ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خدا کو خدا مان لینے کے بعد اس کی فرماں برداری ضروری ہو جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایمان تو ہو، مگر وہ اپنے اندر کسی طرح کی اطاعت کا مطالبہ نہ رکھتا ہو۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان لینے کے بعد آپﷺ کے ہر قول اور ہر عمل کو رضائے الہی کی یقینی اور واحد کلید باور کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی اپنے اندر آپﷺ کی اطاعت اور اتباع کا مطالبہ رکھتا ہے۔ عقل عام کے اس فیصلہ کے علاوہ خود قرآن بھی اس بارے میں یہی فیصلہ دیتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اللہ نے مؤمنوں پر احسان کیا ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (آل عمران۔۱۶۴)
اس سے معلوم ہوا کہ فریضہ رسالت صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہی نہیں، بلکہ جو لوگ ایمان لے آئیں، ان کے معاملے میں رسول کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ ظاہر ہے کہ تعلیم قول سے بھی ہوتی ہے اور عمل سے بھی اور کبھی دونوں سے۔ یہی تعلیم کتاب و حکمت ہے، جو حدیث و سنت کے نام سے مشہور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے قول و عمل سے بیان کردہ تشریح و توضیح کو ہٹاکر محض اپنی عقل و فکر سے قرآن کا کوئی مفہوم متعین کیا جائے تو اس کے بارے میں یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ وہ یقیناً اللہ تعالی کی منشاء کے مطابق ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ قرآنی مفہوم کے متعلق ایک لمحہ کے لئے بھی یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خدا کی منشاء کے مطابق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کی اطاعت کو اللہ تعالی کی اطاعت قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘ (سورۃ النساء۔۸۰) ایک اور موقع پر قرآن کہتا ہے: ’’آپ کے پروردگار کی قسم! جب تک یہ لوگ اپنے تمام متنازعہ معاملات میں آپ کو حَکم نہ بنالیں، مسلمان ہو ہی نہیں سکتے‘‘ (سورۃ النساء۔۶۵) الفاظ کے علاوہ آیت کا زور بیان کس قدر شدت سے حدیث و سنت کی حجیت کو ثابت کر رہا ہے، ایک معمولی فکر رکھنے والا انسان بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔عقل عام اور قرآن کے اس استدلال کے بعد تاریخی شواہد کو اگر دیکھا جائے تو ان کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ قرآن کے بعد حدیث و سنت ہی دوسرا مستقل مصدر قانون ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ہر معاملے میں یہ دیکھتے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ کیا رہا ہے، وہ ہر موقع پر آپﷺ کے اسوہ کی پیروی کرتے تھے۔ صحابہ کرام کے بعد تاریخ کے ہر دور میں محدثین، فقہاء اور ائمہ مجتہدین نے حدیث و سنت ہی کو قرآن کے بعد دوسری سند تسلیم کیا ہے اور اس کو اسلامی قانون کا ایک مستقل مصدر قانون مانا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی جس طرح آپﷺ کی حیات طیبہ میں ضروری تھی، اسی طرح آج بھی ضروری ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ بڑے واضح الفاظ میں آپﷺ نے تاکید فرمائی کہ ’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، جب تک تم انھیں تھامے رہوگے گمراہ نہ ہوگے (۱) کتاب اللہ اور (۲)میری سنت‘‘۔ (مؤطا)ایک روز صبح کی نماز کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس تم میری سنت اور میرے راست رو ہدایت یافتہ خلفاء کے طریقے پر جمے رہنا اور خبردار محدثات اور بدعات سے بچنا، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ (مسند احمد) چنانچہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا سامان بھی کردیا اور یہ سنت، قرآن، کتب احادیث، کتب سیر اور امت کے تعامل کی شکل میں تواتر کے ساتھ محفوظ ہے۔ سنت کی آئینی حیثیت کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ آخر وہ کیا اور کس طرح کا کام ہے، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، آپﷺ کے تشریعی کام کی نوعیت کیا تھی؟۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تشریعی کام کیا، وہ خاصا تفصیل طلب ہے اور ایک مستقل تالیف کا محتاج ہے، بطور نمونہ یہاں چند مثالیں ملاحظہ کیجئے، جن سے آپﷺ کے تشریعی کام کی نوعیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔قرآن کا ارشاد ہے: ’’اللہ پاک لوگوں کو پسند کرتا ہے‘‘ (التوبہ۔۱۰۸) یہ پاکی کا ایک مجمل مطالبہ ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منشاء پر عمل درآمد کرکے استنجاء اور طہارت جسم و لباس کی تفصیلی ہدایات دیں اور خود بھی عمل کرکے دکھایا۔قرآن میں اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اگر تم بے غسل حالت میں ہو تو پاک ہوئے بغیر نماز نہ پڑھو (سورۃ النساء۔۴۳، سورۃ المائدہ۔۶) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ بے غسل حالت سے کیا مراد ہے اور اس کا اطلاق کس حالت پر ہوتا ہے اور کس حالت پر نہیں ہوتا، نیز پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے۔قرآن نے حکم دیا کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنا منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولو اور سرپر مسح کرو اور پاؤں دھوؤ یا ان پر مسح کرو (المائدہ۔۶) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ منہ دھونے کے حکم میں کلی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے۔ کان، سر کا ایک حصہ ہے، سر کے ساتھ ان پر بھی مسح کرنا چاہئے۔ پاؤں میں موزے ہوں تو مسح کرنا چاہئے اور نہ ہوں تو ان کو دھونا چاہئے۔ علاوہ ازیں تفصیل سے آپﷺ نے یہ بھی بتایا کہ وضوء کن حالات میں ٹوٹ جاتا ہے اور کن حالات میں باقی رہتا ہے۔قرآن میں اللہ تعالی نے وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میت کی نرینہ اولاد کوئی نہ ہو اور ایک لڑکی ہو تو وہ نصف ترکہ پائے گی اور دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کو ترکہ کا دو تہائی حصہ ملے گا (النساء۔۱۱) اس میں یہ بات واضح تھی کہ اگر دو لڑکیاں ہوں تو ان کو کتنا حصہ ملے گا، تاہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ دو لڑکیوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے، جتنا دو سے زائد لڑکیوں کا۔قرآن حج کی فرضیت کا حکم دیتا ہے، لیکن یہ صراحت نہیں کرتا کہ آیا اس فریضہ کو انجام دینے کے لئے ہر مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہئے یا عمر میں ایک بار کافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح سے معلوم ہوا کہ عمر میں صرف ایک مرتبہ حج کرلینے سے فرض ادا ہو جاتا ہے۔ان چند مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی کام کی کیا نوعیت تھی؟ اگر اس سارے کام کو سامنے نہ رکھا جائے تو آدمی نماز تک نہیں پڑھ سکتا، کیونکہ قرآن صرف نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے، اس کے باقی سارے ضابطے آپﷺ کے تشریعی کام کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