سلویٰ فاطمہ نے ترقی کی راہ میں حائل روایتوں کو توڑدیا

ظفر آغا

سیدہ سلویٰ فاطمہ پائیلٹ کی ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں اور بہت جلد وہ خلاء میں پرواز کریں گی۔ اس اکیسویں صدی کے ہندوستان میں بہت ساری ہندوستانی لڑکیاں پائیلٹ کی ٹریننگ حاصل کرکے طیارے اڑا رہی ہیں۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ ہندوستان کی چند مسلم لڑکیاں پہلے سے ہی پائیلٹ بن چکی ہیں۔ خود میرے گھرانے کی ایک لڑکی کئی برسوں سے ہوائی جہاز اڑا رہی ہے، لیکن سلویٰ فاطمہ وہ پہلی مسلم لڑکی ہے، جو روایتی مسلم گھرانے اور مسلم بستی کی تنگ گلیوں سے نکل کر اب نہ خود آسمانوں پر پرواز کر رہی ہے، بلکہ نہ جانے کتنوں کو روزانہ فضائی سفر کروائے گی۔
کسی مسلم خاتون کے لئے یہ کام کوئی آسان بات نہیں ہے، پہلے تو ہماری بچیاں گھروں میں عموماً قید کردی جاتی ہیں، پھر ان کو کالے برقعہ کا لبادہ اڑھا دیا جاتا ہے۔ گھر سے باہر جانے سے قبل ماں باپ، دادا دادی اور نانا نانی کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اگر گھر کے افراد سلویٰ فاطمہ کے گھر والوں کی طرح وسیع النظر ہیں، تو پھر رشتہ داروں اور محلہ والوں کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سلویٰ فاطمہ کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان تمام بندشوں کو توڑکر آسمان کی بلندیوں کو چھوا ہے، جس کا خواب دیکھنا ایک روایتی مسلم لڑکی کے لئے نہ صرف مشکل بلکہ بہت مشکل ہے۔ سلویٰ فاطمہ نے دقیانوسی روایات کو توڑکر یہ ثابت کردیا ہے کہ تنگ گلیوں اور پرانے شہر حیدرآباد کی رہنے والی لڑکیاں اگر عزم مصمم کرلیں تو وہ بڑے سے بڑا کام کرتی ہیں، جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ پھر سلویٰ فاطمہ کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ پائیلٹ ٹریننگ کی فیس ادا کرسکتی، لیکن اس کے عزم کو دیکھ کر ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے اپنے اخبار کے ذریعہ سلویٰ فاطمہ کی ہر طرح سے مدد کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخر فاروق حسین ایم ایل سی کی نمائندگی میں تلنگانہ کے وزیر اعلی کے چندر شیکھر راؤ نے سلویٰ فاطمہ کی پائیلٹ ٹریننگ کے لئے حکومت کی جانب سے 35 لاکھ 50 ہزار روپئے امداد جاری کردی۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوا، جب سلویٰ فاطمہ نے عزم و ہمت سے کام لیا۔ یہ ان کے عزم کا صلہ ہے کہ جناب زاہد علی خاں جیسے مددگار مل گئے اور پھر اس کے بعد راستے ہموار ہوتے چلے گئے۔

