سطحی نفسیات سے آگے

ڈاکٹر مجید خان
کون سا ایسا شخص ہوگا جو اپنی نفسیات سے واقف نہ ہوگا ۔ تعلیم یافتہ ہو نہ ہو ، اُس کا اپنے تعلق سے ایک تاثر ضرور اُس کے دماغ میں ہوگا ۔ ضعیف العقل یا فاترالعقل ہو تو بات الگ ہے جو بھی شخص سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے اُس کیلئے دنیا میں کاروبار چلانے کیلئے اپنی صلاحیتیوں اور کمزوریوں سے واقفیت ضروری ہے ۔ یہ متوازن اور حقیقی ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کئی لوگ احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں تو کئی لوگ احساس برتری میں۔ یہی اُن کے دماغ کی کارکردگی کیلئے ضروری مشنری ہے مگر لوگوں میں یہ اپنے طورپر سوچا سمجھا تصور ہے جس کا مرکز اُن کی ’’انا ‘‘ ہوتی ہے ۔ انا کو قابو میں رکھنا آسان کام نہیں۔ جن لوگوں میں انا غیرحقیقی طورپر سر پر چڑھی ہوئی ہوتی ہے وہ اُس کی قامت کو کم نہیں کرسکتے یہی اُن کا مسئلہ ہے جو تعلقات میں کشیدگی پیدا کرتا ہے ۔

میرا اصلی مطلب یہ ہے کہ عام طورپر لوگ روزمرہ کی زندگی میں اپنے جذبات ، خیالات اچھے اور برے ، وسوسے ، یا غیرواجبی خوف سے واقف رہتے ہیں مگر اُن کی نفسیاتی وجوہات اور پس پردہ دیرینہ صدمات سے جوڑتے نہیں ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ اُن کے تحت الشعور میں دبے ہوئے رہتے ہیں ۔ ان کو سطح پر لانا ایک ماہر نفسیات کیلئے روزمرہ کا چیلنج ہے ۔ اکثر میرے نفسیاتی مضامین کے پس پردہ کوئی ایک مریض کی کیفیت اور اُس کی زندگی ہوا کرتی ہے ۔ میں کیفیات مریض اور رشتے داروں سے سننے کے بعد اُس کی نفسیاتی معنویت سمجھنے کیلئے کوشاں رہتا ہوں۔
الفاظ کے پیچوں میں اْلجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے!
اسی طرح کا ایک مریض میں نے حال حال میں دیکھا !جو اس تمہید اور مضمون کا باعث بنا اور معلومات آفرین بھی ہے ۔ 60 سالہ موظف ٹیچر اپنی پوری فیملی کے ساتھ لایا جاتا ہے ۔ اُس کو اُس کی مرضی کے خلاف لایا گیا ۔ اُس کی اہلیہ سنجیدہ اور حکومت کے کسی اہم عہدے پر مامور ہے ۔ لڑکے اور لڑکیاں سب کمپیوٹر کی اعلیٰ ذمے داریوں میں مصروف ہیں۔ یہ سب لوگ مریض کو کمرے میں روک نہ سکے ۔ اُن کو اپنے ایک بزرگ رشتے دار کی معتبرانہ خدمات کو حاصل کرنا پڑا مگر وہ اُن سے بھی سنبھل نہیں رہا تھا ۔
اُس کا ایک ہی اصرار تھا ۔ مجھے گھر لے چلو۔ کرشنا ضلع کے کمّا لوگ تھے ایک سے ایک ہٹا کٹا ، مریض ، دبلا پتلا مگر انتہائی پھرتیلا۔ لانے والے سنبھالنے میں پسینے میں شرابور ہورہے تھے اور اُس کو کئی لوگ زبردستی کے بٹھاکر رکھے تھے ۔ اُن کو خدشہ تھا کہ چھڑاکر رفوچکر ہوجائیگا ۔ لامحالہ اُن کی اس جدوجہد اور فکر میں ہمارا دواخانہ بھی شامل ہوگیا۔

