سعودی بجٹ 2017 ء

کے این واصف
خادم حرمین شریفین سلمان بن عبدالعزیز کی منظوری کے بعد پچھلی جمعرات کو سعودی عرب کے سال 2017 ء کے بجٹ کا اعلان کردیا گیا ۔ ماہرین نے مملکت کی معیشت ، قومی آمدنی اور اخراجات کے لحاظ سے اس بجٹ کو ایک متوازن بجٹ بتایا ۔ان کا خیال ہے کہ یہ بجٹ ایک عمدہ منصوبہ بندی کا ترجمان ہے ۔ خسارے سے نمٹنے کیلئے اچھے اقدام بھی اٹھائے گئے ہیں۔ مگر بجٹ 2017 مقمین (غیر ملکی باشندے) کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بجٹ خارجی باشندوں کیلئے چونکا دینے والا بجٹ ثابت ہوا ۔ مملکت میں کام کرنے والے غیر ملکی باشندوں میں سب سے بڑی تعداد ہندوستانی باشندوں کی ہے ۔ یہ ہندوستانی باشندے ابھی اپنے وطن میں نوٹوں کی منسوخی اور بینک سے رقم نکالنے کی حد بندی جیسے جھٹکے سے باہر نہیں نکل پائے تھے کہ یہ سعودی بجٹ ان کیلئے دوسرا جھٹکا ثابت ہوا ۔ ہندوستانی تارکین وطن پر مملکت کے سال2017  ء کے بجٹ کے اثرات پر مز ید کچھ کہنے سے قبل سعودی بجٹ پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے تاکہ اس سے متعلق آگے جو کچھ کہا جائے وہ قارئین کو بہتر طریقہ سے سمجھ میں آجائے ۔ سعودی پریس ایجنسی (SPA) کی جانب سے جاری کردہ بجٹ کی تفصیلات کے مطابق سعودی کابینہ نے نئے مالی سال کا جو بجٹ جاری کیا ہے ، اس کے مطابق اخراجات کا تخمینہ 890 ارب ریال اور آمدنی 692 ارب ریال متوقع ہے ۔ یہ 198 ارب ریال خسارے کے بجٹ کے طور پرمنظور کیا گیا ۔بتایا گیا کہ 2017 ء کا قومی بجٹ 2016 ء کے بجٹ کے مقابلے میں 33 فیصد سے بھی کم خسارے کا بجٹ ہے ۔ 2016 ء کے بجٹ میں  297  ارب ریال کا خسارہ ہوا تھا جو مقررہ تخمینہ سے9  فیصد کم ہے ۔ سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے واضح کیا کہ سعودی حکومت نے مقیم غیر ملکی کے ہمراہ سکونت پذیر فیملی کے ہر ممبر پر 100 ریال فیس مقرر کی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ  غیر ملکیوں پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے  تاکہ ان اقتصادی اداروں کو مضبوط کیا جاسکے جہاں سعودی کم تعداد میں ملازم ہوں ۔ سعودی وزیر خزانہ نے کہا کہ 2017 ء کے شروع سے ایسی کمپنیوں میں جہاں سعودی کم اور غیرملکی زیادہ ہوں گے ۔ فاضل غیر ملکی کارکنان پر فیس عائد کی جائے گی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2018 ء میں غیر ملکی کارکنان پر ماہانہ فیس 300 سے 400 ریال ہوگی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر ملکیوں سے جو رقم وصول کی جائے گی وہ انہیں پیش کی جانے والی سرکاری خدمات کے مقابلے میں بہت معمولی ہے ۔ 2018 ء کے آغاز سے تارکین پر فیس میں اضافہ کیا جاتا رہے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ نجی اداروں کے بقایا جات 60 دن کے اندر اندر ادا کردیئے جائیں گے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزارت خزانہ درپیش چیلنجوں کے با وجود مالی توازن پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہے۔

دوسری طرف خود شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بجٹ کے اعلان کے بعد عوام سے خطاب کیا۔ جسے براہ راست ریڈیو ، ٹی وی سے نشر کیا گیا ۔ شاہ سلمان نے سعودی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج ہم آئندہ مالی سال 1438-39 ھ کے قومی بجٹ کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ بجٹ ایسے عالم میں پیش کیا جارہا ہے جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک سخت اقتصادی بحرانی حالات سے دوچار ہیں۔ تیل کے نرخوں میں کمی کا اثر خود ہمارے ملک پر پڑا ہے ۔ سعودی حکومت نے درپیش تبدیلیوں سے اس طرح نمٹنے کی کوشش کی کہ مطلوبہ اہداف کی تکمیل کا عمل متاثر نہ ہو۔ شاہ سلمان نے سعودی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اقتصادی نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ ہمارا اقتصادی نظام موجودہ مالی اور اقتصادی چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے حکومت کی مالیاتی پالیسیوں اور دور اندیشی کا ثمر ہے ۔ شاہ سلمان نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مدد اور پھر عوام کے سہارے اچھی کارکردگی کے حوالے سے پر امید ہیں۔

