سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اُٹھا رکھا ہے

نفیسہ خان

اس وقت میرے سامنے جو پینتیس سال کی عورت بیٹھی ہوئی ہے، اسے میں پچھلے تیس سال سے جانتی ہوں۔ اس کا بچپن و نوجوانی میری آنکھوں کے سامنے گذرے ہیں۔ گول مٹول سی تندرست شریر چلبلی ارونا اپنے بھائی بہن سے بڑی تھی۔ شانوں پر جھولتے گھنے بال کبھی گردن تو کبھی اس کے دمکتے شہابی گالوں کو چومتے رہتے تھے۔ باپ شوگر فیکٹری میں کلکرک تھا۔ ماں دماغی طور پر کمزور تھی۔ اکثر اس پر دورے پڑتے رہتے تھے۔ ایک سلیقہ مند ،سگھڑ بیوی کی کوئی خصوصیت اس میں نہ تھی۔ اسی وجہ سے گھر کا ماحول خوشگوار نہ تھا۔ باوجود بیوی کی بیماری کے باپ نے ارونا، کرونا اور بیٹے منوج کو پورے پیار و محبت اور توجہ سے پالا تھا۔ بیوی کا علاج معالجہ چلتا رہا، لیکن وہ مکمل طور پر ٹھیک نہ ہوسکی، کبھی غصہ ہوتی، کبھی روتی، کبھی چپ سادھ لیتی تو کبھی صبح تا شام گھنٹوں سوتی رہتی کہ نیند کی گولیاں ہی گھر والوں کو سکون سے رہنے کا موقع فراہم کرتی تھیں۔

بعد میں وہ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مرض میں بھی مبتلا ہوگئی اور گھریلو مسائل بڑھتے ہی گئے۔ ارونا نے میٹرک پاس کرلیا تو باپ نے اس کے حقیقی ماموں سے اس کی شادی کردی کہ باہر والا ایسے ماحول والے خاندان میں شادی کو ہرگز تیار نہ ہوگا۔ ارونا کا ماموں دو تین سال میٹرک میں فیل ہونے کے بعد پڑھائی چھوڑ چکا تھا۔ اس کی ماں یعنی ارونا کی نانی خود ہی داماد کے گھر رہ رہی تھی۔ داماد کی نہ تعلیم خاطر خواہ تھی، نہ کوئی نوکری، نہ جائیداد، نہ گھر نہ ٹھکانا، نہ کاروبار، نہ ماہانہ آمدنی کا کوئی ذریعہ ہی تھا۔ سسر نے ایک بڑے اسکول کے پاس ایک چھوٹی سی دوکان لگاکر دی جہاں بچوں کی ضروریات کی ہر چیز مل جایا کرتی تھی۔ اتنی آمدنی ہوجاتی کہ گھر چل سکتا تھا، لیکن جب ایک بھی پیسہ گھر کو آنا بند ہوگیا تو معلوم ہوا کہ وہ دوکان پر بیٹھتا ہی نہیں ہے۔ اکثر دوکان بند رہتی ہے، تفتیش کرنے پر یہ عقدہ کھلاکہ صاحبزادے جوے و شراب کے رسیا ہیں جو کماتے ہیں لٹا کر آتے ہیں۔

ارونا اتنی کم عمری کے باعث ان باتوں سے لاتعلق تھی، ماں باپ کے گھر ہی میں رہ رہی تھی، اس لئے اسے نانی کا لاڈ و پیار بھی مل رہا تھا، کھانے پکانے کی جھنجھٹ تھی نہ ہاتھ کی تنگی کا احساس، بیس سال کو پہونچنے تک وہ دو صحت مند بیٹوں کی ماں بن گئی باپ نے آپریشن کرواکر مزید ذمہ داریوں کو نہ بڑھانے کا بندوبست بھی کردیا تھا۔ بچے اسکول جانے لگے تو تقریباً روز اس سے میرا سامنا ہوتا تھا۔ وہ تر و تازہ پھول جیسی لڑکی ہمیشہ بہترین کپڑوں میں ملبوس نظر آتی تھی۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔

