سمجھ میں لوگ سب آنے لگے ہیں

رشیدالدین
انتخابات کے دوران ہر پارٹی اپنے حق میں عوامی لہر کا دعویٰ کرتی ہے۔ کبھی پارٹی تو کبھی امیدوار لفظ ’’لہر‘‘ کا استعمال کرنے لگتے ہیں حالانکہ بیشتر افراد تو ایسے ہیں وہ اس لفظ کے وسیع تر مفہوم سے بھی واقف نہیں۔ جس طرح ہوا کے دباؤ میں کمی کے سبب سمندر میں طوفانی لہریں اٹھتی ہیں، اسی طرح سیاسی پارٹیاں بھی ان کے حق میں عوامی تائید کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جس طرح سمندر کی لہریں اس کی رفتار میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو پاش پاش کرتی ہیں۔ اگر کوئی پارٹی اپنے حریفوں کو بدترین شکست سے دوچار کردے اور اس کی شناخت برائے نام ہوکر رہ جائے تو اس وقت لہر کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہاں تو اب ایسے افراد بھی لہر کا دعویٰ کرتے دکھائی دے رہے ہیں، شکست جن کا مقدر بن چکی ہے۔ ویسے بھی ہندوستان جمہوری ملک ہے اور پارٹیوں اور امیدواروں کو اس طرح کے دعوؤں کی کھلی اجازت ہے۔ ان دعوؤں پر الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق لاگو نہیں ہوتا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو ناقابل عمل وعدوں سے منع کیا ہے لیکن لہر سے متعلق دعویداری کو شاید اس لئے چھوٹ دیدی گئی تاکہ امیدوار کم از کم نتائج تک خوش رہنے کے حق سے محروم نہ ہونے پائیں۔ انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی ملک پر انتخابی رنگ چڑھ گیا۔

سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی، ٹکٹ کیلئے قائدین اور خواہشمندوں کی دوڑ دھوپ ، نئے نئے حلیفوں کی تلاش اور محاذوں کی تشکیل ، الغرض سیاسی جوڑ توڑ کے دوران انتخابی مہم میں تیزی آنے لگی ہے۔ یو پی اے، این ڈی اے کے علاوہ تیسرا محاذ بھی اپنے حق میں لہر کا دعویٰ کر رہا ہے۔ بعض جماعتیں صورتحال پر نظریں جمائی ہوئی ہیں اور لمحہ آخر میں جس کا پلہ بھاری نظر آئے گا، اس کا دامن تھام لیں گے۔ جہاں تک لہر کا سوال ہے اس میں حقیقی اور بناوٹی ہوتی ہے لیکن یہ صرف سیاسی لہر کی حد تک ہے۔ انتخابات میں اپنے حریف کو کمزور کرنے اور حوصلے پسند کرتے ہوئے عوام کو اپنی تائید پر آمادہ کرنے اکثر اس طرح کی بناوٹی سیاسی لہر کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ بہت کم مواقع پر رائے دہندے اس طرح کے دھوکے میں آجاتے ہیں چونکہ پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھی عروج بھی ہے، لہذا سیاسی جماعتیں ان ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنے حق میں لہر کا دکھاوا کر رہی ہیں۔ مصنوعی لہر دکھانے کیلئے میڈیا گھرانوں اور سوشیل نیٹ ورکنگ سائٹس کو خریدا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اوپنین پولس کی صداقت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ جس دن سے نریندر مودی کو بی جے پی نے وزارت عظمی کے امیدوار کی حیثیت سے اعلان کیا، میڈیا کا رویہ ہی بدل گیا۔

وہ چینلس جو کل تک مودی کو گجرات فسادات کے ذمہ دار کی حیثیت سے پیش کرتے تھے، اب وہ گجرات کی ترقی کی دہائی دے رہے ہیں اور گجرات ماڈل کی ملک بھر میں مارکیٹنگ کی جارہی ہے۔ انہی چینلس نے مودی کو وزارت عظمیٰ کیلئے موزوں امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہوئے سنگھ پریوار اور بی جے پی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ اب جبکہ بی جے پی نریندر مودی کی قیادت میں الیکشن لڑنے کی تیاری کرچکی ہے، وقفہ وقفہ سے اوپنین پولس کے ذریعہ مودی کی مقبولیت کے گراف کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ راہول گاندھی کو تیسرے اور اروند کجریوال کو مقبولیت میں دوسرے مقام پر رکھا گیا۔ اس کا مقصد عوام کو الجھن میں مبتلا کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ جو شخص ملک کی تاریخ اور جغرافیہ سے تک واقف نہیں اب وزارت عظمی کیلئے میڈیا کی پہلی پسند بن چکا ہے۔ جس شخص کو ہندوتوا کا مکھوٹا بنایا گیا وہ ہندو دھرم کی تاریخ سے واقف نہیں۔ میڈیا اپنی رسائی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دہلی کے انتخابات سے قبل کسی میڈیا نے اروند کجریوال کو ملک کے مسیحا کے طور پر ابھارا اور دہلی کے نتائج پر اثر دکھایا۔