اب آئیے تارکین وطن پر عائد کئے جانے والے فیملی ٹیکس کی تفصیلات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس کی تفصیلات کچھ اس طرح بتائی گئی ہیں۔ سعودی عرب نے مملکت میں مقیم تارکین وطن پر نئے بجٹ میں ٹیکس مقرر کیا ہے ۔ شائع شدہ تفصیلات کے مطابق 2017 ء کے دوران ہر مقیم غیر ملکی کو اپنی زیر کفالت ہر فرد پر ماہانہ 100 ریال ٹیکس ادا کرنا ہوگا ۔ اس پر عمل درآمد جولائی 2017 ء سے ہوگا ۔ سالانہ اضافہ 100 ریال مقرر کیا گیا ہے ۔ 2018 ء کے دوران یہی ٹیکس ماہانہ 100 ریال کے بجائے 200 ریال لیا جائے گا ۔ 200 ریال ٹیکس کی شروعات جولائی سے ہوگی ۔ آئندہ یکم جولائی 2019 ء سے یہی ٹیکس 200 ریال فی کس کے بجا ئے 300 ریال فی کس کردیا جائے گا جبکہ جولائی 2020 ء سے یہی ٹیکس ماہانہ 300 ریال کے بجائے 400 ریال ماہانہ کیا جائے گا۔ تارکین وطن پر نہ صرف یہ فیملی ٹیکس کا بوجھ پڑے بلکہ اس کے علاوہ پٹرول ، بجلی اور پانی کے نئے نرخ جولائی سے نافذ ہوں گے۔ سبسیڈی جزوی طور پر ختم ہوجائے گی۔ سبسیڈی میں کمی رفتہ رفتہ کی جائے گی ۔ ان نئے نرخوں کا اثر مقامی باشندوں پر نہیں ہوگا ۔ سبسیڈی کے ختم کئے جانے کے بعد سعودیوں کو زر تلافی نقدی کی شکل میں بینکوں کے  ذریعہ ملے گی۔ سعودی حکومت نے اپنے تمام شہر یوں کیلئے مقرر ہر طرح کی سرکاری سبسیڈی کو ایک دا ئرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسے ’’حساب المواطن ‘‘ (سعودی شہری کا اکاؤنٹ) نام دیا گیا ہے ۔ اس کے تحت سعودی خاندانوں کو ہر مہینے زر تلافی بینکوں کے ذریعہ ادا کی جائے گی ۔ آغاز جون 2017 ء سے ہوگا ۔ پٹرول ، پانی، بجلی کے نئے نرخ جولائی 2017 ء سے نافذ ہوں گے ۔
یہ حقیقت اب کسی سے چھپی نہیں ہے کہ پچھلے تین ، چار سال میں سعودی عرب میں تارکین وطن کے حق میں عام معاشی حالات ٹھیک نہیں رہے ۔ بیشتر کمپنیوں میں ملازمین کئی کئی ماہ سے اپنی تنخواہوں سے محروم رہے۔ لوگوں کے پاس روز مرہ کے اخراجات ، علاج ، بچوں کے اسکول کی فیس و غیرہ جیسے ضروری اخراجات کیلئے پیسے کا انتظام مشکل ہوگیا تھا ۔ کئی افراد نے مجبورا ً اپنی فیملی وطن واپس بھیج دی ۔ خصوصاً تعمیراتی کمپنیوں میں کام کرنے وا لے افراد کے معاشی حالات ناقابل بیان حد تک خراب ہوگئے ۔ پچھلے ماہ حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ مملکت تمام کمپنیوں کو ختم ڈسمبر تک سارے بقایا جات ادا کردے گی، اس سے  غیر ملکی باشندوں میں امید بندھ گئی تھی کہ اب اگلے چند دن میں حالات بہتر ہوجائیں گے اور کسی حد تک کچھ کمپنیوں کو ان کے بقایا جات وصول بھی ہوئے اور انہوں نے  اپنے ملازمین کی رکی ہوئی تنخواہوں کی ادائیگی بھی کی۔ مگر بتایا جارہا ہے کہ پھر بھی اب تک سارے کمپنیوں یا اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں رکی ہوئی تھیں ، وہ پوری ادا نہیں ہوئی ہیں۔ یعنی اب بھی مجموعی طور پر خارجی باشندوں کے حالات ٹھیک نہیں ہوئے ۔ خارجی باشندوں کی ا یسی مالی صورتحال میں اب مملکت کی جانب سے عائد کردہ نئے فیملی ٹیکس کا بھاری بوجھ بھی ان پر آن پڑا ۔ نیز بجلی ، پانی ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے عنقریب ہیں۔ اب یہاں کام کرنے والے افراد جنہیں ان کی تنخواہیں ہی وقت پر حاصل نہیں ہورہی ہیں تو تنخواہ میں اضافے کا تصور تو کیا ہی نہیں جاسکتا جبکہ اگلے چھ ماہ بعد انہیں فیملی ٹیکس اور دیگر اشیائے ضروری کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا ہے۔ اب خارجی باشندوں کے سامنے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو اپنے وطن واپس بھیج دیں اور یہاں تنہا زندگی بسر کریں تاکہ فیملی ٹیکس سے بچا جاسکے اور باقی اخراجات میں کمی کر کے اپنی آمدنی اور خرچ کے میزان میں توازن پیدا کرسکیں۔ فیملی کے تقسیم ہونے کے جو مسائل ہیں وہ پھر ان کے سامنے ہوں گے ۔ دیگر یہ کہ یہاں مو جود لاکھوں غیر ملکی باشندے اچانک وطن واپس کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ کچھ ممالک جیسے شام ، یمن اور فلسطین کے حا لات ایسے  نہیں ہیں کہ یہ لوگ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور سب سے بھاری تعداد میں جو خارجی باشندے یہاں کام کرتے ہیں ان میں ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، فلپائن اور نیپال کے ہیں۔ ان ممالک میں امن و امان کے حا لات ابتر تو نہیں ہیں مگر اقتصادی حالات ایسے نہیں ہیں کہ یہ لوگ واپس جاکر وطن میں پھر سے قدم جماسکیں۔ یعنی ان کے پیچھے دریا آگے کھائی والا معاملہ ہے اور دیگر یہ کہ ہم لوگ نہ مقامی حکومت سے کوئی نمائندگی کرنے کے موقف میں ہیں نہ ہمیں اپنی حکومت ہی سے کوئی مدد کی توقع ہے۔
knwasif@yahoo.com