دسہرہ دیپاولی، سنکرانتی، نیا سال، خود کی یا بچوں کی سالگرہ پر تو وہ نئے کپڑے پہننا ہرگز نہ بھولتی تھی۔ باپ اس کی ہر خواہش کی تکمیل کیا کرتا تھا، کیونکہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا کہ خود اس نے گھریلو کشیدہ حالات سے مقابلہ کرنے کی بجائے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور اپنی بیٹی کا جیون ساتھی ڈھونڈنے میں جلد بازی سے کام لے کر اس کی زندگی تباہ کردی تھی۔ ارونا ہر خوشی کے موقع پر نمستے کرکے میرے پیر چھونا نہیں بھولتی تھی، کبھی کیک کبھی مٹھائی لے کر آجاتی اور میں جو کچھ اس کے ہاتھ میں رکھتی، وہ پرساد (تبرک) کی طرح دونوں آنکھوں کو لگاکر پرس میں ڈال لیتی۔ مجھے اس لڑکی سے عجیب سا لگاؤ تھا، اگر دوچار دن نظر نہ آتی تو میری نظریں اسے ڈھونڈھنے لگتیں۔ ارونا کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے اور اس کا شوہر دن ہی نہیں بلکہ راتیں بھی جوئے خانہ میں گذارنے لگا جوئے میں ہار کر اتنی شراب پی لیتا کہ خود سے چل کر گھر پہنچنا دشوار ہوجاتا تو اس کے قماش کے دوست اپنی گاڑیوں پر بہ مشکل بٹھاکر گھر تک پہونچاتے اور ارونا سے ذومعنی گفتگو کرتے ارونا کی بدنصیبی کی داستان رقم ہونا شروع ہوگئی تھی۔

ابتداء میں تو داماد کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا رہا لیکن ہر کوشش رائیگاں ثابت ہوئی۔ اس درمیان شوگر فیکٹری بند ہوگئی۔ ملازمین کو جو بھی معاوضہ ملا، لے کر روزگار کی تلاش میں ایک کے بعد ایک ساگر چھوڑ کر جانے لگے۔ ارونا کے باپ نے معاوضہ کی رقم سے چھوٹی بیٹی کرونا کی شادی کردی ۔ اسی عرصے میں 17 سال کی عمر میں بھائی منوج موٹر سائیکل کے حادثے میں مارا گیا۔ ارونا کا باپ بیوی سے نالاں تو تھا ہی وہ بھی نوکری ملنے پر دوسرے شہر چلا گیا، نانی اور ذہنی طور پر کمزور و بیمار ماں، شرابی جواری، شوہر اور دو بچے ارونا کے حصے میں آئے۔ باپ نے ماں کے کھانے پینے رہنے اور علاج کا معقول انتظام کردیا لیکن نیم پاگل عورت کا مزید ساتھ اس کو منظور نہ تھا۔ دوسرے مقام پر جاکر اپنی ہی فیکٹری کی ایک بیوہ برسرروزگار خاتون سے شادی کرلی اور شاذ و نادر ہی ماں بیٹی کی خبر لینے آتا رہا۔
ارونا رات رات بھر جاگ کر شوہر کا انتظار کرتی رہی۔ کچھ اس کے ٹھکانے کا پتہ معلوم ہوتا تو خود جاکر اسے شرابیوں و جواریوں کے اڈوں سے کھینچ لاتی۔

وہاں اسے فحش گفتگو اور بھدے جملے سننے کو ملتے۔ کوئی اشارے بازی کرتا تو کوئی دست درازی کی کوشش کرتا۔ ارونا کا نہ کوئی ہمنوا، نہ ہمدر، نہ کوئی غمگسار ہی تھا۔ چھوٹی سی عمر میں دنیا بھر کے طوفان و حوادث اس کی چوکھٹ پر اس کے منتظر کھڑے تھے۔ اس کی ازدواجی زندگی محبتوں و رفاقتوں کے خوشگوار تصور ہی میں گذر گئی۔ یہ صرف وہ خواب تھا جس کی تعبیر کبھی ممکن ہی نہ تھی، نہ تو شوہر کا حسن سلوک تھا، نہ مہربانی، نہ التفات کی وہ حقدار تھی بس بے تابی، بے قراری، بے چینی اور پیہم اضطراب میں دن گذار رہی تھی۔ ساتھ دینے کیلئے نہ باپ، نہ ماں نہ بھائی نہ چچا، بس شوہر کو سمجھانے کی کوشش کرتی رہی۔ اکثر میرے پاس مشورے کیلئے آجایا کرتی تھی لیکن سماج میں ہم جیسے لوگ تو خاموش تماشائی ہیں درد مند دل رکھنے سے مداوائے غم تو ہو نہیں سکتا، کیونکہ نہ پولیس ساتھ دیتی ہے، نہ قانون ہی حفاظت کرتا ہے، اس لئے ہم نے ارونا کو مشورہ دیا کہ وہ خود ہی کوئی دوکان کھول لے اور اس کا پیچھا چھوڑ دے، کہاں معاشرہ کے ناسور جیسے مردوں کے ساتھ دو دو ہاتھ وہ کر پائے گئی اور پھر
عزت گئی تو موت سے بدتر ہے زندگی
عزت کو جان دے کر بچانا بھی چاہئے