جب کجریوال نے حکومت قائم کرلی تب سے میڈیا ان کی خامیوں کو تلاش کرنے لگا ہے ۔ آخر ان کی حکومت کو گراکر ہی دم لیا گیا ۔ لوک سبھا چناؤ میں قومی میڈیا اور سوشیل میڈیا کی پہلی پسند نریندر مودی بن چکے ہیں۔ راہول گاندھی اور اروند کجریوال کی مہم کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بناوٹی اور مصنوعی شہرت اور لہر دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔ مودی کی مقبولیت اور لہر کا بھرم اس وقت ٹوٹ گیا جب اروند کجریوال گجرات کی ترقی کے ماڈل کو چیلنج کرنے خود مودی کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے گجرات کی ترقی کے دعوؤں کے بارے میں حقائق کا پتہ چلانے ایک سوالنامہ کے ساتھ مودی سے ملاقات کی کوشش کی۔ تاہم مودی نے ملاقات کا وقت دینے سے انکار کردیا۔ دوسرے معنوں میں انہوں نے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے ۔ گجرات کی ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں کے ساتھ ملک بھر میں جادوئی چھڑی سے مسائل حل کرنے کا خواب دکھانے والے مودی نے کجریوال کے سوالات کا سامنا کیوں نہیں کیا۔ اگر گجرات میں واقع ترقی ہوئی ہے تو انہیں ثابت کرنا چاہئے تھا۔ دراصل وہاں تو چراغ تلے اندھیرا والا معاملہ ہے۔

ابھی سے خود کو وزیراعظم تصور کرتے ہوئے سیاسی حریفوں کو چیلنج کرتے ہوئے ملک بھر میں دندناتے گھومنے والے نریندر مودی اس وقت بھیگی بلی بن گئے، جب انہیں چیلنج کرتے ہوئے عام آدمی ان کے علاقہ میں پہنچ گیا۔ مثل مشہور ہے کہ کوئی بھی اپنے علاقہ میں شیر ہوتا ہے لیکن موجودہ دور کے آئرن مین (مرد آہن) نریندر مودی اپنے گھر میں دم دباکر بیٹھ گئے۔ اگر گجرات کی ترقی کے دعوؤں میں سچائی ہے تو پھر ملاقات سے انکار کیوں؟ اس طرح اروند کجریوال نے مودی کے قلعہ پر حملہ کر کے بنیادوں کو کمزور کردیا ۔ جو کام کانگریس گزشتہ 10 برسوں میں نہیں کرپائی ، اسے ایک سال پرانے سیاستداں نے دو دن میں کر دکھایا۔ گجرات کے بعد ممبئی میں بھی کجریوال کا دورہ کامیاب رہا۔ شمالی ہند کی ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کو عوامی تائید میں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی تو انتخابی مہم کا آغاز ہے ، آگے اور بھی حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ اس طرح اروند کجریوال نریندر مودی کیلئے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔

