کے این واصف
مملکت سعودی عرب میں تارکین وطن جو ایک لمبے عرصہ سے یہاں برسرکار ہیں، مملکت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کا بنفس نفیس مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہم خود بھی ربع صدی سے کچھ زائد عرصہ سے یہاں کی تبدیلیوں کے شاہد ہیں تو آیئے اس ہفتہ انہیں تبدیلیوں پر بات کرتے ہیں۔ ہندوستان سے باہر نکلے تو ہم نے سب سے پہلے سعودی عرب ہی دیکھا بلکہ اسے ہم نے اپنا وطن ثانی ہی بنالیا ۔ آپ جانتے ہیں ہندوستان کا ایک مخلوط معاشرہ ہے ۔ جہاں پردہ وغیرہ کی پابندی خود مسلمانوں میں بھی سو فیصد نہیں ہے مگر ہم جب سعودی عرب پہنچے تو ہمیں ہر طرف کالے سایئے نظر آئے ۔ یعنی ہر عورت یہاں برقعہ پوش۔ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم ۔ ہر خاتون عبایہ میں۔ ایک بڑی اکثریت تو ایسی کہ جو مکمل نقاب پہنتی ہے۔ یعنی ان کا چہرہ تک نظر نہیں آتا بلکہ سعودی عورتیں تو خانہ کعبہ میں طواف کے دوران تک چہرے سے نقاب نہیں ہٹاتی ہیں۔ پردہ کی پابندی کے اس ماحول کو دیکھ کر خوشی بھی ہوئی ۔ ہمیں یاد ہے ہمارے جاننے والی ایک حیدرآبادی لیڈی ڈاکٹر یہاں ایک بڑ ے سرکاری اسپتال میں کام کرتی تھیں۔ وہ پابندی سے برقعہ پہنتی تھیں۔ ا نہوں نے ایک بار بتایا کہ جب وہ وطن چھٹی پر جاتی ہیں اور جب جب وہ گھر سے نکلنے لگتی ہیں تو برقعہ پہننے لگتی ہیں ۔ انہوںنے یہ بھی کہا وہ یہ مانتی ہیں کہ برقعہ میں عورت اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہے اور تو اور ہم نے اسی ریاض شہر میں سابق وزیر صنعت شریمتی وسندھرا راجے سندھیا (موجودہ چیف منسٹر راجستھان) کو برقعہ میں دیکھا ۔ وہ ایک سرکاری دورہ پر ریاض آئیں تھیں۔ وہ ہر میٹنگ میں برقعہ پہن کر شریک ہوتی تھیں۔
خیر اچھی بات ہے کہ برقعہ پہننے کا رواج یہاں آج بھی قائم ہے لیکن اب ذرا نقاب سرکتی جارہی ہے ، آہستہ آہستہ مثال کے طور پر دو ایک روز قبل کچھ خواتین کی تصویریں مقامی اخباروں میں شائع ہوئیں جومحکمہ ٹرافک میں پولیس عہدیدار سے اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر رہی ہیں۔ وہ برقعہ ضرور پہنے ہوئے تھیں لیکن بے نقاب تھیں۔ اس کے علاوہ اب یہاں 24 جون 2018 ء سے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ہوگی ۔ ظاہر ہے گاڑی ڈرائیو کرنے والی خاتون مکمل نقاب میں نہیں رہ سکے گی کیونکہ دائیں ، بائیں آگے پیچھے نظر رکھ کر متعدی کے ساتھ گاڑی چلانے میں آسانی کیلئے چہرہ سے نقاب ہٹانا پڑے گا۔ واضح رہے کہ ہم نہ نقاب ہٹانے کے خلاف ہیں نہ خواتین کے گاڑی چلانے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ہم تو صرف یہاں حالات کے بدلنے کا ذکر کر رہے ہیں۔ ویسے اب تک سعودی عرب ہی ایک ایسا ملک تھا جس نے خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی لیکن حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے ۔ اب یہاں بہت بڑی تعداد میں خوا تین ملازمت کرنے لگی ہیں۔ عورتوں کی اکثریت گھر میں فارغ گاڑی استعمال کرسکتی ہیں یا گاڑی خرید بھی سکتی ہیں لیکن ہر عورت اپنے لئے ایک ڈرائیور ملازم رکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ بس یہاں ایک چیز ہے جو خارجی باشندوں کے حق میں نہیں ہے ۔ وہ ایک کہ سعودی عرب میں ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی باشندے بحیثیت فیملی ڈرائیور یا ہاؤز ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ جب عورتیں گاڑی چلانے لگیں گی تو یہ ہاؤز ڈرائیورز کی ملازمت ختم ہوجائے گی ۔ نیز اس کا اثر ٹیکسی کے کاروبار پر بھی پڑے گا۔ کیونکہ سعودی عرب میں مقیم خواتین کی اکثریت اپنی ضروریات کیلئے باہر نکالتی ہیں تو وہ ٹیکسی کے ذریعہ ہی سفر کیا کرتی ہیں۔ اب ان کا بڑا حصہ خود گاڑی چلانے لگے گا تو ظاہر ہے ٹیکسی استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بڑی کمی واقع ہوگی۔ ویسے ٹیکسی کے کاروبار پچھلے دو ، تین برس سے ہی خراب حالت کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ خارجی باشندوں کا بڑی تعداد میں مملکت سے کوچ کرجانا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے ۔ دوسرے یہ کہ عنقریب اب ریاض شہر میں میٹرو ریل چلنے لگے گی ۔ تب تو ٹیکسی کا کاروبار اور بھی کم ہوجائے گا ۔ میٹرو کو شروع ہونے سے قبل یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی نے شہر میں اپنی سرویس کو کافی پھیلادیا ہے اور اس میں اضافہ کا بھی منصوبہ ہے جس سے ٹیکسی کا بزنس تقریباً ٹھپ ہوجائے گا ۔ اس سے خارجی باشندے بے روزگار ہوں گے کیونکہ ٹیکسی کا بزنس سو فیصد خارجی باشندوں کے ہاتھ میں ہے ۔
ایک زمانے میں سعودی عرب کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر ایک شعبہ ہوتا تھا جو بیرونی ممالک سے آنے والے اخباروں اور رسائل کی تنقیح کرتا تھا ۔ اگر انہیں کوئی بہت زیادہ عریاں تصویر اخبار یا رسائل میں نظر آئے تو اس کی ساری کاپیاں ضبط کر کے ضائع کردی جاتی تھیں۔ نیم عریاں تصویروں کو سیاہی سے کالا کردیا جاتا تھا یعنی کسی عورت کے بے آستین (Sleeve Less) کپڑوں میں تصویر ممنوع تھی لیکن آج خود یہاں کے مقامی جرائد و رسائل میں ایسی تصویریں شائع ہورہی ہیں۔ یہاں عوامی اجتماعات بہت کم ہوتے ہیں اور جو ہوتے بھی ہیں تو اس میں صرف مرد حضرات ہی شریک ہوتے ہیں یعنی مخلوط عوامی اجتماعات کی یہاں کبھی اجازت نہیں تھی لیکن اب سے دو ماہ قبل ایک اسٹیڈیم میں فٹبال میچ میں مخلوط اجتماع کی اجازت دے دی گئی اور ایک فٹبال میچ شائقین نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ دیکھا ۔ اب سے کوئی ایک ماہ قبل جدہ میں ایک فیشن شو بھی ہوا ۔ پہلی مرتبہ منعقد ہونے والے اس میں صرف خواتین کو شرکت کی اجازت تھی۔ مگر مقامی میڈیا میں اس کی رپورٹنگ ہوئی ۔ اس کے علاوہ یہاں اب مغرب اور عرب دنیا کے مشہور سنگرز کے موسیقی ریز پروگرام بھی منعقد ہونے لگے ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوتے تھے ۔ ایک اور تبدیلی روس میں چل رہے ورلڈ کپ میں چھ سعودی لڑکیوں کے گروپ نے افتتاحی تقریب میں پہلی مرتبہ پرچم اٹھاکر ورلڈ کپ افتتاحی تقریب میں ٹیم کی قیادت کی ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا کہ 24 جون سے سعودی عرب میں خواتین کار ڈرائیو کریں گی ۔ اس سلسلے میں کچھ آزاد خیال خواتین نے اب یہ مطالبہ بھی کردیا کہ انہیں موٹر بائیک (Two Wheeler) چلانے کی اجازت بھی دی جائے ۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ موٹر سیکل چلانے میں عبایہ (برقعہ) پہننا دشوار ہوگا اور اگر برقعہ پوری طرح اتر گیا تو پھر عریانیت عام ہوجائے گی ۔ برقعہ اسلامی معاشرے کا طرۂ امتیاز ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمان خواتین آج کل برقعہ استعمال کرنے کی طرف مائل ہیں اور جن ممالک میں اس پر امتناع عائد کیا جارہا ہے وہاں حکومتوں کے خلاف خواتین احتجاج کر رہی ہیں کیونکہ عورتوں میں یہ احساس جاگ چکا ہے کہ عبایہ عورت کیلئے ایک محافظ کی طرح ہے۔ سعودی عرب میں آرہی دیگر تبدیلیوں میں یہاں سینما تھیٹر کے کھولے جانے کی ا جازت بھی ایک ہے ۔ ویسے ہر قسم کی اور ہر زبان کی فلمیں تو آج یو ٹیوب پر اور کئی ٹی وی چینلز پر دستیاب ہیں اور ایک عرصہ سے لوگ انہیں دیکھ بھی رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر دستیاب یہ مواد اخلاقی انحطاط اور بے راہ روی کے پھیلاؤ کی وجہ بنی ہوئی ہے لیکن سینما تھیٹر معاشرے میں آزادی کے رجحان کو بڑھاوا دے گا اور نئی نسل میں برائیاں پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا اور اس کے بعد یہاں فلمیں بھی بننے لگی۔ جب فلمی دنیا قائم ہو گی تو فلمی دنیا کا ماحول بھی آئے گا۔ جو دنیا کے دیگر ممالک میں ہے ۔ اگر یکلخت نہ سہی آہستہ آہستہ سہی آئے گا ضرور۔