ارونا نے ایک جنرل اسٹور کھول لی، دوکان اچھی چل نکلی، بچوں کی تعلیم اچھی طرح سے ہورہی تھی اور پھر یوں ہوا کہ اس کا شوہر گھر ہی میں شراب و جوے کی پارٹیاں جمانے لگا، اس کے لئے اسے کمیشن بھی ملتا تھا اور شراب کی بوتلوں کی سپلائی میں فائدہ بھی تھا۔ ارونا تھکی ہاری رات کو دوکان سے گھر آتی تو شراب و سگریٹ کے دھویں کی بو سے اسے اُبکائی آجاتی تھی، گھر ایک بھٹیار خانہ بن گیا تھا، پھر بھی وہ نباہ کر رہی تھی کیونکہ
ساتھ چلنا مصلحت ہے اور مجبوری بھی ہے
راستہ تو کاٹنا ہے ہمسفر کیسا بھی ہو

ارونا کو ہر لحظہ ہر دن ایک نیا مسئلہ درپیش آتا رہا۔ مصیبتیں، آفتیں، تکالیف نے گویا اس کے گھر کو اپنا مسکن بنالیا تھا، اپنی شومی قسمت کی روداد وہ کس کو سناتی اور کیا سناتی کہ کوئی رحم بھری نظر تک اس سے گریزاں تھی۔ ایسے میں الیکشن آگئے، سیاسی پارٹیوں نے ممبرشپ کی خاطر ارونا کے حالات و کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور ایک سیاسی پارٹی نے اس کے ہاتھ میں اپنی پارٹی کا جھنڈا دے دیا اور گلے میں کنڈوا ڈال دیا۔ وہ اپنی پارٹی کا چلتا پھرتا اشتہار بن گئی۔ وقت بے وقت روپئے ملنے لگے تو ارونا کے پاؤں ڈگمگانے لگے، جوانی کسی سرکش گھوڑے کی طرح بے قابو ہونے لگی۔ پارٹی کے نام پر دو نمبر کا دھندہ کرنے والوں سے رابطے قائم ہونے لگے، رات دن ان کی صحبت میں وہ رہنے لگی، اس نے اپنی جنرل اسٹور بھی بند کردی۔ بچوں کو ہاسٹل بھیج دیا۔ لوگوں کی الٹی سیدھی کارروائیاں کرواتی۔ کنٹراکٹ دلواتی اور ہر ایک میں اپنا حصہ اپنا کمیشن وصول کرنے لگی۔ شوہر کی صحت شراب کی کثرت سے بد سے بدتر ہوتی گئی۔ ارونا اس کے شراب اور جو ّے کیلئے روپئے دیتے دیتے تنگ آگئی تھی۔ اب ارونا کا زیادہ وقت جلسے جلوسوں اور پارٹی کے کاموں کے سلسلے میں گھر سے باہر گذرنے لگا۔ ایک دن شوہر نے تنگدستی کی بناء پر ارونا کا سودا کرڈالا۔

ایک مالدار گتہ دار ارونا کا دیوانہ ہوگیا۔ جب ارونا کو معلوم ہوا کہ اس کا شوہر دلال بن کر اس کی کمائی کا بڑا حصہ کنٹراکٹر سے بھی وصول کررہا ہے تو اس نے ایسے بے غیرت بے شرم شوہر کو لات ماکر گھر سے باہر نکال دیا اور خود متاع کوچہ و بازار بن گئی۔ اپنے ساتھ اپنی جیسی ہی مظلوم عورتوں کو بھی شامل کرلیا اور باضابطہ جسم فروشی کا دھندہ شروع کردیا۔ مخصوص سیاسی پارٹی کے زیرسایہ ہونے کی وجہ سے پولیس ان پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے اپنے ہاتھ سینک کر چلی جاتی۔ ارونا کی زندگی کا نہج بدلتا گیا۔ ایک دن شراب کی دوکان کا لائسنس مقامی لیڈر کو ملا تو ارونا وہاں بھی پہونچ گئی اور اس کے توسط سے دو چھوٹے کمروں پر مشتمل شراب کی غیرمجاز دوکان خود بھی کھول لی کہ

