کے این واصف
سفیر ہندریاض حامد علی راؤ وزارت خارجہ ہند میں اپنی34 سالہ خدمات سے پچھلے ہفتہ سبکدوش ہوگئے ۔ اب نائب سفیر ہند ہیمنت کوتوالکر قائم مقام سفیر ہوں گے، جب تک نئی دہلی کوئی نئے سفیر ہند کو نامزد کرتی۔ حسب روایت انڈین کمیونٹی نے حامد علی راؤ کے اعزاز میں ایک وداعی تقریب کا اہتمام کیا جس میں کمیونٹی کے مرد و خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ سماجی تنظیموں کے اراکین اور انفرادی طور پر سینکڑوں کی تعداد میں کمیونٹی کے افراد نے حامد علی راؤ اور ان کی اہلیہ آسیہ راؤ کو پھول اور یادگاری مومنٹوز وغیرہ پیش کئے ۔ اسٹیج پر بیگم و حامد علی راؤ ، نائب سفیر ہند ہیمنت کوتوالکر کے علاوہ کے شہاب ، آرکیٹکٹ عبدالرحمن سلیم ، اے اے شمیم خاں، ڈاکٹر محمد احمد بادشاہ، احمد امتیاز ، بالا چندرن اور محمد ضغیم خاں موجود تھے۔
’’انڈین کمیونٹی کنگ ڈم آف سعودی عربیہ‘‘ کے زیر اہتمام یہ تقریب انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس کا آغاز نوجوان قاری عادل کی قرات کلام پاک سے ہوا۔ سابق چیرمین انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض احمد امتیاز نے خیرمقدم کیا۔ امتیاز سفیر ہند کی گرانقدر خدمات کا تفصیلی ذکر کیا اور سن 2013 ء میں نطاقات قانون کے لاگو ہونے پر جو لاکھوں ہندوستانی باشندوں کی حیثیت غیر قانونی ہوگئی تھی، ان کو قانونی حیثیت دلانے میں ایمبسی نے جو مدد کا بہترین الفاظ میں ستائش کی جس کے بعد سابق صدر اموبا محمد ضغیم خاں نے مخاطب کیا اور سفیر ہند کی معیاد میں ہند سعودی تعلقات کے استحکام اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کیفروغ کی تفصیلات بتائیں۔ کیرالا کمیونٹی کے معروف سماجی کارکن بالا چندرن نے اس موقعپر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانیکمیونٹی نے مصیبت کے وقت میں ہمیشہ سفر ہند حامد علی راؤ کو اپنے ساتھ پایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم انہیں ایک بوجھلدلکے ساتھ وداع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سفیر ہندنے گھریلو ملازمین کو استحصال سے بچایا اور ان کیلئے ایک بہترین پیکیج تیار کیا۔ ان غریب افراد کی دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی۔
اس موقع پر کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے سفیر ہند حامد علی راؤ نے کہا کہ ہندوستان ایک بڑی طاقت ہے اور ہم یہاں اس کے نمائندے ہیں۔ ہم ہندوستانی قانون کے تابع رہنے کے عادی ہیں۔ یہ ہماری روایت ہے اور یہاں ہندوستانی باشندے اپنی اس روایت کی پاسداری کرتے ہیں جس سے سعودی حکام بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں ہندوستانی باشندوں ایک اہم رول ہے۔ انہوں نے کہا کہ نطاقات قانون کے لاگو ہونے پر جب لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی باشندے سفارت خانے پر جمع ہونے لگے تو سفارت خانہ اپنے پاس اسٹاف کی کمی کی وجہ سے بے حد مایوسی کا شکار ہوگیا تھا کہ کس طرح ایمبسی ان لاکھوں ہم وطنوں کی مدد کر پائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ میں سلام کرتا ہوں ہندوستانی سماجی کارکنان کے جذبہ ہمدردی و انسان دوستی کو جنہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں ایمبسی اسٹاف کے شانہ بشانہ شب و روز کام کیا بغیر منفعت و معاوضہ کے ۔ میں کمیونٹی کی ان خدمات اور آج کی تقریب میں کمیونٹی نے جو خلوص و محبت نچھاور کی ہے، یہ یادیں ہمیشہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی۔ ہم یہاں ہمیشہ ایک خاندان کی مانند رہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ آپ کا ساتھ چھوڑ کرجانا ایک مجبوری ہے ۔ میں ایک بوجھل دل کے ساتھ آپ کے ساتھ گزارے اس عرصہ کی خوشگوار یادیں اپنے ساتھ لئے جارہا ہوں۔ حامد علی راؤ نے کہا کہ میں اپنے آخری پیام کے طورپر مملکت میں رہنے والے تمام ہندوستانیوں سے کہوں گا کہ آپ یہاں اپنی خدمات پوری دیانتداری سے کرتے رہیں اورہمیشہ مملکت کے قوانین کا احترام کریں۔
