سرپور پیپر ملز کے احیاء کے قوی امکانات

کاغذنگر۔30اکٹوبر ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) مسٹر کونیرو کونپا رکن اسمبلی سرپور نے تیقن دیا کہ سرپور پیپر ملز کے احیاء کے امکانات قوی ہوچکے ہیں ۔ فیاکٹری کی انتظامیہ کا اب فیاکٹری سے تعلق نہیں رہا ‘ کروڑوں روپئے کے قرض کی وجہ سے بینک والوں نے فیاکٹری کی ملکیت پر قبضہ کرلیا ہے اور کسی نہ کسی سرمایہ دار کے حوالے کرنے کا ارادہ ہے اورحکومت بھی اس فیاکٹری کے احیاء میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ اسی لئے فیاکٹری کے آغاز کے امکانات روشن ہیں ۔ انہوں نے دسہرہ عید کے موقع پر فیاکٹری کے اسٹاف اور مزدوروں کو ایک ایک ماہ کی تنخواہ بھی دلوائی اور ورکرس کی ایک روزہ زنجیری بھوک ہڑتال میں خود بھی حصہ لیا اور مزدوروں کی ہمت افزائی کی ۔ واضح رہے کہ سرپور پیپر ملز ایک سال کے عرصہ سے بند پڑی ہے اور اس فیاکٹری کے مزدور اور اسٹاف میں مایوسی اور ناامیدی پائی جارہی تھی لیکن مسٹر کونیرو کونپا کے صحافتی بیان سے فیاکٹری کے مزدور اور اسٹاف کو امید کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے ۔ فیاکٹری کے بند ہوجانے سے محلے ویران دکھائی دے رہے ہیں ‘اسٹریٹ لائٹس بند ہوجانے کی وجہ سے فیاکٹری کے محلوں میںاندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ فیاکٹری کے کئی مزدور اور اسٹاف دوسرے مقامات پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ فیاکٹری بند ہوجانے سے دلبرداشتہ ہوکر چند مزدوروں نے خودکشی بھی کی ہے اور کئی مزدور قلب پر حملے کے سبب کسمپرسی کی حالت میں چلے گئے ۔ کئی لوگ نقل مقام کرنے کی وجہ شہر کی گلیاں اور سڑکیں ویران دکھائی دے رہی ہیں ‘ ورنہ کاغذنگر شہر بین الاقوامی شہرت کا حامل تھا ۔ سرپور پیپرملز کا کاغذ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک کو بھی بھیجا جاتا تھا ۔ اس سے قبل سرسلک فیاکٹری بھی بند ہوجانے سے صرف سرسلک کا محلہ ہی ویران دکھائی دے رہا تھا لیکن سرپور پیپر ملز کے بند ہوجانے سے سارا شہر ویران دکھائی دے رہا ہے ۔ اگر سرپور پیپر ملز کا احیاء نہ ہوا تو یہ شہر کوتہ پیٹ ہوجائے گا جو اس شہر کا پرانا نام ہے ۔ اگر مذکورہ فیاکٹریاں بند نہ ہوئیں تو کاغذنگر کو ضلع بنایا جاسکتا لیکن شہر کاغذ کو ضلع بنایا جاسکتا ہے لیکن شہر کاغذنگر کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی پیشن گوئی نہیں کرسکتا ۔ اب حالات ہی بتائیں گے کہ آگے کیا ہوگا ۔ اس موقع پر مسٹر وشویشور راؤ ورکنگ پریسیڈنٹ ورکرس یونین ‘ مسٹر راجنا (CITU)‘ مسٹر لکشمن کمار گوڑ ‘ مسٹر بھومیا ‘ مسٹر گجی واسودیو‘ مسٹر وجئے یادو ‘ مسٹر راجیشور راؤ ‘ جناب ذاکر شریف ‘ جناب محبوب اور مسٹر راج کملاکر ریڈی ‘ عبدالسبحان ‘ حاجی عبدالرحیم صابری وغیرہ موجود تھے ۔