غضنفر علی خان
گزشتہ ہفتہ وزیراعظم نریندر مودی نے ایک قومی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں پوری سنجیدگی کے ساتھ ملک کو درپیش مسائل پر اظہار خیال کیا۔ یہ انٹرویو ان کا پہلا انٹرویو تھا جو انھوں نے وزیراعظم بننے کے بعد دیا ہے۔ ہندوستان کے قریبی پڑوسی ممالک چین و پاکستان سے ہمارے تعلقات سے لے کر نیوکلیر سپلائنگ گروپ کی رکنیت کے لئے ہندوستان کی کوشش کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اس طویل بات چیت کے دوران انھوں نے بھولے سے بھی ملک کے داخلی حالات، بڑھتی ہوئی جارحانہ فرقہ پرستی، مسلم اقلیت کے خلاف مسلسل نفرت انگیز باتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا۔ ان کے اظہار خیال سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، جو خلاف حقیقت ہے۔ مسلم مخالفت کا کوئی موقع وزیراعظم کی بی جے پی پارٹی کے بعض انتہا پسند لیڈر نہیں چھوڑتے یہاں تک کہ وزیراعظم نے اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیاکہ کیوں سادھوی پراچی نے یہ کہنے کی جرأت کی کہ ہم ہندوستان کو مسلمانوں سے پاک کریں گے یا ان سے ملک کو نجات دلائیں گے۔ حالانکہ وزیراعظم کو ان کی پارٹی کے لیڈروں کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ 25 کروڑ مسلمانوں سے ملک کو نجات دلانے کی بات یکسر بے معنی، ناقابل عمل اور ناممکن ہے۔ ملک کی آبادی کا 1/8 حصہ ان ہی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہاں سرسری طور پر انھوں نے یہ ضرور کہاکہ ’’سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے جو بھی کوشش کی جاتی ہے اس سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے‘‘۔ یہ بات بھی انھوں نے پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سبرامنیم سوامی کے حوالے سے کہی۔ مسٹر سوامی اپنی دریدہ دہنی اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کے لئے ہی جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے ریزرو بینک کے گورنر مسٹر رگھورام راجن کے تعلق سے یہ کہا تھا کہ وہ (مسٹر راجن) ملک سے دشمنی کررہے ہیں اور ان کو دوسری میعاد کے لئے گورنر نہیں بنانا چاہئے۔ مسٹر راجن کی حمایت کرتے ہوئے مودی نے کہاکہ ’’جہاں تک وہ مسٹر راجن کو جانتے ہیں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ راجن اتنے ہی ملک دوست اور وفادار ہیں جتنے کے دوسرے ہیں‘‘۔ وزیراعظم کے اس خیال سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ گورنر ریزرو بینک آف انڈیا ایک راست باز، فرض شناس ہندوستانی ہیں۔ سبرامنیم سوامی تو بی جے پی کے ایسے لیڈر ہیں جو مشہور ہونے سے بہت زیادہ اپنے متنازعہ بیانات اور غیر ضروری ریمارکس کرنے کے لئے بدنام ہے۔ وہ کسی بھی شریف انسان خواہ وہ سونیا گاندھی، راہول گاندھی یا کوئی مقتدر اعلیٰ عہدہ دار ہو اس کی پگڑی اُچھال دیتے ہیں۔
انھیں تو مرکزی کابینہ میں ’’پگڑی اُچھال منتری‘‘ کا قلمدان دیا جانا چاہئے۔ خدا کا شکر ہے کہ نہ ہماری کابینہ میں ایسا کوئی قلمدان ہے اور نہ ہمارا دستور اس کی اجازت دیتا ہے۔ جس طرح وزیراعظم نے سبرامنیم سوامی پر انٹرویو میں تبصرہ کیا انھیں اپنی پارٹی کے اُن لیڈروں کی بھی سرزنش کرنی چاہئے تھی جن کی پاؤں گری اور بدزبانی کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے کیوں کہ سبرامنیم سوامی نے تو چند ممتاز شخصیتوں پر کیچڑ اُچھالا تھا جو یقینا ہر اعتبار سے غلط ہے۔ لیکن سادھوی پراچی، ساکشی مہاراج اور ان کے ہم خیال بی جے پی لیڈر کھلے بندوں ملک کی دوسری بڑی اکثریت (مسلم فرقہ) کے بارے میں دل آزاری کی باتیں کرتے ہیں۔ انھیں فخریہ طور پر دہراتے ہیں، وہ کیا وزیراعظم کی رائے میں کم تر غلطی کے مرتکب ہیں یا پھر یہ سمجھا جائے کہ وزیراعظم مودی کا وہ ذہن نہیں بدلا جس کا 2002 ء میں انھوں نے گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران اور اس کے بعد کئی برسوں تک مظاہرہ کیا تھا۔ آمدم برسرے مطالب ہرگز یہ نہیں کہ سبرامنیم سوامی پر وزیراعظم کی ڈانٹ پھٹکار کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ بھی یقینا ضروری تھی ورنہ مسٹر سوامی کی بے لگامی اور کئی نئے فتنے کھڑا کرسکتی ہے۔ صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ کیوں وزیراعظم کو اس تفصیلی انٹرویو کے دوران یہ یاد نہیں رہا کہ اس ملک کے مسلمانوں کی وقفے وقفے سے دل آزاری کی جارہی ہے اور ایسے تمام پارٹی لیڈروں کو بھی ڈانٹ پھٹکار ہی نہیں بلکہ ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جانی چاہئے۔ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم یہ شبہ ختم ہوجاتا کہ وزیراعظم یا ان کی حکومت مسلمانوں کی دل آزاری کو بھی ایسے ہی ناپسند کرتے ہیں جیسے مسٹر راجن کے معاملے میں انھوں نے کیا ہے۔ دراصل یہ ساری باتیں آج کے سیاست دانوں کی بے اعتدالی صرف جنگ زرگری کرنے لازمی نتیجہ ہے۔ اب ہمارے ملک میں انتخابات منافع بخش سرمایہ کاری کا آسان ذریعہ بن گئے ہیں وہ دن ختم ہوئے جب سیاست داں اپنی انفرادی دیانت داری اور اپنے کردار سے عام لوگوں کے آئیڈیل ہوا کرتے تھے۔ آج صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔ سیاستداں عوام کی نظر سے گر گئے ہیں۔ عوام انھیں اپنا نمائندہ نہیں سمجھتے۔ پارلیمنٹ میں کسی مسئلہ کو اٹھانے کے لئے سیاست داں رقمی لین دین کررہے ہیں۔ ہندوستانی سماج کی شکل بگاڑنے کے لئے ملک کے عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی شرانگیز کوششیں ہوتی ہیں۔ ابھی اسی ہفتہ اترپردیش میں کسی فلم کی نمائش کو روکنے کے لئے وہاں کے ایک شہر میں فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کا اترپردیش کے ایک ایم ایل اے پر الزام لگایا گیا ہے۔ اس نامسعود کام کے لئے مبینہ طور پر 5 لاکھ روپئے کا سودا بھی ہوا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے جو منظر عام پر آگیا لیکن درپردہ ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے۔ ملک کے عوام اب ہماری جمہوریت میں صرف بے بس اور خاموش تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ سیاست داں انتخابات میں جو دولت جھونکتے ہیں اس کو یہ لوگ اپنی سرمایہ کاری یا Investment سمجھتے ہیں اور لگائے گئے سرمایہ کا مطلب ان کے خیال میں یہ ہوتا ہے کہ جھونکی گئی دولت سے کئی گنا زیادہ منافع کمایا جائے خواہ اس کے لئے انھیں کچھ کرنا پڑے وہ کر گزرتے ہیں۔
آزادی کے فوری بعد جو سیاسی ماحول تھا اور سیاست دانوں کا جو رویہ تھا وہ اب ایک خواب بن گیا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی سیاست داں سے یہ کہا جائے کہ آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کی موت کے بعد پتہ چلا تھا کہ اپنے استعمال کے لئے انھوں نے جو کار اقساط پر خریدی تھی اس کی کچھ اقساط ان کی موت کے وقت باقی تھیں۔ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی ان کے پاس کار خریدنے یا یکمشت اس کی قیمت ادا کرنے کی ان کے پاس گنجائش نہیں تھی۔ یہ تھے ہمارے ملک کے وزیراعظم جن کی تربیت قومی رہنما گاندھی جی نے کی تھی اور جن کو جواہر لال نہرو، مولانا آزاد اور سردار پٹیل جیسے کئی لیڈروں کی رہنمائی حاصل تھی۔ اب تو ان کرداروں کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ اب انھیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر، ملک وہی ہے، وہی مٹی ہے اس میں اتنی ہی سوندھی خوشبو ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ مٹی نہیں بدلی، ملک نہیں بدلا، اگر بدلے ہیں تو ہمارے اپنے دور کے سیاست داں جن کے نزدیک کسی کام کو انجام دینے کی کوئی اخلاقی حد ہی نہیں ہوتی۔