آخر میں صدر ہندوستانی بزم اردو ریاض عبدالرحمن سلیم نے ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ عرصہ میں یمن کے بگڑے ہوئے حالات میں سفیر ہند حامد علی راؤ نے یمن میں رہنے والے ہندوستانی باشندوں کی جو مدد کی وہ قابل ستائش خدمات ہیں۔ ریاض کی ساری سماجی تنظیموں کی جانب سے اجتماعی طور پر اہتمام کردہ اس الوداعی تقریب کے علاوہ مملکت میں قائم تمام انٹرنیشنل انڈین اسکولس کی جانب سے اور سفارت خانہ ہند ریاض کے اسٹاف کی جانب سے بھی سفیر ہند حامد علی راؤ کے اعزاز میں الوداعی تقاریب منعقد کی گئیں۔
سعودی عرب میں پچھلی ربع صدی کے قیام کے دوران ہم نے جتنے بھی سفیر دیکھے ان تمام کے اعزاز میں کمیونٹی نے شاندار پیمانہ پر خیرمقدمی جلسے اور اسی طرح ان کی روانگی پر باوقار الوداعی تقاریب کا انعقاد کیا جو برصغیر کے باشندوں کی روایت ہے ۔ سفیر ہند حامد علی راؤ کی خدمات جن کا ذکر اوپر کیا گیا وہ اپنی جگہ مسلمہ اور قابل ستائش ہے لیکن کمیونٹی نے حامد علی راؤ اور ان سے قبل یہاں رہے ہندوستانی سفیروں میں جو فرق محسوس کیا وہ یہ تھا کہ دیگر سفیر اپنی میعاد میں کمیونٹی تقاریب میں شریک رہتے تھے ۔ مگر حامد علی راؤ نے اپنی ساڑھے تین سال کی میعاد میں کبھی کسی کمیونٹی تقریب میں شرکت کی نہ کمیونٹی سے قریب ہوئے ۔ جب وہ یہاں آئے تھے تو کمیونٹی نے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں شاندار پیمانے پر ان کے اعزاز میں خیرمقدمی تقریب کا اہتمام کیا تھا ۔ مگر اس کے بعد راؤ صاحب نے اپنی پوری میعاد میں کبھی کمیونٹی کی کوئی دعوت قبول کی نہ کسی کمیونٹی فنکشن میں شرکت کی ۔ ان کے اس رویہ کے باوجود کمیونٹی نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کی روانگی کے وقت ان کے اعزاز میں ایک شاندار الوداعی تقریب کا اہتمام کیا اور اس تقریب میں شرکت کیلئے بھی وہ بڑی مشکل سے راضی ہوئے ۔ برصغیر کے رہنے والے یار باش اورمحفلوں کے دلدادا لوگ ہوتے ہیں۔ محفلیں بپا کرنا ان کی فطرت میں ہے ۔ یہاں ہندوستانی باشندے ایک بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں اور شاید یہ ان کیلئے ممکن نہیں کہ وہ اپنی ملازمت کریں اور باقی وقت صرف گھر پر رہیں۔ یہاں بیسیوں سماجی تنظیمیں ہیں جو کمیونٹی کی خدمات انجام دیتی ہیں اور گاہے ماہے مختلف قسم کے پروگرامس کا انعقاد عمل میں لاتی ہیں کیونکہ یہاں رہنے والوں کیلئے تفریح طبع کیلئے اور کوئی ذرائع بھی موجود نہیں ہیں اور سب سے بڑی بات جب ایمبسی کو والینٹرس کی ضرورت پڑی تھی تو ان ہی سماجی تنظیموں کے کارکنان نے سینکڑوں کی تعداد میں ایمبسی اسٹاف کے شانہ بشانہ لیل و نہار کام کیا جس کا ذکر خود سفیر ہند حامد علی راؤ نے اوپر اپنی تقریر میں کیا ۔ اگر یہ سماجی کارکن نہ ہوتے تو بھلا ایمبسی کس طرح لاکھوں ہندوستانی باشندوں کی خدمت کرپاتی اور نطاقات قانون کے مطابق ان ہندوستانی باشندوں کی حیثیت کو قانونی کرپاتی۔
اگر ہم حامد علی راؤ کے خاندانی پس منظر پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے وہ ایک عوامی قائد کے فرزند ہیں۔ وہ 1954 ء میں اترپردیش کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے ۔ حامد علی راؤ نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے اورپھر ایل ایل بی ڈگری حاصل کی ۔ وہ ہندوستان کے ایک معروف سماجی کارکن اور سیاسی قائد کنور محمود علی خان کے فرزند ہیں جو میرٹھ کے معروف قانون داں تھے جنہوں نے بعد میں سیاست میں قدم رکھا اور انتخاب میں حصہ لیا اور پہلے رکن اسمبلی بنے اور پھر رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے ۔ وہ 1990 ء سے 1993 ء تک ریاست مدھیہ پردیش کے گورنر بھی رہے لیکن حامد علی راؤ صاحب کا مزاج مختلف ہے ۔ وہ عوامی رابطوں اور محافل سے دور رہنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے اپنی ساری سروس مغربی ممالک میں کی۔ حامد علی راؤ کا تعلق آئی اے ایس کے 1981 ء بیاچ سے ہے۔ اپنے 34 سالہ سفارتی کیریئر میں راؤ نے کبھی خلیجی یا کسی عرب ملک میں خدمات انجام نہیں دیں۔ وہ پہلی بار بحیثیت سفیر ہند سعودی عرب میں متعین ہوئے تھے ۔ انہوں نے حکومتی سطح پر ایک سفیر کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھائیں لیکن اس طویل عرصہ میں وہ ہندوستانی کمیونٹی کے قریب نہ ہوسکے۔
knwasif@yahoo.com