربیت کا کام اُن کے ذمہ نہیں ہے۔ قانون اور اخلاقیات کی خلاف ورزی میں یہی لوگ سب سے آگے ہوتے ہیں۔ ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر شہریوں کو چالانات کرنے والے پولیس ملازمین سیاستدانوں کی گاڑیاں دیکھ کر الرٹ ہوجاتے ہیں۔ منافقت کا یہ چلن عام ہے، آج کا حاصلِ موضوع دو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں سیاستدانوں کی وفاداریوں کی تبدیلی اور سیاسی مفاد پرستی ہے۔ اگر کوئی پارٹی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کی آزمائش سے گذرے تو اس وقت سیاستدانوں کی سودے بازی کیلئے کروڑہا روپئے کی بولی لگتی ہے مگر تلنگانہ کی ٹی آر ایس اور آندھرا پردیش کی تلگودیشم اس لحاظ سے خوش قسمت پارٹیاں ہیں کہ انہیں اندھا دھند طریقہ سے عوامی منتخب لیڈر گھر بیٹھے مل رہے ہیں۔ سیاسی انحراف کی ایسی لہر چل پڑی ہے کہ اپوزیشن کا ہر کوئی لیڈر حکمراں پارٹی کے قائدین کے تلوے چاٹ رہا ہے۔ ان لیڈروں نے خواہشات کے سُراب میں خود کو ڈھکیل دیا ہے ۔ان کا یہ سُراب بھی ایسی خواہشات کا ہے جو وقت آنے پر سیاسی زندگی پر ناقابل برداشت بوجھ بن جائیں گی۔
دونوں ریاستوں کے چیف منسٹرس کے چندر شیکھر راؤ اور چندرا بابو نائیڈو کو اس امر کا شدید احساس ہونا چاہیئے کہ ایک سیاسی قائد اور ایک ریاست کے حکمراں کی حیثیت سے ان کی امیج پر کیا اثر پڑے گا، یہ واقعات عوام کیلئے اچھنبوں کی حیثیت کے مترادف ہیں۔ اگرچیکہ دونوں ریاستوں کی حکمراں پارٹیوں کو حکومت کرنے والی خاطر خواہ اکثریت حاصل ہے پھر بھی وہ اپوزیشن کے ارکان کو ایک منظم طریقہ سے رجھاتے ہوئے اپنی پارٹی میں شامل کررہے ہیں تاکہ ان کے سامنے ایک اپوزیشن کا وجود کمزور بن کر رہ جائے اور ان کے سیاسی مستقبل کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ تلنگانہ اور آندھرا کی دونوں پارٹیوں کو مئی 2014ء کے انتخابات میں اچھی اکثریت کے ساتھ کامیابی ملی تھی۔ تلنگانہ کی 119 نشستوں کے منجملہ 63 پر ٹی آر ایس کامیاب ہوئی اور 175نشستوں کے منجملہ 102 حلقوں پر آندھرا پردیش تلگودیشم نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کامیابی کے باوجود دونوں پارٹیوں کا پیٹ نہیں بھرا اور خواہشات کی فہرست طویل ہونے لگی۔
ٹی آر ایس پر الزام ہے کہ اس نے تلنگانہ میں تلگودیشم کے 12ارکان اسمبلی کو لالچ دے کر اپنی پارٹی میں شامل کیا۔ بی ایس پی کے دو ارکان بھی اسی کی جھولی میں پڑگئے اور وائی ایس آر کانگریس کے 3ارکان، کانگریس کے 6ارکان کو اپنا حامی بنالیا تاکہ ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی جائے۔ اس طرح ٹی آر ایس کے ارکان کی اکثریت 87 ہوگئی، اب نئے مزید ارکان کو شامل کرلیا گیا ہے۔ اگرچیکہ ان ارکان اسمبلی کے خلاف کانگریس نے کارروائی بھی کی اور ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دینے کی ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی گئی تھی لیکن عدالت نے اس معاملہ کو اسمبلی اسپیکر سے ہی رجوع کردیا کیونکہ ریاستی اسمبلی کے اسپیکر کو ہی اس معاملہ میں نااہلیت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ فی الحال دونوں ریاستوں کی اسمبلیوں کے اسپیکرس خاموش ہیں۔ اس انحراف پسندی کی سیاست کا سب سے زیادہ فائدہ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کو ہورہا ہے کیونکہ تلنگانہ کے 10اضلاع میں اب ٹی آر ایس کا کوئی سخت گیر حریف گروپ نہیں ہے۔ جس ریاست میں مضبوط اپوزیشن نہیں ہوتی وہاں کی حکمرانی کو من مانی کا لائسنس مل جاتا ہے۔ سیاسی دَل بدلی کی یہ ایک بدترین تاریخ چھوڑدی ہے۔ عوام بھی ایک مضبوط اپوزیشن کے بغیر حکمراں پارٹی کے ناز و نخروں کو برداشت کرنے لگیں گے کیونکہ تلنگانہ میں بلا وقفہ برقی دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت نے برقی کٹوتی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ شہر حیدرآباد کو عالمی درجہ کا اور برقی سربراہی میں ممبئی کے خطوط پر کام کرنے کا منصوبہ دھرا کا دھرا رہے گا۔ ذراسی بارش ہوتے ہی سارا شہرگھنٹوں تاریکی میں غرق ہوجاتا ہے۔
