سعودی باشندوں کی بیروزگاری میں ریکارڈ اضافہ

۔12.9 فیصد سعودی نوجوان بے روزگار، خانگی کمپنیاں بھی بقاء کیلئے کوشاں
دوبئی 5 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) سعودی شہریوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھتے جارہی ہے۔ اب یہ شرح 12.9 فیصد ایک ریکارڈ نشانہ تک پہونچ گئی ہے۔ اس سال کے پہلے حصہ میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ کے ساتھ خانگی آجرین بھی اپنی کمپنیوں کی بقاء کے لئے جدوجہد کررہے ہیں کیوں کہ سعودی عرب میں نئے ٹیکس نظام کے علاوہ اندرون ملک پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت نے سعودی عرب میں اصلاحات کے ذریعہ کئی معاشی اقدامات کئے ہیں خاص کر تیل کی برآمدات پر معیشت کا انحصار کم کردیا گیا ہے اور دیگر اصلاحات کے ذریعہ ترقی دی جارہی ہے۔ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اصلاحات کا مقصد سعودی عرب میں تیل صنعت پر ہی انحصار کرنے کے بجائے دیگر صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور روزگار پیدا کیا جائے لیکن ان اصلاحات کے ذریعہ بعض سخت اقدامات بھی کئے گئے ہیں تاکہ سعودی عرب کے بجٹ خسارہ کو کم کیا جاسکے۔ حکومت نے 2018 ء سے ہی وائیلو ایڈیڈ ٹیکس اضافی قدر ٹیکس 5 فیصد نافذ کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے کئی خانگی کمپنیاں اپنی بقاء کی جدوجہد کررہی ہیں۔ سعودی باشندوں میں بے روزگاری کی شرح 1999 ء کے مقابل سب سے زیادہ ہے اور اب یہ شرح 12.8 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے۔ سعودی حکام نے زیادہ سے زیادہ سعودیوں کو خاص کر سعودی خواتین کو روزگار دینے پر توجہ دینا شروع کیا ہے۔ لیبر فورس میں بھی خواتین شامل ہورہی ہیں تاکہ ملک کی معیشت کو مؤثر بناتے ہوئے حکومت کے مالیاتی بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ تازہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب کے روزگار سے مربوط شعبوں میں معمولی پیشرفت ہوئی ہے اور سعودی عرب سے کئی خارجیوں کے اخراج کا عمل جاری ہے کیوں کہ ملک کی معیشت کمزور ہورہی ہے اور کمپنیوں کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اگر خارجیوں کو ملازمت دیتے ہیں تو اس کے لئے انھیں بھاری فیس ادا کرنی پڑے گی۔ اب سعودی عرب میں بیرونی ملازمین کی تعداد 10.42 ملین سے گھٹ کر 10.18 ملین ہوگئی ہے جبکہ 2017 ء میں ان کی تعداد 10.85 ملین تھی۔ خارجیوں کے اخراج کا عمل جاری ہے۔