کلدیپ نیرؔ
آج سے کم و بیش 39 سال قبل اس وقت کی وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرکے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی اور لوگوں کو مصیبت میں ڈال دیا تھا۔
الہ آباد ہائیکورٹ نے ان کو ایم پی کی رکنیت سے مسترد کردیا تھا اور اس میں مدت چھ سال تک تھی اور انہیں اس مدت میں سرکاری مشنری کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور خاص طور پر انتخابی مہم کے دوران سرکاری مشنری کے استعمال پر روک لگادی گئی تھی۔ اندرا گاندھی نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی بجائے انہوں نے دستور کو معطل کردیا تھا اور پریس پر سنسرشپ عائد کردی تھی اور انفرادی آزادی پر پابندی عائد کردی تھی۔ کم و بیش 100,000 افراد کو بغیر ٹرائل کے قید کردیئے گئے اور تمام اپوزیشن ارکان بشمول جے پرکاش نراین جنہوں نے کرپٹ حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا، انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ اس واقعہ کی سب سے افسوسناک کڑی یہ تھی کہ انہوں نے انسٹیٹیوشنس کو برباد کرڈالا جس کی صحت اب تک درست نہیں ہوپائی ہے۔
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ دستور کی پابندی کرتے ہوئے حکمرانی کا فریضہ انجام دے۔ ایک مضبوط حکومت کا مطلب یہ ہے کہ وہ موثر حکمرانی کا کام انجام دے جو ذاتیات پر یقین نہ رکھے۔ لوگوں کے مفاد کو پیش نظر رکھے۔ اگر ایسی حکومت جو ذاتی مفاد کو اولیت دیتی ہے، اس سے تو بہتر صدر راج کا نفاذ ہے۔ لوگ اب ماسٹر بن چکے ہیں، وہ ہر چیز خاموش سے دیکھتے رہتے ہیں اور جب وقت آتا ہے تو وہ اپنا فیصلہ سنادیتے ہیں۔ اس لئے لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
جن لوگوں نے قانون کی خلاف ورزی کی انہیں سزا دی گئی۔ جب 1977ء میں عام انتخابات ہوئے تو اس وقت اندرا گاندھی کو ان کے کئے کی سزا مل گئی اور ان کی پارٹی کو شرمناک شکست ہوئی۔ یہاں تک اس الیکشن میں اتنی بڑی اور قدآور سیاسی شخصیت اندرا گاندھی کو انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ ان تمام اہم باتوں کو جاننے کے بعد اب اس بات کو پھر نہیں دہرایا جائے۔ اس غلطی سے ضرور موجودہ حکومت کو سبق سیکھنی چاہئے لیکن موجودہ حکومت کے طرز حکمرانی سے اس بات کے کچھ اشارے ضرور ملنے گئے ہیں کہ اس میں بھی کچھ ایسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں جو دستور کے منافی ہیں اور جس سے ملک کے وقار اور اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس کا ایک تازہ عمل سامنے آیا وہ یہ کہ انٹلیجنس بیورو (آئی بی) نے ایک رپورٹ کا ایک مخصوص حصہ منظر عام پر لادیا جس میں غیرسرکاری تنظیموں کی کارکردگیوں کے سلسلے میں تھا۔
میں وزیراعظم نریندر مودی پر کسی قسم کا الزام عائد نہیں کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ رپورٹ قطعی طور پر کانگریس کے دورِ اقتدار میں تیار کی گئی تھی اور جس کے قائد منموہن سنگھ تھے لیکن بڑے بڑے بیورو کریٹس اس کیلئے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس اطلاع کو منظر عام پر لانے میں مدد کی اور وہ تنظیمیں جو زمینی سطح پر کام کرتی ہیں، ان کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی، اس میں سے کچھ کے نام اس رپورٹ میں موجود ہیں جو سالمیت کے علمبردار تصور کئے جاتے ہیں اور میں ایک جہدکار ہونے کے ناطے ان سے اچھی طرح واقف بھی ہوں۔ انہیں ذاتی طور پر میں جانتا بھی ہوں۔ ان غیرسرکاری تنظیموں کا یہ کہنا کہ حکومت نے اس اسٹوری کو ایک ہاٹ کیک بناکر پیش کیا ہے۔
یہ دلیل ان کی سمجھ میں آنے والی بھی ہے کیونکہ انہوں نے برسوں اپنی زندگیاں دیہی علاقوں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے گزار دیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں ’’چھولا والا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لیبل ان پر اس لئے لگا کیونکہ وہ لٹکانے والا بیاگ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بیاگ وہ اپنے کاندھوں پر رکھ کرچکے ہیں جس میں ان کے لئے سوکھا کھانا اور دوسری خشک کھانے کی اشیاء رہتی ہیں کیونکہ انہیں دور دراز مقامات کا سفر کرنا پڑتا ہے جہاں کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ہے۔ ان کے خلاف یہ الزام کہ ان کا احتجاج یا مظاہرہ سے اکانومی شرح ترقی پر اثر پڑا ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے کیونکہ یہ لوگ وہ ہیں جو بڑے بڑے ڈامس، نیوکلیئر اسٹیشن اور اس طرح کے دوسرے منصوبوں کو ناکام بنانے کا کام کرتے ہیں۔ اس شرح ترقی کا کوئی لینا دینا نہیں۔
اس کے اس طرح کے الزامات سے حکومت کو بچنا چاہئے اور اس سے ان غیرسرکاری تنظیموں کو ان کا کام کرنے کا موقع دینا چاہئے، کیونکہ یہ تنظیمیں زمینی سطح سے جڑی ہوتی ہوئی ہیں جن کا مقصد ضرورت مندوں اور گاؤں کے لوگوں کو ان کا حق دلانا، انہیں بہتر طرز زندگی فراہم کرنا ہوتا ہے۔
٭٭