نریندر مودی کی بناوٹی لہر کا مقابلہ کرنے میں کانگریس، تیسرا محاذ اور فیڈرل فرنٹ کے دعویدار بھی ناکام ہوگئے لیکن عام آدمی پارٹی نے وسائل کی کمی کے باوجود صرف جذبہ کے ذریعہ مودی کے لئے چیلنج کھڑا کردیا جس سے بی جے پی کی نیند حرام ہوگئی ۔ یوں تو کانگریس کے اسٹار کمپینر راہول گاندھی نے مودی اور سنگھ پر یوار کے بارے میں جارحانہ تیور اختیار کرلئے ہیں لیکن صرف ایک فرد واحد سے کچھ نہیں ہوگا۔ کانگریس پارٹی کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ راہول گاندھی نے ملک کے ’’چوکیدار‘‘ سے متعلق مودی کے دعویٰ کا مناسب جواب دیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو چوکیدار کی نہیں بلکہ عوامی مسائل سے واقف شخص کی ضرورت ہے جو مسائل حل کرسکے۔ راہول گاندھی نے آر ایس ایس کو گاندھی جی کا قاتل قرار دیتے ہوئے سنگھ پریوار پر راست حملہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے 10 سال مکمل کرنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ابھی تک اپنے کارناموں کو عوام کے روبرو پیش نہیں کیا ۔ کس بنیاد پر عوام یو پی اے کی دس سالہ کارکردگی پر اپنی رائے قائم کریں گے ؟ کانگریس نے فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے آج تک حکمت عملی تیار نہیں کی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دس سالہ کارکردگی سے مایوس کانگریس نے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے تیسرے محاذ اور دیگر غیر بی جے پی جماعتوں سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں کہ ان کے سہارے دوبارہ مخلوط حکومت کی تشکیل کا موقع مل جائے گا ۔ اگرچہ نریندر مودی کو ملک بھر میں ان کے حق میں لہر کا بھرم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنی پارٹی میں مقبولیت سے محروم ہیں۔ جس وقت وزارت عظمی کیلئے ان کے نام کو پیش کیا گیا تھا تو اڈوانی ، سشما سوراج اور دیگر سینئر قائدین کی مخالفت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور اب تو مودی کیلئے لوک سبھا حلقہ کا انتخاب مشکل ہوچکا ہے جو شخص پارٹی کا وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہے، اس کیلئے کوئی بھی قائد اپنی نشست چھوڑنے تیار نہیں۔ مرلی منوہر جوشی نے بنارس کی نشست مودی کیلئے چھوڑنے سے صاف انکار کردیا۔

اطلاعات کے مطابق مودی اب گجرات میں ہی کسی محفوظ حلقے کی تلاش میں ہیں۔ عوامی مقبولیت کی دعویداری سے قبل مودی کو پارٹی میں مقبولیت ثابت کرنی چاہئے ۔ جب وہ اپنے قائدین کیلئے قابل قبول نہیں تو پھر عوام کے لئے پسندیدہ کیسے بن سکتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو این ڈی اے برسر اقتدار آنے کی صورت میں بھی مودی کے وزیراعظم بننے کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے ۔ جو قائدین اپنا حلقہ چھوڑنے تیار نہیں کیا وہ مودی کو وزیراعظم تسلیم کرلیں گے ؟ فیڈرل فرنٹ کے نام پر مرکز میں اقتدار کا خواب دیکھنے والی ممتا بنرجی نے انا ہزارے کا سہارا لیا لیکن دہلی میں ممتا کے فلاپ شو کے بعد انا ہزارے نے دوری اختیار کرلی ہے ۔ انا ہزارے دراصل ممتا بنرجی کو اپنے شاگرد اروند کجریوال کے مقابل کھڑا کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی ۔ انتخابی فائدہ کیلئے سیکولر جماعتوں کو چھوڑکر بی جے پی کا رخ کرتے ہوئے کئی قائدین نے اپنی اندرونی ذہنیت کو آشکار کیا ہے ۔ بہار میں لوک جن شکتی پارٹی کے قائد رام ولاس پاسوان کی این ڈی اے میں اور راشٹریہ جنتا دل کے رام کرپال یادو کی بی جے میں شمولیت نے یہ ثابت کردیا کہ سیکولر جماعتوں میں فرقہ پرست ذہنیت کے حامل افراد موجود ہیں۔ اسی طرح آندھراپردیش میں 10 برس تک یو پی اے حکومت میں شامل این ٹی آر کی دختر پورندیشوری نے بھی بی جے پی کا رخ کرتے ہوئے سیکولر طاقتوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ قومی اور علاقائی سطح پر سیاسی مفادات کیلئے توڑ جوڑ اور ٹکٹوں کی تقسیم میں اقربا پروری کی کئی مثالیں عوام کے سامنے ہیں اور انتخابات میں موزوں امیدوار کے حق میں فیصلہ کرنا رائے دہندوں کیلئے چیلنج سے کم نہیں۔ موجودہ حالات پر شہود عالم آفاقی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
سمجھ میں لوگ سب آنے لگے ہیں
نرے صدقے سیاست کا زمانہ