اب ہم بھی سوچتے ہیں کہ بازار گرم ہے
اپنا ضمیر بیچ کے دنیا خریدلیں

ارونا کی ہر حرکت کی اطلاع مجھے ملتی رہی کیونکہ اب وہ میرا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ اپنا دُکھڑا سنانے کیلئے وہ میرے پاس اب آتی بھی نہیں تھی۔ اس کی زندگی سدھرنے کے تمام آثار ختم ہوگئے تھے۔ امید و بیم کی ساری شمعیں گل ہوگئی تھیں۔ اس کو لگتا تھا کہ ماحول ہی نہیں بلکہ سماج، قانون، سیاست سب مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب اسے کسی سزا کا خوف نہ تھا۔ نہ بدنامی و شرمساری کا احساس باقی تھا۔ ارونا سمجھتی رہی کہ میں اس کی حرکتوں سے ناواقف ہوں لیکن شاید اس کا ضمیر اسے ملامت کیا کرتا تھا۔ اس لئے اس نے پرانی سہیلیوں، پڑوسیوں، رشتہ داروں سب سے تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ بیچ بستی والا گھر چھوڑ کر آبادی سے ہٹ کر ایک بڑا سا گھر لے لیا تھا جہاں اس کی غیرسماجی سرگرمیوں میں رخنہ ڈالنے والا کوئی نہ تھا۔

آج ارونا میرے سامنے تھی، اس کے چہرے کی معصومیت پر ایک عامیانہ پن آگیا تھا، کسا ہوا سڈول جسم ڈھیلا پڑگیا تھا، اس کی گفتگو میں بناوٹ تھی، انداز رجھانے والا تھا، وہ آتی تو تھی اپنے لڑکے کے سرٹیفکیٹ پر تصدیق کی دستخط لینے لیکن مجھ کو یہ جتانا چاہ رہی تھی کہ اب وہ پہلی جیسی بے بس لاچار، مجبور، تنگ دست، مظلوم ارونا نہیں رہی۔ وہ چھوٹے موٹے کنٹراکٹ کررہی ہے، سیاسی لیڈروں میں اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے بہت پسند کی جاتی ہے اور ہر جلسے اور میٹنگ کو کامیاب بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اسٹیج پر اپنی پارٹی کے لوک گیت گاتی ہے اور اس پر ناچتی بھی ہے۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ اب وہ ساڑی یا پنجابی سوٹ نہیں پہنتی بلکہ اپنے بے ڈول جسم پر ہمیشہ تنگ جینس اور ٹی شرٹ چڑھائے رہتی ہے۔
ارونا میرے سامنے بیٹھی بڑے جوش و طراری سے اپنی روداد مجھے سنا رہی تھی کہ اس کا شراب خانہ بہت اچھا بزنس کررہا ہے کیونکہ شراب کے ساتھ وہ آملیٹ، تلی ہوئی مچھلی، کاجو، چڑوا، کھارا اور اُبلے ہوئے انڈے بھی سپلائی کرتی ہے۔ گاہک اس سے بہت خوش ہوتے ہیں اور اپنی طرف سے اسے مفت پیگ پیش کرتے ہیں۔ وہ بے تکان بولے جارہی تھی اور میری نظروں کے سامنے آج سے تیس سال پہلے کی وہ پیاری سی معصوم گڑیا جیسی ارونا فراک پہنے اُچھل کود مچا رہی تھی۔

