…… مایوسی کفر ہے، وطن میں بھی ہے روٹی!
٭ وطن واپس ہونیوالے سب حیدرآبادیوں کا شکایت کرنا بجا نہیں
٭ صرف تھوڑی مدت گزرنے کے بعد مجبوراً واپس ہونیوالوں کے مسائل قابل توجہ
٭ مستحکم مالی حالت کیساتھ واپسی کرنیوالے اب روزگار فراہمی کا موقف!
٭ ’’گلف ریٹرنڈ حیدرآبادی اسوسی ایشن‘‘ کی تشکیل اور بدستور کام کا رجحان ضروری
عرفان جابری
گزشتہ ماہ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کا اپنی پارٹی (ٹی آر ایس) کے کھلے اجلاس میں یہ اعلان قابل ستائش ہے کہ سعودی عرب سے حالیہ عرصے میں وہاں برسرکار تارکین وطن کیلئے اپنی فیملی کو ساتھ رکھنے پر عائد کردہ بھاری فیس اور بعض دیگر سخت تبدیلیوں کی بناء واپسی پر مجبور ہونے والے حیدرآبادیوں کی بازآبادکاری کیلئے ریاستی حکومت نے فنڈ مختص کیا ہے اور متاثرین کو مشکل حالات میں بے یارومددگار نہیں چھوڑا جائے گا۔ ظاہر ہے پلینری سیشن ایسا موقع نہیں تھا کہ چیف منسٹر اس اسکیم کی تمام تر تفصیلات پیش کرپاتے؛ آنے والے دنوں میں عوام کو اس بارے میں معلوم ہوجائے گا۔
مجھے اس سلسلے میں حکومتی اقدام کی جانکاری ملنے پر دفعتاً خیال آیا کہ سعودی عرب سے جو حیدرآبادی واپس آرہے ہیں وہ سارے کے سارے پریشان حال نہیں، تمام کے تمام سرکاری بازآبادکاری کے مستحق نہیں، سب کا ’غیرمتوقع‘ وطن واپسی کے تعلق سے شکایت اور واویلا کرنا حق بجانب نہیں، بلکہ ان میں سے بیشتر کو شکرگزار ہونا چاہئے کہ سعودی عرب میں محنت سے گزارے گئے وقت نے انھیں حیدرآباد میں برسرکار اُن کے ہم عمر افراد سے کہیں بہتر سماجی موقف کا حامل بنایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب وہ حیدرآباد پہنچ کر یکایک ’بے عمل‘ نہ بن جائیں بلکہ آپس میں مل جل کر کوئی اسوسی ایشن بنائیں جیسے ’’گلف ریٹرنڈ حیدرآبادی اسوسی ایشن‘‘۔ میں نے ’گلف‘ نہ کہ ’سعودی عرب‘ اس لئے لکھا کہ مستقبل میں دیگر خلیجی مملکتوں سے بھی کم و بیش اسی طرح حیدرآبادیوں کو وطن واپس ہونا پڑسکتا ہے۔ اور یہ زندگی کی حقیقت ہے، حقائق سے منہ موڑ کر جینا احمقانہ پن ہے، نیز مایوسی کفر ہے جیسا کہ قرآن میں ایک سے زائد جگہ یہ بات آئی ہے (سورہ نمبر 12، یوسف۔ آیت نمبر87؛ سورہ 15 ، الحجر۔ آیت 56)۔
