میرا کالم مجتبیٰ حسین
بہت کم مزاح نگاروں کی زندگی میں عرفان کی وہ منزل آئی ہوگی جہاں انہیں اچانک یہ احساس ہوا ہوگا کہ کئی برس پہلے جس موضوع کا انہوں نے کبھی مذاق اڑایا تھا اب اس مذاق نے عملی زندگی میں نہ صرف حقیقت کا روپ اختیار کرلیا ہے بلکہ روزمرہ کا معمول تک بن گیا ہے ۔ مذاق اگر سچا ہو تو اس کے ایسے ہی فائدے اور اگر خود زندگی جھوٹی ہو تو اس کے ایسے ہی نقصانات بالآخر نمودار ہوجاتے ہیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ خرد کب جنون کی سرحد میں داخل ہوئی اور کب جنون نے خرد کی سرحد کو پار کرلیا ۔ ہماری زندگی میں اب جو عرفان کی یہ نئی منزل آئی ہے تو اس کا اصل سبب یہ ہے کہ لگ بھگ نصف صدی سے ہم مزاح نگاری کے دشت کی سیاحی کررہے ہیں اور ماضی میں لاتعداد موضوعات کا مذاق اڑاچکے ہیں ۔ پچھلے دنوں ہفت روزہ ’’تہلکہ‘‘ اور ’’ہیڈ لائنس ٹوڈے‘‘ کے نیوز چینل کے دو رپورٹروں نے ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعہ کرناٹک کی کٹر ہندو وادی تنظیم ’’سری رام سینا‘‘ کے دو نامی گرامی سربراہوں پرمود متھالک اور وسنت کمار بھوانی سے چھپے ہوئے کیمرے کے روبرو بات چیت کی تھی ۔اس بات چیت میں ان دونوں رپورٹوں نے دونوں نامی گرامی سربراہوں کے سامنے اپنی اس معصوم خواہش کا اظہار کیا کہ وہ فسادات کے ذریعہ بنگلور میں دہشت کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ ان فسادات کے انعقاد کے لئے جو بھی واجبی دام طے ہوں گے وہ انہیں ادا کردیئے جائیں گے ۔ پرمود متھالک نے اس معصوم خواہش کے احترام میں ازراہ عنایت وعدہ فرمایا کہ اگر انہیں ساٹھ لاکھ روپے کی رقم ادا کی جائے تو وہ نہ صرف بنگلور میں بلکہ منگلور میں بھی فسادات کو اعلی پیمانہ پر منعقد کرنے کا بندوبست فرماسکتے ہیں ۔ دونوں رپورٹروں نے اپنے قلیل وسائل اور غربت کا حوالہ دیتے ہوئے بھاؤ تاؤ کے ذریعہ اس بھاری رقم میں تھوڑی سی کمی کرنے کی گزارش کی تو پرمود متھالک نے یہ وعدہ فرمایا کہ وقت آنے پر وہ اس پر ہمدردانہ غور کریں گے ۔ انہوں نے یہ بات یوں کہی جیسے ایک تجربہ کار بیوپاری اپنے اناڑی گاہک سے عموماً کہتا ہے کہ میاں مال دیکھ کر دام ادا کرنا ۔ ایسا فساد کرائیں گے کہ بس دیکھتے رہ جاؤگے ۔
معقول دام لے کر نہایت نامعقول فساد کروانے سے متعلق یہ خبر جس دن اخبارات میں شائع ہوئی اس دن صبح صبح ہمارے ایک دوست کا فون آیا ’’میاں ! تمہاری زبان واقعی کالی ہے ۔ جب بھی تمہاری زبان یا قلم سے کوئی بُری بات نکلتی ہے تو جلد یا بدیر بالکل صحیح ثابت ہوجاتی ہے ۔ تم نے آج سے ٹھیک چالیس برس پہلے ایک طنزیہ ’’سند باد جہازی کا سفر نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا جس میں ایک لیڈر نے تیس ہزار روپے کے دام لے کر کسی شہر میں فساد کروایا تھا ۔ اس وقت تمہارے خیالی خاکے کی دھوم مچ گئی تھی اور تمہارے اس طنزیہ کے ایک ایک فقرے پر لوگوں نے بے پناہ قہقہے لگائے تھے اور آج دیکھو کہ تمہارا یہ خیالی خاکہ حقیقت کا روپ اختیار کرکے لوگوں کو خون کے آنسو رلارہا ہے ۔ یہ بات بھی قابل تعریف ہے کہ چالیس برس پہلے اس زمانہ کی گرانی کے حساب سے سند باد جہازی نے لیڈر کو فساد کرانے کے دام تیس ہزار روپے ادا کئے تھے اور آج کے لیڈر اس کام کے ساٹھ لاکھ روپے مانگ رہے ہیں ۔ یوں بھی آج کے زمانہ میں افراط زر کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ چالیس برس پہلے کے تیس ہزار روپے آج کے ساٹھ لاکھ روپیوں سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتے ہیں‘‘ ۔ ہمارے دوست کے فون کے بعد جب ہم نے اخبار میں اسٹنگ آپریشن کی خبر تفصیل سے پڑھی تو خیال آیا کہ واقعی ہمارے چالیس برس پرانے طنز کا ایک ایک کردار ، ایک ایک واقعہ اور ایک ایک جملہ واقعی ایک تلخ سچائی میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری دور رس نگاہیں اور ہمارے اندیشہ ہائے دور دراز بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں ۔ ایسی باتوں کے جواب میں ہم کیا کہیں کیونکہ یہاں معاملہ من آنم کہ من دانم والا پیدا ہوگیا ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ ’’سندباد جہازی کا سفرنامہ‘‘ والا طنزیہ ہم نے چالیس برس قبل سب سے پہلے مغل پورہ کی ایک محفل میں سنایا تھا جس میں خواجہ احمد عباس بھی موجود تھے ۔ خواجہ احمد عباس نے بھری محفل میں ہم سے بغلگیر ہو کر اس طنزیہ کی بے ساختہ داد کچھ اس طرح دی تھی کہ کچھ عرصہ بعد ہم نے یہی طنزیہ زندہ دلان حیدرآباد کی محفل میں بھی سنایا ۔ یہ محفل گاندھی میڈیکل کالج کے آڈی ٹوریم میں کرشن چندر کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی اور جس میں سینکڑوں سامعین موجود تھے ۔ اس محفل کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ۔ ’’سندباد جہازی کا سفرنامہ‘‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کے نتیجہ میں اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں شائع ہوا ۔ یہاں تک کہ ہندی میں ہماری ایک کتاب کا نام ہی ’’سندباد کا سفرنامہ‘‘ ہے ۔ فسادات سے متعلق تحریروں کے جتنے بھی انتخابات شائع ہوئے ان میں اس طنزیہ کو ضرور شامل رکھا گیا ۔ ہمیں اس بات کا قطعی اندیشہ نہیں تھا کہ ایک دن ملک کے بعض لیڈر ہمارے اس طنزیے سے ’’اکتساب علم‘‘ کریں گے اور اس کی مدد سے فسادات کی صنعت کو فروغ دینے کے علاوہ اسے ’’رہنمائے فسادات‘‘ کا مرتبہ بھی عطا کریں گے ۔
بخدا اب تو ہمیں بھی اپنے مذاق سے وحشت ہونے لگی ہے کیونکہ لوگ ہماری باتوں کو سنجیدہ لے لیتے ہیں اور بعد میں سماج سے اس کی قیمت وصول کرتے ہیں ۔ آپ میں سے بہت سوں کو یاد ہوگا کہ ایک زمانہ میں ہم نے ملاوٹ کے خلاف بے شمار کالم لکھے اور انہیں لکھنے کے دوران میں ملاوٹ کے نئے نئے نمونے اور مثالیں بھی اختراع کرتے چلے گئے ۔ ہم نے یونہی مذاق مذاق میں ایک بار لکھ دیا کہ اگر چائے کی پتی میں گھوڑے کی لید کی ملاوٹ کی جائے تو اس سے نہ صرف چائے کا ذائقہ بہتر ہوجائے گا بلکہ چائے پینے والے کی صحت بھی بہتر ہوسکتی ہے ۔ ایک سمجھدار تاجر نے اس پر سچ مچ عمل کیا جس کی وجہ سے اس کی چائے کی پتی کی مقبولیت میں دن دونی اور رات چوگنی اضافہ ہوگیا ۔ یہ ضرورہے کہ اس مخصوص چائے کو پینے والے کی طاقت میں کئی ’’ہارس پاور‘‘ (Horse power) کا اضافہ بھی ہوجاتا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی چائے کا عادی فرد بسا اوقات چائے پینے کے بعد ہنہنانے بھی لگ جاتا تھا بلکہ دولتی جھاڑنا بھی اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا تھا ۔ ایک زمانہ میں گوالے دودھ میں ندیوں ، نالوں اور باؤلیوں کا گندہ پانی علی الاعلان ملایا کرتے تھے بلکہ شاید آج بھی ملایا کرتے ہوں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک بار ہم نے دودھ کو چھلنی میں چھاننے کا تجربہ کیا تو ہمیں چھلنی کی تہہ میں مینڈک کا ایک چھوٹا سا بچہ (جسے فصیح اردو میں غوکچہ بھی کہتے ہیں) نکل آیا ۔ اس واقعہ کے بعد ہم نے ملاوٹ کرنے والوں کو راہ راست پر لانے اور انہیں اخلاقیات کا درس دینے کی غرض سے یہ ناچیز مشورہ بھی دیا کہ ملاوٹ کرتے وقت اس شئے کی مشابہت اور مماثلت کے علاوہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ملائی جانے والی شئے کم از کم خالص ہو ۔ گوالوں کو واضح لفظوں میں تلقین بھی کی کہ وہ دودھ میں کم از کم منرل واٹر (Mineral water) ملایا کریں تاکہ دودھ استعمال کرنے والوں کی صحت پر مضر اثرات نہ ہونے پائیں ۔ ایک گوالے نے اس پر سچ مچ عمل کیا اور اس کے دودھ کی مقبولیت میں چار چاند لگ گئے ۔ گیہوں اور چاول کی بھوسی ،لکڑی کے برادے ، چنے کی دال کے چھلکوں ، لال مٹی کے سفوف وغیرہ کی بھرپور افادیت سے بھی ہم نے تاجروں کو کماحقہ آگاہ کیا ۔ ہر تاجر نے اپنے ظرف ، حوصلے اور اپنی بساط کے مطابق ملاوٹ کے نئے نئے گر تلاش کئے اور لاکھوں میں کھیلنے لگے اور یوں مالا مال ہوگئے ۔ اگرچہ ہم کنگال کے کنگال رہے لیکن بیچارے غریب تاجرں کی چاندی ہوگئی ۔ شاہد صدیقی کا ایک شعر یاد آگیا …
پرستش ان کی ہوتی ہے جو بت میں نے تراشے ہیں
مگر مجھ کو کمال بت گری سے کچھ نہیں ملتا
یوں بھی ہم قلندر صفت انسان ہیں اور مایا کے موہ سے ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی رائج الوقت انسانوں کے مقابلہ میں ہم زیادہ خالص انسان ہیں ۔ خوب یاد آیا ، ایک بار گرمی کے موسم میں پیاس بجھانے کے لئے ’’گنے کا رس‘‘ بیچنے والے ایک ٹھیلے پر گئے تو دیکھا کہ گنے کا رس بیچنے والا گنوں کو مشین میں ڈال کر رس نکال لیتا ہے اور گنے کے چھلکے اور گودے کو لاپرواہی سے پھینکتا چلا جاتا ہے ۔ہم نے اس سے کہا ’’نادان! یہ کیا کرتا ہے کہ گنے کے اس قیمتی خام مال کو یونہی ضائع کردیتا ہے ۔ اسے گاؤ تکیے بنانے والے کسی کاریگر کے ہاتھ بیچ دے تاکہ وہ بھی خام روئی میں اس خام مال کو ملا کر اچھے اچھے گاؤ تکیے بناسکے‘‘ ۔ چند دن بعد ہم پھر اپنی پیاس بجھانے کے لئے اس کے ٹھیلے پر گئے تو ٹھیلے والے نے کہا ’’حضور! اس بار آپ صرف گنے کا رس پئیں گے اور کوئی مشورہ نہیں دیں گے ۔ پچھلی بار آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے گنے کے خام مال کو میں نے گاؤ تکیہ بنانے والے ایک کاریگر کو بیچا تھا ۔ ایک ہفتہ بعد وہ گالیاں دیتا ہوا میرے پاس چلا آیا کہ جو کوئی بھی گاؤ تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھتا ہے اسے لال چیونٹیاں کاٹنے لگتی ہیں‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’میاں ! ہمارے مشورے پر عمل کرنے کیلئے صحیح اور مناسب وقت تک انتظار کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ جب تک گنے کے چھلکے اور گودے میں سے مٹھاس کا عنصر غائب نہ ہوجائے اسے بیچنے میں جلد بازی کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ مٹھاس ہوگی تو چیونٹیاں تو آئیں گی ہی ۔ ملاوٹ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ۔ صرف ہمارے مشورے کی بنا پر ان اصولوں کو توڑا بھی نہیں جاسکتا‘‘ ۔ مانا کہ ہم مشورہ صحیح دیتے ہیں لیکن اسے وقت کی کسوٹی پر پرکھنا بھی عمل کرنے والے کے لئے لازم ہوتا ہے ۔ یہی دیکھئے کہ ہم نے چالیس برس پہلہے فسادات کے انعقاد کا ایک خیالی خاکہ پیش کیا تھا ۔ لیڈروں نے اس مشورہ پر پورے چالیس برسوں تک غور کرنے کے بعد اب اسے عملی جامہ پہنانے کی سبیل نکالی ہے ۔
بہرحال ہم ایسے ہی بے لوث اور مخلصانہ مشورے لوگوںکو دیتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ مشورے مزاحیہ نظر آتے ہیں لیکن ان کے پس منظر میں ایک گہری سنجیدگی بھی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ یادش بخیر ! حیدرآباد میں ہمارے ایک پرانے دوست رہتے ہیں ۔ دس بارہ برس پہلے انہوں نے ہم سے مشورہ کئے بغیر ایک ’’شادی خانہ‘‘ کھول لیا ۔ اگرچہ شادی خانہ کا محل وقوع بہت اچھا تھا اور اس میں گنجائش بھی اچھی خاصی تھی لیکن اس کے احاطہ میں گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ذرا ناکافی تھی ۔ مصروف علاقہ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کو سڑک پر ٹھہرانے کی کوئی صورت بھی نہیں تھی لہذا اکثر لوگ اس شادی خانہ کو پسند نہیں فرماتے تھے ۔ ایک دن ہمارے دوست نے ہم سے مشورہ کیا تو ہم نے کہا ’’یار ! تمہارے شادی خانہ میں نقص صرف اتنا سا ہے کہ اس میں باراتی تو اچھے خاصے سماسکتے ہیں لیکن اس کے احاطہ میں گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ذرا کم ہوتی ہے ۔ یہ زمانہ تخصیص یعنی (Specialisation) کا ہے ۔ اگر تم اپنے شادی خانہ کو ’’عقد ثانی کا خصوصی شادی خانہ‘‘ قرار دے دو تو یہ ضرور چل نکلے گا کیونکہ ’’عقد ثانی‘‘ میں باراتی بھی کم آتے ہیں اور گاڑیاں بھی کم آتی ہیں ۔ کسی کوکوئی تکلیف پیش نہیں آئے گی ۔ نہ باراتیوں کو اور نہ ہی گاڑیوں کو ۔ کیونکہ عقد ثانی کا معاملہ بھی اس کامیاب فلم کا سا ہوتا ہے جسے بالآخر ’’مارننگ شو‘‘ میں دکھانے کی نوبت آجاتی ہے ۔ ہمارے اس یار طرحدار نے ہمارے اس مزاحیہ مشورہ پر نہایت سنجیدگی سے غور کیا اور کچھ دن بعد اخبار میں اپنے شادی خانہ کو صرف ’’عقد ثانی کا خصوصی شادی خانہ‘‘ قرار دے دیا بلکہ اپنے شادی خانہ کے بارے میں پیشین گوئی بھی کردی کہ جس خوش نصیب کا یہاں عقد ثانی ہوگا وہ انشاء اللہ اتنی خوشحال زندگی گزارے گا کہ اس کی زندگی میں کبھی ’’عقد ثالث‘‘ اور ’’عقد چہارم‘‘ کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ خدا کے فضل سے ان کا یہ ’’خصوصی شادی خانہ‘‘ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چل پڑا ۔ اب بتایئے اگر ہمارے عملی مذاق کے خوشگوار ، کارآمد اور مفید نتائج برآمد ہوتے ہیں تو اس میں ہمارا یا ہماری مزاح نگاری کا کیا قصور ہے ۔