تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ، دن دھاڑے قتل اور سیاسی قائدین کے خلاف نکسلائٹس کارروائی کے دل ہلادینے والے واقعات دونوں تلگو ریاستوں کی حکومتوں کے لیے لمحہ فکر ہیں ۔ حیدرآباد میں صرف لڑکیوں سے عشق کے مسئلہ پر چند ہفتوں میں ہی بہیمانہ قتل کے واقعات رونما ہوئے اور پولیس تماشائی بنی رہی ۔ تلنگانہ میں تو نگرانکار حکومت کام کررہی ہے جب کہ آندھرا پردیش کی تلگو دیشم حکومت کو نکسلائٹس سرگرمیوں نے نیند حرام کردی ہے ۔ یہ واقعہ بظاہر چندرا بابو نائیڈو کے لیے انتباہ ہے جو خود بھی نکسلائٹس کے سرنگ دھماکے میں بال بال بچ چکے ہیں ۔ دونوں ریاستوں کی صورتحال نازک ہوگئی ہے ۔ تلنگانہ میں کھلے عام قتل کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ شہر حیدرآباد میں ہی صرف 10 دن کے اندر سڑکوں پر بہیمانہ طریقہ سے قتل کی وارداتیں رونما ہوئی ۔ راجندر نگر عطا پور میں پولیس کے سامنے قتل ہوا لیکن پولیس اس قتل کو روکنے میں ناکام رہی ۔ اس واقعہ کی تصاویر جب سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو یہ محسوس ہوا کہ قتل کے اس دردناک واقعہ کی تصویر کشی میں مصروف لوگوں نے مقتول کو بچانے کی کوشش نہیں کی ، چند ایک راہ گیروں نے جرات کا مظاہرہ کیا لیکن وہ قاتل کا ہاتھ روکنے میں ناکام رہے ۔ آندھرا پردیش کے دو تلگو دیشم قائدین کی ہلاکت کے لیے نکسلائٹس کی خاتون کمانڈر نے قیادت کی جو ماویسٹ تحریک کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا ۔ کسی ماویسٹ خاتون نے پہلی مرتبہ خاتون نکسلائٹس کی کمانڈنگ کرتے ہوئے دو قائدین کو موت کے گھات اتار دیا ۔ دونوں حکومتوں کے سربراہوں کے اندر ایک گہری خاموشی چھا گئی ہے ۔ اگر یہ حکومتیں اپنے شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہیں تو ان کے لیے بھی یہ خطرے کی علامت ہے ۔ آندھرا پردیش کے واقعات کے بعد تلنگانہ میں بھی سیاسی قائدین کی سیکوریٹی کی فکر لاحق ہوچکی ہے ۔ نکسلائٹس نے خود کو زیادہ سرگرم کیا ہے ان کی یہ سرگرمی ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب کہ تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کے لیے تلنگانہ حکمراں قائدین کو عوام کے درمیان پہونچنا ہوتا ہے ۔ ان کی سیکوریٹی اور عوامی جلسوں میں ان کی شرکت سیکوریٹی کے مسئلہ کو سنگین بنا سکتی ہے ۔ ان حالات سے یوں لگتا ہے کہ بد دعاؤں کا سامنا ہے ۔ عوام کی خوشیاں اپنی حکمرانی کے ساتھ لے کر چلنے والی ٹی آر ایس پارٹی نے عوام کی خواہشات کو رواند کر اپنا قد اونچا کرنا چاہا ہے لیکن اس کی تمنا سیاسی سربلندی کے لیے عوام کے ہی ووٹوں کی محتاج ہوگی ۔ دونوں ریاستوں کے اسمبلی حلقوں کی تعداد اور حالیہ واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں حکومتوں کو موجودہ اسمبلی حلقے ہی سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے لیکن ان دونوں ریاستوں کے اسمبلی حلقوں میں اضافہ کے لیے شدت کے ساتھ زور دیا جارہا ہے ۔ تلنگانہ کی حکومت نے 119 اسمبلی حلقوں میں مزید اضافہ کی ضرورت پر زور دیا ہے تو آندھرا پردیش بھی اسمبلی حلقوں میں اضافہ کی دہائی دے رہی ہے ۔ ان دونوں کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے ۔ اگر مرکز نے اسمبلی حلقوں میں اضافہ کی اجازت دی تو آندھرا پردیش میں 50 اور تلنگانہ میں 34 حلقوں کا اضافہ ہوگا ۔ اگر مرکز کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں دستوری دفعات میں ترمیمات کے لیے منظوری حاصل کرلی جاتی ہے تو آندھرا پردیش اور تلنگانہ کو زائد ارکان اسمبلی مل جائیں گے ۔ مرکز کو دستور کے آرٹیکل 170 میں بھی ترمیم کرنی ہوگی ۔ موجودہ دفعات کے تحت اسمبلی حلقوں میں اضافہ صرف اس صورت ہی ہوسکتا ہے جب مردم شماری کی رپورٹ شائع ہوجائے ۔ 2021 کی مردم شماری کی رپورٹ 2026 میں شائع ہوگی ۔ مرکزی وزارت داخلہ کو اس مردم شماری کی اساس پر ہی حلقہ بندی کرنی ہوگی ۔ غیر منقسم آندھرا پردیش میں اسمبلی کے 294 حلقے تھے ۔ 2014 میں تلنگانہ کے قیام کے بعد آندھرا پردیش کے حق میں 175 نشستیں آئیں اور تلنگانہ کو ماباقی 119 نشستیں حاصل ہوئیں ۔ اگر مرکز نے آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مطالبہ کو قبول کرلیا تو آندھرا پردیش میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 225 ہوگی اور تلنگانہ کو 153 حلقے ملیں گے ۔ آندھرا پردیش کی تقسیم کے وقت ہی اے پی ری آرگنائزیشن قانون کے دفعہ 26 میں یہ نشاندہی کی جاچکی ہے کہ حلقوں کی حد بندی کی جائے گی اگر اسمبلی حلقے بڑھتے ہیں تو اس کا اثر دونوں ریاستوں کے لوک سبھا حلقوں پر ہرگز نہیں پڑے گا ۔ حکومت نے اب تک 2011 کی مردم شماری کو ہی مد نظر رکھا ہے ۔ یہ مردم شماری 2013 میں شائع ہوئی تھی ۔ اس کی بنیاد پر دونوں ریاستوں کے حق میں اسمبلی حلقوں میں اضافہ بھی ہوگا۔ اس لیے دو تلگو ریاستوں کو نئی مردم شماری 2021 کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ اگر اسمبلی حلقے بڑھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ آیا یہ حکومتیں نظم و نسق کو موثر طور سے نمٹنے کی اہل ہوں گی ۔ اس وقت دونوں ریاستوں کی جو صورتحال ہے اس سے ہر کوئی واقف ہورہا ہے ۔ خود ٹی آر ایس صدر کے سی آر کو یہ احساس ہے کہ ان کے موجودہ ارکان اسمبلی میں سے بیشتر کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے ۔ کئی ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں عوامی فلاح و بہبود کے کام انجام دینے اور سرکاری اسکیمات سے عوام کو راحت پہونچانے میں ناکام ہوئے ہیں ۔ چیف منسٹر نے ان چار سال میں اپنی تقریروں سے عوام کی ایسی ذہن سازی کی ہے کہ اس کی پالیسیوں کا جائزہ لیے بغیر اور بنا سوچے ان کی باتوں پر یقین کرلیا ۔ انہوں نے تلنگانہ تحریک کے دوران کے سی آر کے عزائم کا چرچا بہت سنا تھا ۔ کیا معلوم تھا کہ وہ دھوکہ بھی دل کھول کر دیتے ہیں ۔ نئے اسمبلی حلقوں میں عوام کو کچھ نہیں ملے گا ۔ بلکہ سیاسی بیروزگاروں کو روزگار حاصل ہوگا ۔ دونوں چیف منسٹرس یہی چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹیوں کے ارکان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے ۔ اس خواہش کے ساتھ ساتھ دونوں لیڈروں کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عملی کام کر کے دکھانے کی بھی ضرورت ہوگی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ قائدین عوام کے شکوؤں پر بھی دھیان نہیں دیتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ کس لیڈر نے وعدہ پورا کیا تھا جو ہم کریں گے ۔ ان سیاستدانوں کا شائد یہ خیال ہے کہ عوام سے وعدے کر کے انہیں خوش رکھا جائے ۔ کون ان کے وعدوں کو پورا کرے جو روز ایک نیا مطالبہ سامنے لاتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ٹی آر ایس کو عوام کے غیض و غضب کا احساس نہیں ہے کیوں کہ وہ اپنی دوست پارٹیوں کے خوش کن تبصروں پر یقین کرنے لگی ہے ۔ ایک دوست پارٹی کے صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوگا اور بھاری اکثریت سے کامیابی ملے گی ۔ اس لیڈر نے یہ کہہ کر اپنا حق نمک ادا کردیا ۔ ٹی آر ایس کے مسلم ترجمان بن کر کے سی آر کو یہ یقین تو دلایا کہ انتخابات میں بھر پور ساتھ دیا جائے گا ۔ 3 اکٹوبر سے انتخابی مہم شروع کرنے والے صدر ٹی آر ایس کو پھر ایک بار وعدوں کا خوشنما منظر پیش کرتے دیکھا جائے گا ۔ جذباتی لہجہ میں عوام کے اندر پائی جانے والی امید کو جگائیں گے عوام کو ان کی جانب سے دی گئی وعدوں کی زنجیر ایسی آئی ہے کہ وہ رہائی کی کوشش ہی نہیں کریں گے ۔ ٹی آر ایس سربراہ کے وعدوں میں ایسا سحر ہے کہ عوام آئندہ بھی ووٹ دیں گے خاص کر تحفظات کے خواہش مند مسلمان حکومت سے دل ٹوٹنے کے بعد بھی استخارہ کر کے پھر سے عشق دوبارہ میں مصروف ہوجائیں گے کیوں کہ ان کے مسلم لیڈر دوست نے یقین سے کہہ دیا ہے کہ کے سی آر دوبارہ اقتدار پر آئیں گے ۔
kbaig92@gmail.com