تلنگانہ حکومت کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ روز مرہ کے مسائل سے عوام کو چھٹکارا دلایا جائے چونکہ وہ عام آدمی کی بہت خیر خواہ ہے لیکن اب اس نے اپوزیشن کا صفایا کرنے کی مہم شروع کی ہے تو اپوزیشن کے بغیر اس نے عوام کو مختلف عنوانات سے پریشان کرنے اور انہیں ٹھگ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو حکومت صرف ٹریفک چالانات کے ذریعہ شہریوں سے 207 کروڑ روپئے وصول کرتی ہے وہ دیگر حیلے حوالوں سے بھی کروڑہا روپئے حاصل کرسکتی ہے۔ صرف حیدرآباد میں ہی ٹریفک پولیس نے چالانات کا جال بچھاکر حکومت کو کروڑہا روپئے  کا فائدہ پہنچایا ہے جبکہ موٹر وہیکل ایکٹ کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی پر عائد کردہ جرمانہ کی شکل میں 1.6کروڑ روپئے کی رقم شہریوں سے وصول طلب بھی ہے۔ ٹریفک پولیس کے پاس 100کروڑ روپئے کے ادا شدنی چالانات کی فہرست ہے اس کے علاوہ شہریوں کو پھانسنے کا کام بڑی آسانی سے ٹریفک پولیس کے تفویض کردیا گیا ہے۔ خلاف ورزیاں پھر بھی ہورہی ہیں، رول توڑنا اور چالان بھرنا شہریوں کی عادتوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ سال 2016ء میں ٹریفک پولیس نے ماہ اپریل کے اختتام تک 11.20 لاکھ کیس بُک کئے ہیں اور اس کی چالان کی رقم 24.51 کروڑ روپئے ہوتی ہے جبکہ 8لاکھ موٹررانوں نے 18.20 کروڑ روپئے ادا کردیئے ہیں۔ سال 2015 میں ہی ٹریفک پولیس نے 32.32 لاکھ کیسوں کو بک کرکے75.44کروڑروپئے چالان کی رقم حاصل کی تھی۔ حکومت کے لئے ٹریفک پولیس پیسہ دینے والی مشین بن گئی ہے تو پھر ٹریفک کی بہتری، اُصول و ضوابط کے لئے شہریوں میں بیداری لانے ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل آوری کیلئے ٹریفک عملہ کی تعداد میں اضافہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس وقت جو بھی ٹریفک پولیس کا عملہ ہے اسے چالانات کی وصولی پر لگادیا گیاہے لہذا چوراستوں پر ٹریفک کنٹرول کرنے اور ٹریفک جام کی صورت میں فوری اقدامات کرنے کے لئے عملہ کہاں دستیاب ہوگا؟ لامحالہ موٹر رانوں کو ٹریفک میں پھنس کر ہی گذرنا پڑرہا ہے۔
حکومت کو اپنی پارٹی کے ارکان کی تعداد بڑھانے اور حکمران کو بقول تلگودیشم لیڈر فارم ہاوز میں سُستانے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے۔ جس حکومت میں سیٹیاں بجانے والے لوگ زیادہ جمع ہوجائیں تو وہاں عوام کی چیخیں کہاں سنائی دیں گی۔ یہ حکمرانوں کی اخلاقی گراوٹ ہے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کو دوسروں کی طاقت کا سرقہ کرکے مضبوط بنارہے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں کہ ترقی ہورہی ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، حکومتوں اور حکمرانوں کے اندازِ سیاست اور تقاضے بھی بدل رہے ہیں۔ یہ تلنگانہ عوام کے ووٹوں کا صدقہ ہے کہ تلنگانہ میں جادو کا چراغ صرف ایک ہی گھر میں جل رہا ہے باقی گھر تاریکی میں غرق ہیں۔ صرف اس دن کا انتظار ہے کہ عوام کے شعور کا چراغ کب جلے گا۔؟
kbaig92@gmail.com