نئی دہلی۔ محکمہ قانون کے ایک اعلی عہدیدار نے جمعہ کے روز بتایا کہ اپنی طلاق شدہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنے کے لئے کئے جانے والے نکا ح ہلالہ کی سپریم کورٹ میں مرکز مخالفت کریگی ‘ جس کے متعلق اعلی عدالت آنے والے دنوں میں قانونی حیثیت کی جانچ کریگی ۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کامانتی ہے کہ یہ جنسی انصاف کے اصولو ں کے خلاف ہے اور اس مسلئے معزز عدالت میں اپنا موقف واضح کردیاجائے گا۔
مگر اعلی عدالت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ صرف عجلت میں دئے جانے والے طلاق ثلاثہ پر سنوائی کرے گی اور نکاح ہلالہ اور
علیحدہ طریقے سے سنوائی پر غور کریگی ۔مارچ کے مہینے میں سپریم کورٹ نے مرکز کو نکاح ہلالہ اور کثرت ازدواج مسلئے پر نوٹس جاری کی تھی۔
مذکورہ عہدیدار کا کہنا ہے ’’ موقف واضح ہے ‘ حکومت ہند اس عمل کی مخالفت کرتی ہے ۔ اس کی عکاسی سپریم کورٹ میں ہوگی‘‘۔
پچھلے سال عدالت نے فوری طور پر دی جانے والی تین طلاق کو غیردستوری قراردیا تھا۔ بعدازاں حکومت ہند نے تین طلاق کوجرم قراردیتے ہوئے ایک بل بھی منظور کیاتھا۔
مذکورہ بل لوک سبھا میں منظور کرلیاگیا جبکہ راجیہ سبھا میں زیر التوا ہے۔ اس بل کے تحت تین طلاق دینے والے شوہر کو تین سال کی سزاء قید سنائی جاسکتی ہے۔یہ بل فوری طور پر دی جانے والی تین طلاق یا طلاق بدعت پر لاگو ہوتا ہے۔
اس کے تحت متاثر ہ خاتون کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ عدالت سے رجوع ہوکر اپنے لئے او راپنے بچوں کے لئے ’’ معاشی مدد‘‘ مانگ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ عدالت سے رجوع ہوکر بچوں کی تحویل بھی لے سکتی ہے
۔ قانونی مسودہ کے تحت فوری طور پر دی جانے والی طلاق کسی بھی طرح کی ہو‘ جیسے زبان سے کہی گئی یا پھر ای میل ‘ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ کے ذریعہ دی گئی ہوکوہ غیرقانونی ہوگی۔اب نکاح ہلالہ کی قانونی اعتبار سے سپریم کورٹ جانچ کریگی۔
اعلی عدالت کی دستوری بنچ اس عمل کی قانونی اعتبار سے جانچ کے متعلق دائر کئے گئے چاردرخواستوں پر سنوائی کریگی۔
نکاح ہلالہ کے تحت کو ئی بھی شخص اس وقت اپنے طلاق شدہ بیوی سے دوبارہ شادی نہیں کرسکتا تب تک اس عورت کی کسی دوسری شخص سے شادی او ردوبارہ طلاق نہ ہوجائے اور پھر عدت کے ایام گذرنے کے بعد پہلے شوہر سے اس کی شادی ممکن ہے۔