باوجود ضبط کے میری آنکھیں اشکبار ہوگئیں کہ یہ لڑکی آج کیا سے کیا ہوگئی ہے۔ میرے آنسوؤں سے وہ پریشان ہو اٹھی، میں اس سے صرف اتنا کہہ سکی کہ ’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو ارونا؟ تم جو کچھ کررہی ہو کیا اس کو تم اپنی کامیابی سمجھ رہی ہو؟ کیا تم اپنی اس زندگی سے خوش ہو؟ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھی، میرے پیر پکڑ لئے اور پھر دس سال سے تھما ہوا آنسوؤں کا طوفان اپنے باندھ توڑ کر بہہ نکلا، نہ صرف یہ کہ اس سے اشک رواں تھے بلکہ اس کی ہچکیوں و رونے کا انداز اور آواز ہیجانی کیفیت پیدا کررہا تھا۔ پورا اسٹاف اس کے اطراف جمع ہوگیا مگر اس کو تھامنا اور سنبھالنا مشکل ہورہا تھا جو لوگ اس کے ماضی سے ناواقف تھے، وہ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ ایسی آوارہ، بدکردار، بے آبرو عورت کا یہاں کیا کام ہے، دوسرے اتنی تیز و طرار بدزبان مردوں کے چھکے چھڑانے والی بازاری عورت اس طرح بے قابو ہوکر کیوں پھوٹ پھوٹ کر روئے جارہی ہے۔ اور میں کیوں ایسی عورت کیلئے نمناک آنکھوں سے دلاسہ دیئے جارہی ہوں۔ جب سب کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور وہ رو روکر نڈھال ہوگئی تو اس نے اپنی صفائی پیش کرنا چاہی کہ کن حالات نے اسے اس دلدل میں اُتار دیا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا کیونکہ میں سب کچھ جانتی تھی۔ وہ سرٹیفکیٹ لے کر چپ چاپ باہر نکل گئی۔ سنا کہ کچھ دنوں تک وہ گھر سے باہر بھی نظر نہ آئی لیکن بچوں کے اسکول و کالج کی فیس اور ہاسٹل کے بل ادا کرنے کیلئے اسے باہر نکلنا ہی تھا۔

ایک دن یہ خبر بھی آئی کہ ارونا کے شوہر کی نعش نلگنڈہ ریلوے اسٹیشن کی پٹریوں کے قریب پائی گئی۔ پتہ نہیں یہ خودکشی تھی یا حادثہ تھا۔ تلگو اخبار میں تصویر اور خبر دیکھ کر کسی جاننے والے نے اطلاع دی۔ ارونا نے اپنی نانی اور ماں کو دیکھا اور جانے کس جذبے کے تحت جاکر بعد پوسٹ مارٹم کے مسخ شدہ نعش کو بوریئے میں لپیٹ کر گھر لے آئی۔ مجھ سے رہا نہ گیا جب میں اپنے شوہر کے ساتھ اس بدنام زمانہ مکان پر پہونچی تو ساری نگاہیں ہم پر مرکوز ہوگئیں، سوائے ارونا کے ۔باپ ، بہن اور بہنوئی کے باقی تمام عورتیں و مرد وہی تھے جو ایک دوسرے کو تسکین کا سامان بہم پہونچایا کرتے تھے۔

انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ہم ایسی جگہ آسکتے ہیں۔ اس کے کمرے کی دہلیز پر قدم رکھا تو نہ میری نیت اس کو پرسہ دینے کی تھی، نہ افسوس جتانے کی۔ ارونا کا باپ اور بہن خود کو اس کا رشتہ دار بتاتے ہوئے شرمندگی محسوس کررہے تھے۔ ارونا میری طرف پلٹی اور یوں دل کی بھڑاس نکالنے لگی۔ ’’دیکھ رہی ہیں آپ میرے ماموں میرے شوہر کو؟ یہ ہے میری زندگی برباد کرنے والے کا انجام، یہ سیاہ ہولناک چہرہ، یہ مرنے کے بعد بھی پھٹی پھٹی کھلی آنکھیں، یہ کٹے پھٹے اعضاء ، سڑی گلی تعفن پھیلاتی نعش موت کے بعد بھی میرے گھر میں بدبو پھیلا رہی ہے اور میں اس کی بیوی جو زندہ رہتے ہوئے سماج میں گندگی پھیلا رہی ہوں، میرا انجام بھی شاید کچھ ایسا ہی ہوگا لیکن میں نہ اپنے باپ کو معاف کروں گی، نہ بھگوان کو، نہ شیطان نما اپنے شوہر کو۔ ان سب نے میری زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ دیکھو میری تعلیم یافتہ سگھڑ بہن کو۔ اس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ برسرروزگار شوہر کو ۔ دونوں اپنے بچوں کے ساتھ کتنے خوش، کتنی پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ بھگوان اسے سدا سکھی رہے لیکن ساری بدنصیبیاں میرے حصے میں کیوں آئی ہیں؟ کہئے نا، آپ چپ کیوں ہیں؟ میں چپ ہی رہی کیونکہ ہم جیسی سماج سدھاکر کرنے والی عورتیں اور مرد ارونا جیسی عورتوں کو شرافت کی زندگی گذارنے کا صرف درس دے سکتے ہیں لیکن اس کے پورے خاندان کو معاشی طور پر سہارا دینا ہمارے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ایسے حالات کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے لیکن دردمند دل رکھنے سے مسائل کے حل نہیں نکلتے۔