دنیا میں بے ہودگی اور بے راہ روی پھیلانے کا کام ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا ہے ۔ اس کا مقصد اسلام اور اسلامی تشخص کو نقصان پہنچانا تھا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودی اور نصرانیوں میں دشمنی کا سلسلہ ختم ہوا ۔ دونوں قوموں نے سوچا کہ ہم خواہ مخواہ آپس میں نبرد آزما ہیں جبکہ ہمارا اصل دشمن تو اسلام ہے جو تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے ۔ یہودی دانشوروں نے قرآن اور نبیؐ کی زندگی اور نبیؐ رحمت کی تربیت کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ قرآن کی تعلیمات اور نبیؐ کریم کی زندگی اوران پر عمل کرنے والوں سے دنیا کا ہر ذی شعور انسان مرعوب ہورہا ہے اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ہمارا مذہب ایک دن نیست و نابود ہوجائے گا ۔ قرآن میں کسی قسم کی ترمیم ، تبدیلی یا چھیڑ چھاڑ کرنا ناممکن تھا کیونکہ قرآن تو مسلمانوں کے سینے میں بستا ہے۔ ان کیلئے آسان یہ تھا کہ اسلامی معاشرے ، اس کے تشخص اور مسلمانوں کو غیر محسوس طریقہ سے قرآنی تعلیمات اور ارشادات نبیؐ سے دور کیاجائے ۔ یہودیوں نے اپنی اس فکر کوایک تحریک کی طرح شروع کیا اور اس کو ساری دنیا میں کامیابی سے پھیلایا جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔
پہلے مسلمانوں کو عقائد اور فرقوں کے نام پر تقسیم کر کے انہیں کمزور کیا گیا ۔ مسلمانوں کے یہ منقسم فرقہ اول تو ایک دوسرے کے دشمن ہوئے ، ہر فرقہ اپنے آپ کو سچا اور دوسرے کو غلط بلکہ کافر قرار دینے لگا ۔ یہ سوچے بغیر کہ تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے کلمہ گو ہیں ،ا یک اللہ ، ایک قرآن اور نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ جب ہمارے اندر کوئی بنیادی فرق نہیں ہے تو پھر ہم ایک دوسرے کے دشمن کیسے ہوئے ۔ یہ تفریق دیندار افراد میں پیدا کی گئی اور وہ مسلمان جونام نہاد مسلمان تھے ، آزاد خیال تھے ، جن کو دین کا زیادہ علم نہیں تھا ، انہیں بے راہ روی کے راستے پر ڈال دیا گیا اور اس بے راہ روی کی ہوا کی لپیٹ میں ساری دنیا آگئی ۔ انہیں اس جال میں پھنسانے کیلئے طرح طرح سے راغب کیا گیا ۔ طرح طرح کے نعرے عام کئے گئے ۔ ترقی ، Liberalism ، شخصی آزادی ، آزادی نسوان ، آزاد خیالی وغیرہ وغیرہ ۔ ان نعروں کے فریب میں لوگ آتے گئے اور اپنے معاشرے میں اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں لانے لگے ۔ اب اگر ہم وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کے رجحان سے باہر نہیں آئے تو ایک دن مسلمان اپنی پہچان کھو بیٹھیں گے ۔ بہرحال اسلامی تشخص کی حفاظت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اس میں حکومتوں سے زیادہ ہر انفرادی مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے دین اور اس کے تشخص کو قائم رکھے اور اپنی ذاتی زندگی میں اس پر عمل پیرا رہیں کیونکہ روز محشر ہر شخص کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا اوراللہ کے آگے جوابدہی پر ہر مسلمان کا یقین کامل ہے۔ ہمارے اس یقین اور ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہر فرداپنی انفرادی ذمہ داری کو سمجھے اور عمل کرے۔
knwasif@yahoo.com