وطن میں اب 10، 15، 20 اور 25 سال پہلے جیسے حالات نہیں ہیں۔ اب یہاں بھی ’روٹی روزی‘ کے بہت مواقع دستیاب ہیں۔ سب کیلئے سرکاری نوکری نہ سہی لیکن نیم سرکاری اور خانگی سطح پر ’باعمل‘ فرد کیلئے ایک سے زائد مواقع موجود ہیں کہ وہ اپنے معیارِ زندگی میں کچھ خاص فرق کے بناء اہل و عیال کے ساتھ اور والدین و رشتے داروں کی قربت میں سکون سے بقیہ زندگی گزار سکتا ہے۔
میں نے گزشتہ 25 سال یا زائد عرصے سے سعودی عرب میں برسرکار حیدرآبادیوں کا سرسری تجزیہ کیا تو تین نمایاں زمرے میرے ذہن میں آئے۔ پہلا، اندرون تین چار سال وطن واپسی پر مجبور ہونے والے؛ دوسرا، تین تا پندرہ سال؛ اور چوتھا، پندرہ سال تا پچیس سال کے لگ بھگ عرصہ سعودیہ میں گزار کر حیدرآباد واپس ہونے والے جن کی عمریں اب 50 کے آس پاس ہوچکی ہیں۔ خصوصیت سے اس تیسرے زمرے کے بارے میں میرا خیال ہے کہ They are absolutely wrong to complain about their abrupt return to home country. (وہ وطن کو اپنی یکایک واپسی کے تعلق سے شکایت کرنے میں قطعی حق بجانب نہیں ہیں)۔
سعودی عرب میں خادم حرمین شریفین سلمان بن عبدالعزیز کے پیشرو شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دورِ حکمرانی سے بلکہ اور کچھ پہلے سے ہی Saudization یا Saudi Nationalization Scheme پر عمل آوری شروع ہوگئی تھی، جو سعودی وزارتِ محنت نے عمل میں لائی، جس کے مطابق سعودی کمپنیوں اور کاروباری ادارہ جات کیلئے اپنی افرادی قوت میں مخصوص سطحوں تک سعودی شہریوں کی بھرتی کرنا لازم بنایا گیا۔ یہ لگ بھگ بارہ ، تیرہ سال پرانی تبدیلی ہے؛ تب ہی وہاں برسرکار تارکین وطن اور تمام دیگر کو واضح اشارہ مل گیا تھا کہ روایتی ہنرمند اور ڈھلتی عمر والے تارکین وطن کو دھیرے دھیرے سعودیہ چھوڑنا پڑے گا۔ اب لگ بھگ ایک سال سے ولیعہد محمد بن سلمان کی عملاً نگرانی اور شاہ سلمان کی حکمرانی میں تارکین وطن کا واقعی بڑے پیمانے پر انخلاء ہورہا ہے۔ سعودی عرب کی اپنی پالیسی ہے ، اُن کے اپنے منصوبے ہیں، جن کے خلاف دنیا میں شکایت یا احتجاج کا سب سے پہلا حق خود سعودی شہریوں کو حاصل ہے۔ ہاں! خالص اسلام کی بنیادوں پر ضرب کا معاملہ ہو تو یہ مسلمانوں کا آفاقی مسئلہ بن جاتا ہے۔ تاہم، یہاں زیرنظر میرے موضوع میں ایسی کوئی بات نہیں۔ 25 سال میں کسی بھی جگہ ایک نسل بوڑھی ہوجاتی ہے، دیگر پختہ عمر والی بن جاتی ہے اور نئی نسل جوان ہوجاتی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب کی افرادی قوت سے متعلق ضرورتوں میں وقت کے ساتھ بدلاؤ آرہا ہے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں!