میرے خیالات کا تسلسل اس وقت ٹوٹا جب کسی نے ارونا سے کہا کہ بیٹوں کو بلالیا جائے کہ چتا کو آگ تو وہی دیں گے نا! ارونا کی ہذیانی انداز کی چیخ بلند ہوئی۔ ’’خبردار! جو کسی نے میرے بچوں کو اس کی اطلاع دی تو، ایسے کمینے انسان کا اَنتم سنسکار اگر کوئی کرے گا تو وہ میرا باپ ہی کرے گا، کیونکہ میرے باپ نے میری زندگی میں آگ لگائی ہے اور میرا ماموں میرا شوہر بن کر مجھے بازار میں بٹھا گیا ہے۔ مجھے بھی مرجانا چاہئے تھا لیکن میرے بچوں کو میری ضرورت ہے بہترین تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوجائیں گے تو میں خود کرشنا (ندی) کی گود میں سما جاؤں گی تب تک مجھے اپنے گناہوں کے ساتھ جینا ہوگا۔ میں نے ارونا کے باپ کی طرف دیکھا وہ دونوں ہاتھ جوڑے ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس طرح ہاتھ جوڑ کر بیٹی سے یا ہم سے معافی مانگنے سے ارونا کی بدترین زندگی سنورنے سے تو رہی، اس کی بدنامی کے داغ دھلنے سے تو رہے۔ ارونا مسائل کے درمیان گھری ہوئی تھی۔ عزت، عصمت، عفت گنوا دینے کے بعد تلخیاں، تنہائیاں، پچھتاوے ہی بس حاصل زندگی تھے۔ ارونا کی 76 سالہ نانی بیٹے کی موت کے غم سے نڈھال پلنگ پر نیم دراز تھی۔ نیم پاگل ماں کبھی شوہر کو، کبھی ماں کو کبھی بیٹی کو کبھی بھائی کی نعش کو دیکھ کر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ کتنا عبرت آموز منظر تھا۔ زندگی ہر ایک کو عزیز ہوتی ہے لیکن عزت نفس بیچ کر جینا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اپنے پرایوں کے برے برتاؤ، سلوک سے ذہنی تکلیف پہونچتی ہے۔

جب ہم اس کا جواب نہیں دے سکتے یا ان سے بدلہ نہیں لے سکتے تو اپنے دل میں نفرت کی آگ دہکا لیتے ہیں جس میں ہماری شخصیت کی ساری خوبیاں ، اچھائیاں، جل کر راکھ ہوجاتی ہیں۔ اس میں نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے، اس کا نہیں جس کے خلاف ہم نے یہ جذبہ پال رکھا ہے۔ ناانصافی و گمراہی کے مناظر کو دیکھ کر خاموش رہتا ہے، وہ مجرم ہے۔ دوسرے کے گھر کی آگ نہ بجھاؤ تو وہ پھیل کر ہمارا گھر بھی جلا سکتی ہے۔ ہم سنگسار کرنا جانتے ہیں لیکن ڈھال بننے سے گریز کرتے ہیں۔ سماج میں رہنے والے ہر طبقے کے مسائل سے خود کو مربوط کرنا انہیں جاننا ان کو حل کرنے کی کوشش کرنا، اور نئی نسل کو آنے والے خطرات سے آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے، لیکن ہم اپنے فرض سے یا تو غافل ہیں یا پہلوتہی کررہے ہیں۔ کئی ایک گھروں میں شوہر شرابی، جواری، عیاش، کئی ایک علتوں میں گرفتار ہیں، پھر بھی بیوی ان کے ظلم و ستم کو برداشت کرنے پر مجبور کی جاتی ہے کہ باوجود کوشش کے وہ باعزت طور پر آزادی کی کوئی سبیل نہیں نکال سکتی۔ مردوں کے معاشرے میں اس کے ساتھ انصاف کرنے میں نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی چشم پوشی کرتی ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو معاشرہ کو پراگندہ کررہے ہیں اور ارونا جیسی عورتیں حقارت سے گویا ہمارے منہ پر تھوک کر یہ کہہ رہی ہیں:
تم شرافت کہاں بازار میں لے آئے ہو
یہ وہ سکہ ہے جو برسوں سے نہیں چلتا ہے