کے این واصف
حسب معمول میلادی سال کے آخر میں مملکت سعودی عرب کا سالانہ بجٹ پیش کردیا گیا ۔ سعودی عرب میں آباد غیر ملکیوں کی جملہ تعداد تقریباً 90 لاکھ ہے ۔ جن میں اکثریت غریب اور ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی ہے ۔ان ممالک میں سالانہ بجٹ کی پیشکشی پر کئی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ کچھ نئے ٹیکس عائد کئے جاتے ہیں جس کا راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے ۔ لہذا لوگ سالانہ بجٹ کی آمد سے قبل خوف زدہ رہتے ہیں ،لیکن یہاں ایسا نہیں تھا مگر سال 2016 کے سالانہ سعودی بجٹ نے عام آدمی بشمول مقامی و خارجی باشندوں پر کافی اثر ڈالا ہے ۔ جس کی وجہ پٹرول ، پانی اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہے ۔
سعودی سالانہ بجٹ کی کچھ تفصیلات اور خدو خال اس طرح ہیں ۔ سعودی کابینہ نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدارت اجلاس میں 2016 کے قومی بجٹ کی منظوری دے دی ۔ اس میں آمدنی کا تخمینہ 513 ارب ریال جبکہ اخراجات کا تخمینہ 840 ارب ریال لگایا گیا ہے ۔ اس طرح خسارہ 326 ارب ریال ہوگا ۔ شاہ سلمان عبدالعزیز نے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے سعودی شہریوں سے خطاب میں کہا کہ 1437-38ھ مالی سال کے بجٹ کا اعلان ایسے عالم میں کیا جارہا ہے جب تیل کے نرخ کم ہوئے ہیں ۔ ہمیں علاقائی و بین الاقوامی مالیاتی و اقتصادی چیلنجس درپیش ہیں۔ بین الاقوامی اقتصادی شرح نمو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کم ہوئی ہے ۔ علاوہ ازیں بعض پڑوسی ممالک عدم استحکام سے دوچار ہیں ۔ شاہ سلمان نے کہا کہ انھوں نے عہدیداروں کو یہ تمام امور پیش نظر رکھنے کی ہدایت کی ہے اور کہا کہ سابقہ برسوں کے بجٹوں میں منظور شدہ منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کئے جائیں ۔ شاہ سلمان نے یہ بھی کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران تعمیر و ترقی کے منصوبے نافذ کئے گئے ۔ مستقبل کے حوالے سے ہماری امنگیں بہت زیادہ ہیں اور ہماری معیشت درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔ ہماری معیشت وسائل اور امکانات سے مالا مال ہے ۔ شاہ سلمان نے کہا کہ انھوں نے اقتصادی و ترقیاتی امور کونسل کوہدایت دی ہے کہ وہ اقتصادی و مالیاتی اصلاحات اور بنیادی ڈھانچے میں جامع تبدیلی کا پروگرام تیار کرے ۔ یہ بجٹ مضبوط معیشت کی تشکیل کے حوالے سے جامع اور ہمہ جہتی عملی پروگرام کی شروعات ثابت ہوگا ۔ انھوں نے بتایا کہ ہماری معیشت مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگی ۔ اس آمدنی کے وسائل میں تنوع ہوگا ۔ بچت کے ذرائع بڑھیں گے ۔ روزگار کے امکانات میں اضافہ ہوگا ۔ پرائیوٹ اور پبلک سیکٹروں کے درمیان شراکت مضبوط ہوگی ۔ ترقیاتی منصوبے اور خدمات والے منصوبے جاری رکھے جائیں گے ۔ مختلف سرکاری خدمات کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا ۔ سرکاری اخراجات کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا ۔ سبسیڈی کے نظام پر نظرثانی ہوگی ۔ وسائل کے استعمال کو بہتر بنانے کے سلسلے میں تدریجی طریقے کار اپنایا جائے گا ۔ وسائل کی بر بادی کو روکنے کا اہتمام بھی تدریجی بنیادوں پر ہوگا ۔ اس بات کا لحاظ رکھا جائے گا کہ محدود اور متوسط آمدنی والے شہریوں پر اصلاحات کے منفی اثرات کم سے کم پڑیں ۔ شاہ سلمان نے بتایا کہ انھوں نے بجٹ تیار کرنے والے عہدیداروں سے کہا کہ وہ مملکت کے تمام علاقوں میں متوازن کامل اور ہمہ جہتی ترقی کی جد وجہد کو پیش نظر رکھیں ۔ شاہ سلمان نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے عہدیداروں کو تاکید کی ہے کہ وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کریں ۔ شہریوں کی خدمات ہماری اولین ترجیح ہے ۔ اس کا خیال رکھا جائے ۔ اس سلسلے میں کسی کی جانب سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی ۔ شاہ سلمان نے کہا کہ ہم نے سرکاری اداروں کی نگرانی کرنے والے قوانین وضوابط پر مسلسل نظرثانی کی ہدایت بھی دی ہے ۔ شاہ سلمان نے اپنا خطاب ختم کرتے ہوئے کہا کہ تعمیر و ترقی کے کاروان کو آگے بڑھانے کیلئے امن و استحکام کی انمول نعمت کی حفاظت ہمارا فرض ہے ۔ سعودی کابینہ نے ایندھن کی قیمتوں سے متعلق مندرجہ ذیل فیصلے کئے ہیں ۔ گیس 1.25 ڈالر فی ملین برطانوی یونٹ ، ایتھن 1.75 ڈالر فی ملین برطانوی یونٹ ، کیروسین 25.70 ڈالر فی بیرل ، ڈیزل (صنعتی) 14.00 ڈالر فی بیرل ، ڈیزل (ٹرانسپورٹ) 19.10 ڈالر فی بیرل ، خام ہلکا عربی تیل 6.35 ڈالر فی بیرل ، بھاری فیول آئل 180 (380 ڈالر فی بیرل) پٹرول نمبر 91 (75 ہللہ فی لیٹر) پٹرول نمبر 95 (90 ہللہ فی لیٹر) ہوگا ۔ یاد رہے کہ اب تک نمبر 91 پٹرول 10 ریال میں 22 لیٹر آتا تھا جس کی قیمت 45 ہللہ تھی ۔ نئے بجٹ کے بعد 10 ریال میں یہ پٹرول 13.3 لیٹر آئے گا ۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے کے فیصلے پر 29 ڈسمبر سے عملدرآمد شروع ہوگیا ۔ سعودی کابینہ نے رہائش پر بجلی کے خرچ کے نرخنامے میں بھی تبدیلی کی ہے۔ جو اس طرح ہے ۔ ایک تا 2 ہزار کلواٹ 5 ہللہ ، 2001 سے 4000 کلواٹ تک 10 ہللہ ، 4001 سے 6 ہزار کلواٹ تک 20 ہللہ ، 6001 اور اس سے زیادہ کلواٹ پر 30 ہللہ وصول کئے جائیں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اب تک 121 ریال تک کا بل ادا کررہے ہیں ان پر نئے اضافے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔
پٹرول اور ڈیزل کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا تھا ۔ ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا اثر ضروریات زندگی پر پڑتا ہے ۔ ان میں اضافہ سارے بازار میں تہلکہ مچادیتا ہے ۔ سعودی بجٹ میں پٹرول کے ساتھ بجلی نرخوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے ۔ مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ انٹرنیشنل مارکٹ میں تیل کی قیمتوں کے گرنے سے حکومت کو یہ قدم اٹھانا پرا ۔ لیکن بالآخر مہنگائی کا بوجھ تو عوام کواٹھانا پڑے گا ۔ سعودی عرب کی تقریباً 3 کروڑ کی آبادی میں کوئی 90 لاکھ غیر ملکی ہیں۔ اور ان غیر ملکیوں میں کم آمدنی والوں کی اکثریت ہے ۔ جن کے ویسے ہی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں ۔ یہاں کے غیر ملکیوں کی آبادی میں ایک چھوٹی سی تعداد ایسی ہے جن کی کمائی اتنی ہے کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ایک بڑی رقم پس انداز کرتے ہیں ۔ یہاں رہنے والے درمیانی درجہ کی آمدنی والے تارکین وطن جو خصوصاً اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں اپنے اخراجات ہی مشکل سے پورے کرپاتے ہیں ۔ کیونکہ یہاں پچھلے کئی برس سے مکان کے کرائے بہت بڑھ گئے ہیں اور وقفہ وقفہ سے اس میں اضافہ ہوتا ہی رہتا ہے ۔ دوسرے بچوں کی تعلیم پر کافی بڑی رقم خرچ ہوجاتی ہے ۔ تیسرے یہاں علاج معالجہ بھی کافی مہنگا ہے ۔ کیونکہ یہاں بھی اسپتالوں میں فائیو اسٹار کلچر عروج پر ہے ۔ چمک دمک والے خانگی اسپتال میں مرض سے شفا حاصل کرنے میں مریض کی جان نکل جاتی ہے ۔ یہاں اندرون شہر پبلک ٹرانسپورٹ برائے نام ہے ۔ لوگ پرانی ہی سہی اپنے پاس کوئی نہ کوئی گاڑی ضرور رکھتے ہیں اور جو گاڑی رکھنے کے متحمل نہیں وہ زیادہ تر ٹیکسی استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔ اب پٹرول کے دام بڑھنے پر یہ خانگی ٹرانسپورٹ اور ٹیکس کے دام بھی بڑھ جائیں گے ۔ جو لیبر کلاس اور چھوٹے موٹے ملازمت کرنے والے یہ بڑھے ہوئے دام چکائیں گے ۔ نیز اشیائے ضروریہ کے دام بھی بڑھیں گے کیونکہ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ ایک دوسری حقیقت یہ ہے کہ یمن اور شام میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے یہاں مجرد رہنے والے یمنی اور شامی باشندوں کی بڑی تعداد نے اپنے اہل خانہ کو کسی طرح یہاں منتقل کروالیا ہے ۔ اس بڑی تعداد میں ہوئی نقل مکانی کے اثرات بھی بازار پر پڑیں ہیں ۔ اور یہ نقل مکانی کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے ۔ اور اب پٹرول ، بجلی اور پانی کی نرخوں میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ اور یہ یمنی اور شامی باشندے جنہوں نے اپنے اہل خانہ کو یہاں منتقل کیا ہے ان میں ایسے بھی ہیں جن کی آمدنی اتنی نہیں کہ وہ یہاں اپنے اہل خانہ کو رکھ سکیں ۔ لیکن ان ملکوں کے بگڑے ہوئے حالات کے پیش نظر انھوں نے اپنے اہل خانہ کو یہاں منتقل کیا ہے ۔ اب انھیں کسی طرح حالات کا سامنا کرتے ہوئے یہاں جینا ہے ۔ حکومت نے شام اور یمن کے ان نقل مکانی کرنے والوں کو visit visa میں لمبے عرصہ تک رہنے کی اجازت دی اور visit visa پر رہنے والے بچوں کو یہاں کے اسکولز میں داخلہ دئے جانے کی ہدایت بھی جاری کی ۔ واضح رہے کہ یہاں قانون کے مطابق ویزٹ ویزا پر رہنے والے دیگر کے بچے یہاں اسکول میں داخلہ نہیں حاصل کرسکتے ۔ حکومت نے یمنی اور شامی باشندوں کو یہ سہولتیں تو مہیا کردیں مگر اچانک ان کی آمدنی میں اضافہ تو نہیں ہوا ۔ مگر انھیں اپنے اہل و عیال کیلئے ایک علحدہ مکان اور ضروریات زندگی تو مہیا کرنے ہی پڑیں گے ۔ مکانات کی مانگ بڑھے گی تو کرایوں میں اضافہ ہوگا ۔ اشیائے ضروریہ کی مانگ اور سپلائی میں توازن نہ رہا تو قیمتیں بڑھیں گی ۔ اس سے متاثر مقامی اور سارے خارجی باشندے ہوں گے۔ مطلب یہ کہ اب یہاں رہنے والے متوسط اور کم آمدنی والوں کیلئے حالات سخت ہوتے جائیں گے ۔ یہاں جو بڑی تعداد میں خارجی باشندے رہتے ہیں ان میں ہندوستانی ، پاکستانی ، بنگلہ دیشی ، فلپائنی اور سوڈانی وغیرہ ہیں ۔ یہ لوگ یہاں طویل عرصہ سے مقیم ہیں ۔ اب نہ ان ممالک کے حالات ہی ایسے ہیں کہ یہ لوگ اپنے وطن واپس چلے جائیں اور یہاں بھی حالات نے ان کے اطراف گھیرا تنگ کیا ہوا ہے ۔ ویسے دنیا کے ہر حصہ میں معاشی حالات خراب ہی ہیں ۔ ہر طرف لوگ معاشی مسائل اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ایک بڑی آبادی کو کھانے کے لالے پڑے ہیں ۔ ان حالات سے باہر آنے کا ایک حل یہ نظر آتا ہے کہ دنیا میں مکمل امن و امان قائم ہو تو ہر میدان کی پیداوار میں اضافہ ہوگا ۔ اور پیداوار میں اضافہ ہوا تو انسانو ںکو ضرورت بھر غذا میسر آئے گی اور پرامن حالات میں دنیا مزید ترقی کرے گی اور یہ دنیا نسل انسانی کیلئے پرسکون طریقے سے رہنے کی جگہ بن جائے گی ۔