میں جب اُس سے مخاطب ہوکر یہ کہا کہ آپ تعلیمیافتہ ہیں اور سکون سے بیٹھ کر بات نہیں کرسکتے تو کہنے لگا کہ کیوں ؟ میں جانا چاہتا ہوں ۔ میں جینا نہیں چاہتا ، میں اسی وقت مرنا چاہتا ہوں ۔ یہ لوگ زبردستی مجھے لائے ہیں۔ میرے موجودہ مسائل کا حل صرف موت ہے ۔ سُنا کہ چند دنوں سے وہ اقدام خودکشی کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ پہلی دفعہ یہ لوگ اُس کو سولی پر لٹکا ہوا دیکھے مگر خودقسمتی سے لمحوں میں اُس کو اُتار لئے ۔ اُس کے بعد گلا گھونٹنے کی کوشش کیااور باہر بھاگنے کی کوشش تو مسلسل کرتا رہا ۔
ہمارے لئے بھی یہ ایک پیچیدہ مسئلہ بنتا گیا۔ ذرا سی بھول چُوک ہو تو وہ سڑک پر بھاگ کر بس کے نیچے گرجائیگا یا پھر آٹو رکشا لیکر حسین ساگر میں چھلانگ لگادے گا یا پھر گنڈی پیٹ اور اُس کے بعد یہ ایک پولیس کیس بن جائیگا ۔ اس لئے ہم لوگ بھی اُس پر مسلسل کڑی نظر رکھے ہوئے تھے ۔ دوسرے ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ اُس کو بجلی کے شاک کا علاج شروع کیا جائے مگر عمر کا لحاظ کرتے ہوئے میں جھجک رہا تھا ۔ اتنی ہمت میں نے ضروری کی کہ مانع قنوطیت دوا دل کھول کر شروع کی مگر اس شخص کے خودکشی کرنے کے عزم مُصمم میں کوئی نقاہت نظر نہیں آرہی تھی ۔ چہرے پر مسکراہٹ کا کوسوں پتہ نہیں تھا ۔ کسی سوال کا جواب بھی دینا نہیں چاہتا تھا ۔ زبردستی سے غذا دی جاتی ہے ۔ چار دنوں کے بعد دور چہرے کے اُفق پر ہلکی سی مسکراہٹ دکھائی دی اور اُس کے بعد اخبار پڑھنے لگا اور مایوسی کی برف پگھلتی نظر آنے لگی ۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ بہت جلد قنوطیت کے اس دور سے نکل جائیگا اور جب میں خیالی خودکشی کی طرف اشارہ کیا تو احساس ندامت سے اُس کا سر نگوں ہوگیا۔ ہم ہوگئے کامیاب ۔یہاں تک رہی سطحی نفسیات ، احساس ناکامی، عدم اعتمادی ، انتہائی خوفزدہ ہونا ، قوت مدافعت کا غائب ہوجانا ، شدید شکست خوردہ ذہنیت کا انسان کو دبوچ لینا ۔ کسی بھی بیرونی حملے کے اندیشوں کا مبالغہ آمیز حد تک اندرونی منفی طریقے سے کرنا اور ہتھیار ڈال دینا ۔

میں ان کے پس پردہ حالات زندگی جو ایک دلیر انسان کو اتنا بزدل بنادیتا ہے کہ وہ اس دنیا ہی سے ہمیشہ کیلئے فرار ہونا چاہتا ہے بڑا سنگین ، غور طلب نفسیاتی مسئلہ ہے ۔ یہی ذمہ داری ایک ماہر غواص کی بنتی ہے ۔
رشتے دار مطمئن تھے ۔ دوائیاں لکھوالئے ۔ مریض اپنے کئے پر نادم تھا مگر میں نے اُس کے حالات زندگی سے واقفیت ضروری سمجھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ وہ اتنا پراعتماد ہوجائیگا کہ کہیں اور کوئی غلطیاں نہ کربیٹھے جس کا پچھتاوا اُس کو سولی کے پھندے تک نہ پھر پہنچادے۔