سلویٰ فاطمہ یہ سارے مراحل اسی وقت طے کرسکی، جب ان کے اندر مسلم گھرانوں کی روایات کو توڑنے کی جرأت ہوئی کہ لڑکیوں کو تو بس چہاردیواری کے اندر ہی رہنا چاہئے۔ اگر سلویٰ فاطمہ بھی روایتی لڑکیوں کی طرح اس بندش کو اپنی تقدیر سمجھ کر خاموش ہو جاتی تو وہ آج فضاؤں میں پرواز نہ کرسکتی۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اگر بلندیوں میں اڑنا ہے تو روایت توڑنی ہوگی اور اس بوجھ سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔ عموماً وہ قومیں پسماندگی کا شکار ہوتی ہیں، جو روایات کو توڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں اور نئی روایت قائم کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا ہے کہ انھیں روایات اور شریعت کا جامہ پہنا دیا گیا۔ پھر ایک صورت یہ بھی پیدا ہوئی کہ علماء ان روایات کے حامی نہیں ہیں۔ مسلم خواتین کے حقوق روایات کی بندشوں میں اس قدر جکڑ دیئے گئے ہیں کہ عموماً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کی حد بس اس کے گھر کی چہار دیواری اور باورچی خانہ ہے۔ آج مسلم معاشرہ عورت کو گھر میں قید کرکے خوش ہوتا ہے، مگر وہ یہ بھول گیا کہ اسلام نے عورت کو کم و بیش زندگی کے ہر شعبہ میں برابری کا نہ صرف درجہ دیا، بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کرکے بتایا کہ اصل اسلام کیا ہے۔ تب ہی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا مکہ کی ایک کامیاب تاجر تھیں۔ یہاں تک کہ ازدواجی زندگی میں شادی کے لئے عورت کی اجازت کو ضروری قرار دے کر اسلام نے عورت کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کی آزادی عطا کی ہے۔ اس کے برخلاف مسلم معاشرہ کی روایت یہ بن گئی کہ عورت کے گھر والے جہاں چاہیں لڑکی کی شادی کردیں، خواہ اسے یہ رشتہ پسند ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح اگر مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تو اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ پھر اسلام وہ پہلا مذہب ہے، جس نے عورت کو وراثت میں حصہ دے کر اس کو معاشی حقوق عطا کئے۔ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی خواتین مسلمان مردوں کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں، کیونکہ اللہ کے رسول نے دور جہالت کی تمام روایات کو توڑکر عورتوں کو آزادی عطا کردی تھی، جس کا تصور اسلام سے قبل نہیں پایا جاتا تھا۔

آج پھر دقیانوسی روایات کو توڑنے کی ضرورت ہے، جس طرح سلویٰ فاطمہ نے روایت کو توڑا ہے۔ اگر ہماری لڑکیاں گھروں میں قید ہوکر رہ گئیں تو آنے والی نسلوں کے لئے ترقی کی راہیں مسدود ہو جائیں گی، کیونکہ لڑکیاں ہی مائیں بن کر نئی نسل کو پروان چڑھاتی ہیں۔ یقیناً سلویٰ فاطمہ جن بچوں کی پرورش کرے گی، وہ کم از کم پائیلٹ یا پھر اس سے بھی بہتر بننے کی کوش کریں گے۔ لہذا اب روایتوں کی غلامی نہیں، بلکہ انھیں توڑکر آسمانوں میں پرواز کرنے کا وقت ہے۔ کونسا ایسا کام ہے، جو مسلم لڑکیاں نہیں کرسکتیں یا نہیں کر رہی ہیں؟۔ اسی حیدرآباد کی رہنے والی ثانیہ مرزا نے ٹینس کھلاڑی کی حیثیت سے دنیا میں نام پیدا کیا اور اب سلویٰ فاطمہ جہاز اڑانے جا رہی ہیں۔ کیا حیدرآباد کی مسلم لڑکیاں ڈاکٹر اور انجینئر نہیں بن رہی ہیں؟۔ مسلم لڑکے اور لڑکیوں میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے، صرف انھیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع فراہم کرنا چاہئے۔
روایات اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی، لیکن وہ روایتیں جو ترقی کی راہ میں زنجیر بن جائیں، وہ ہمارے لئے نقصاندہ ہیں۔ اگر مسلمان ماضی کے خول سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تو صرف حیدرآباد ہی نہیں، بلکہ دیگر مقامات کی بھی مسلم لڑکیاں فضاؤں میں پرواز کریں گی، صرف انھیں سلویٰ فاطمہ کی طرح ہمت و عزم سے کام لینے کی ضرورت ہے اور پھر جناب زاہد علی خاں جیسا کوئی شخص ان کا مددگار بن جائے گا۔