شری اٹل بہاری واجپائی کی اُس دوررَس مگر تاریخی پہل کو آج لگ بھگ 40 برس ہوگئے کہ ہندوستانیوں بالخصوص مسلم اقلیت کیلئے خلیج میں روزگار کے دروازے کھولے گئے اور عملاً مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وطن میں سرکاری نوکری نہ ملتی ہے نا سہی، خلیجی مسلم مملکتوں میں اپنی قسمتیں آزمائیں۔ میرا نکتہ یہ ہے کہ اس کے دو نمایاں لیکن متضاد اثرات مرتب ہوئے: اول یہ کہ معاشی طور پر بدحال مسلم اقلیت کو مادی حوصلہ ملا، جو دیگر ظاہری تبدیلیوں کے بشمول خاص طور پر نئی نسل کو بہتر تعلیم دلانے میں معاون ثابت ہوا؛ دوم یہ کہ سب سے بڑی اقلیت کی سرکاری نوکریوں سے بتدریج محرومی کا سلسلہ چل پڑا ، جو آج بھی تھما نہیں ہے! ہندوستان کے تمام سرکاری شعبوں میں مجموعی طور پر زائد از 10 فیصد مسلم ملازمین اب بمشکل 3 فیصد تک گھٹ چکے ہیں۔ اُس دَور میں پیدا ہونے والے افراد 1990ء کے دہے میں جوان اور روزگار کے قابل ہوئے لیکن ہندوستان میں عمومی طور پر مسلمانوں کیلئے سرکاری نوکری کا حصول جوئے شیر لانے کے مماثل بنا دیا گیا۔
تب blessing in disguise (شر میں خیر) کے مماثل حیدرآبادیوں کو حصولِ روزگار کا نیا وسیع تر مقام ملا، اور انھوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ایک پہلو کی وجہ سے میں بیرون ملک برسہابرس گزارنے والے برسرکار افراد کو سلام کرتا ہوں کہ انھوں نے زیادہ تر اپنی فیملی کے علاوہ اپنے والدین، دوست احباب اور رشتے داروں سے دور مادرِ وطن سے مختلف ماحول میں کامیابی سے ملازمت کرتے ہوئے معقول سماجی موقف حاصل کئے ہیں۔ ساتھ ہی میرا خیال ہے کہ جب یہ لوگ اپنوں کے بغیر اتنا کچھ اچھا کرسکتے ہیں تو اب وطن واپسی پر فیملی کی قریبی support (مدد و حمایت) کے ساتھ کچھ اچھا کیوں نہیں کرسکتے۔ میرا خیال ہے کہ تیسرے زمرے والے حیدرآبادیوں کو اب اختراعی سوچ کے ساتھ ایسی تبدیلی لانی چاہئے کہ سماج میں مثال بن جائیں۔ وہ میری دانست میں بلاشبہ سرکاری فنڈ کے ’محتاج‘ نہیں، بلکہ وہ آپس میں متحد ہوجائیں تو مختلف اُبھرتے شعبوں میں سرمایہ مشغول کرتے ہوئے کئی نوجوان حیدرآبادیوں و دیگر کیلئے روزگار کا ذریعہ بن سکتے ہیں! آج کل انڈیا میں ’اِسٹارٹ اَپ‘ کا دور ہے یعنی آسان فہم انداز میں کہا جائے تو نسبتاً تھوڑے سرمایہ کے ساتھ اختراعی نوعیت کے کاروبار کی شروعات کرنا۔ حکومت ہند اور تمام ریاستی حکومتیں اس معاملے میں مدد کررہی ہیں۔ بس تیسرے زمرے کے حیدرآبادیوں کو مل جل کر میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) کی تائید و حمایت سے عملی میدان میں بدستور سرگرم رہنے کی ضرورت ہے۔
دوسرے زمرے کے حیدرآبادیوں کا اپنی معیشت یا اپنے سماجی درجہ کے معاملے میں ملا جلا موقف ہے۔ حکومت کو جائزہ لینا چاہئے کہ ان میں سے کتنے واقعی سرکاری فنڈ سے استفادے کے مستحق ہیں اور کتنوں کو تیسرے زمرے والوں کے ساتھ تعاون کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ بہرحال انھیں ’بے عمل‘ نہیں چھوڑنا چاہئے اور سماج کے اصل دھارے میں برقراری پر توجہ دینا چاہئے۔
اول زمرہ یعنی بڑی محنت سے وسائل اکٹھا کرتے ہوئے سعودی عرب گئے کم و بیش تین چار سال ہوئے تھے کہ انھیں حیدرآباد کو واپسی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ یہ لوگ بجا طور پر سرکاری سرپرستی میں بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ حکومت اور متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ ضروری جانچ پڑتال کے بعد ایسے لوگوں کی فراخ دلی سے مدد کرتے ہوئے انھیں اپنے ’پیروں پر کھڑا‘ ہوکر اپنی فیملی اور سماج کیلئے اثاثہ بننے کے قابل بنانا چاہئے۔
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com