مختصراً تفصیلات یوں تھیں:
گوکہ یہ شخص ہیڈماسٹر ہی تھا مگر اِس کا دماغ بہت بڑے بڑے منصوبہ بندیاں کیا کرتا تھا ۔ شروع شروع میں تو کامیابیاں ہوتی رہیں مگر اتنے بڑے زندگی کے پراجکٹس میں وہ حصہ نہیں ڈالا تھا۔ کوکٹ پلی میں رہنے والا آندھرائی باشندہ زمینات ، پلاٹنگ ، عمارت کی تعمیر کے تیز دھنوں میں کود پڑا ۔ بیوی اور خاندان کے دوسرے سنجیدہ ، قریبی رشتے دار محتاط رہنے کا مشورہ دیا کرتے تھے مگر ایسے لوگ جب اپنے جنونی ولولوں پر سوار ہوجاتے ہیں تو بدُوّ شہہ سوار گرنے کے بعد ہی رُکتے ہیں ۔ مکانات کی تعمیر و فروخت کا کاروبار کامیاب رہا تو کمرشیل کامپلکس کے بڑے کام میں اپنے آپ کو پھنسالیا جس کے لئے نہ تو سرمایہ تھا نہ حرکیاتی شخصیت ، یہاں پر کئی غیرسماجی غنڈے مگر دولتمند لوگ اُن کے پارٹنر بن گئے ۔ جس میں ایک خطرناک شخص روی تھا جو کئی قتل کے مقدموں میں ملوث تھا ۔ تلنگانہ بننے کے بعد یہ کاروبار ٹھنڈے پڑگئے ۔ کمرشیل کامپلکس کا کوئی بازار نہیں رہا اور یہ لوگ کروڑہا روپئے کے مقروض ہوگئے ۔ روی سر پر آدھمکا اور جان سے ماردینے کی دھمکی دینے لگا ۔ کئی قانونی پیچیدگیوں میں اُن کو کھینچ لیا گیا ۔ ان سب غیرمتوقع خطرناک حالات کا ایک موظف ہیڈماسٹر مقابلہ نہ کرسکا اور دنیا سے جلد سے جلد بھاگنے کے منصوبے بنانے لگا ۔
یہاں تک بھی معاملات اور اُس کے حرکات سمجھ میں آتے ہیں مگر میری تشفی پوری نہیں ہوئی تھی۔ اب مجھے اُس کی شخصیت کا صحیح تجزیہ ضروری تھا جس میں ان ہوائی قلعوں کی کنجی مل سکتی تھی ۔ وہ تو اپنی کوتاہیوں پر روشنی ڈالنا نہیں چاہ رہا تھا مگر اُس کی بڑی لڑکی جو تعلیمیافتہ اور سمجھدار تھی میری کھوج کو سمجھ گئی ۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پتاجی Bipolar تو نہیں ہیں تو سر نیچا کرکے کہی کہ ہاں اُن کی ساری زندگی میں ہم لوگ اُن کے خیالات و حرکات کے مدوجزر سے گزرتے رہے۔ شروع میں تو یہ اتنے قیمتی سودوں میں نہیں جاتے تھے مگریہ واقعہ اُن کے Bipolar ہونے کا سب سے بڑا ہے ۔ کوئی بھی سرمایہ کاری کرتے اور جب مایوسی کا حملہ ہوتا تو وہاں سے بھاگ نکلتے ۔ معمولی نقصانات تو ہم لوگ برداشت کرتے رہے مگر اس فاش غلطی کے بعد ہی ہم سمجھ گئے کہ یہ ایک دماغی مرض ہے ۔ اگر یہ خودکشی کرلئے ہوتے تو کیا ان کو اتنا اندازہ نہیں تھا کہ روی خاندان کے کسی فرد کو بھی نہیں چھوڑے گا ۔
بس میری نفسیاتی پیاس بجھ گئی Bipolar دماغی بیماری کے لوگ دوہری شخصیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ 40 سال کی عمر کے بعد ہی ایسی کیفیات واضح طورپر سمجھ میں آتی ہیں۔ ان کے رویے میں دو رخی پن علانیہ نظر آتا ہے ۔ جو مزاج میں تیزی یا پھر سُستی ۔ ان دونوں کیفیات میں کئی سالوں کا وقفہ بھی ہوسکتا ہے یا پھر جلدی جلدی بھی ہوسکتے ہیں۔

تیزی آنے پر ہر خواہش بے لگام ہوجاتی ہے۔ عام طورپر کم سخن باتونی بن جاتا ہے ۔ چڑچڑاپن شروع ہوجاتا ہے۔ عجب قسم کی طاقت ان لوگوں میں آجاتی ہے اور تھکان کیا ہے یہ لوگ بھول جاتے ہیں۔ گھر والے اس تیز رفتاری زندگی کا ساتھ دے نہیںسکتے ۔ غیرضروری اور مشکوک سرمایہ داری میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ جن رشتے داروں کے ہاں سالہا سال نہیں گئے تھے وہاں پر نہ صرف زیادہ جانے لگتے ہیں بلکہ غیرموزوں اور نامناسب ہنسی مذاق کرتے ہوئے اُن لوگوں کو حیران کردیتے ہیں۔ عشق و معاشقے کے معاملے میں بھی شادی شدہ ہونے کے باوجود پیچھے نہیں ہٹتے ۔ یہ ایک دورہ ہے جو کئی دنوں یا ماہ تک چل سکتا ہے اور حالات معمول پر آنے کے بعد مایوسی کا شکار ہوسکتے ہیں جس کی انتہا اقدام خودکشی ہوسکتی ہے ۔ بسا اوقات بچپن ہی سے ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان سے واقفیت زندگی کے کئی حادثات سے تحفظ دلاسکتی ہے ۔