آندھرا پردیش بجٹ میں اقلیتیں نظرانداز، وعدہ سے انحراف
کے سی آر، چندرابابو بات چیت خوش آئند
محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ حکومت کی جانب سے 19 اگست کو عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے تلنگانہ ریاست کا جامع سروے کیا گیا، جو صد فیصد کامیاب رہا۔ عوام نے توقع سے زیادہ سروے کرنے والوں کے ساتھ تعاون کیا، جس کے اب حیرت انگیز انکشافات ہو رہے ہیں، جب کہ سروے کے مخالفین کو عوام نے مسترد کردیا۔ سروے سے پتہ چلا ہے کہ حیدرآباد میں 5 لاکھ خاندانوں کا اضافہ ہوا ہے۔ 2011ء کے اعداد و شمار میں حیدرآباد کی 86.65 لاکھ آبادی کی نشاندہی کی گئی تھی، تاہم تازہ سروے کے بعد حیدرآباد کی آبادی 1,05,76,922 کروڑ تک پہنچ گئی ہے، جب کہ مزید ڈھائی لاکھ خاندانوں کا سروے ابھی باقی ہے۔ اب تک گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے پاس 15.80 ہزار مکانات کا ریکارڈ تھا، تاہم تازہ سروے کے بعد مکانات کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی جانب سے کرائے گئے سروے پر مختلف سیاسی جماعتوں نے زبردست واویلا مچایا اور حکومت کے فیصلہ پر تنقید کی، حتی کہ ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر سروے رُکوانے کی کوشش کی، مگر ہائیکورٹ نے سروے کو روکنے سے انکار کردیا۔ سروے کے دوران عوام میں غیر معمولی جوش و خروش دیکھا گیا، جب کہ بعض مقامات پر شمار کنندوں کے نہ پہنچنے پر عوام نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں رہنے والے عوام بشمول بیرونی ممالک میں رہنے والوں نے بھی اپنے اپنے مقامات پر پہنچ کر سروے میں حصہ لیا۔ سروے سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ عوام نے تلنگانہ حکومت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اب حکومت فلاحی اسکیموں کے ذریعہ عوام کو کتنا فائدہ پہنچاتی ہے؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ سروے کے تعلق سے آندھرا والوں نے اعتراض کیا تھا اور اس سلسلے میں بی جے پی نے بھی ان کا ساتھ دیا، تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ شہر حیدرآباد میں 70 ہزار مکانات مقفل بتائے گئے ہیں۔ یہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے؟ سروے میں حصہ نہ لینے کی وجہ کیا ہے؟ ان تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بیرونی ممالک اور ملک کی مختلف ریاستوں سے شہر پہنچ کر جب عوام نے تلنگانہ کے سروے میں حصہ لیا ہے، تو معلوم ہونے کے باوجود 70 ہزار مکانات کے مکین کیوں اور کہاں غائب ہو گئے؟۔ کچھ مجبوریاں ہو سکتی ہیں، مگر اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سروے کس حد تک صحیح ہوا ہے؟۔ جس مقصد کے لئے سروے کروایا گیا ہے، کیا اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل ہوئی ہے؟۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ کئی لوگوں کے پاس بوگس راشن کارڈس ہیں، جس کی وجہ سے غریب اور مستحق عوام تک حکومت کی فلاحی اسکیمات نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ اس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں اور بے قاعدگیاں ہو رہی ہیں، جن کو دُور کرنے اور مستحقین تک فلاحی اسکیمات کے ثمرات پہنچانے کے لئے سروے کیا جا رہا ہے۔
کیا عوام نے اندراجات بالکل صحیح کروائے ہیں؟ یا صحیح معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا گیا ہے؟ اس سلسلے میں حکومت کا اگلا قدم کیا ہوگا؟۔ بینک اکاؤنٹ طلب کرنے پر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عوام نے اعتراض کیا، مگر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے 19 اگست کی شام ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ غریب ہندو اور مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے دی جانے والی رقم بطور ڈی ڈی بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائیں گے۔ انھوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ کانگریس دور حکومت میں غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے 25 ہزار روپئے ادا کئے جاتے تھے، لیکن ہم نے اسے بڑھاکر 51 ہزار روپئے کردیا۔ ساتھ ہی چیف منسٹر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس اسکیم میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں ہوئی ہیں، یعنی جمعرات بازار سے سامان خریدکر لڑکیوں کی شادیوں میں دیا گیا، جس کی وہ تحقیقات کرائیں گے۔ اس طرح انھوں نے بینک اکاؤنٹ کی طلبی کی وضاحت کردی۔ علاوہ ازیں اندرون تین ہفتے رائے شماری کے تمام ریکارڈس کمپیوٹرائزڈ کردیئے جائیں گے، جس کی ہدایت تمام ضلع کلکٹرس کو دے دی گئی ہے۔ اس سروے سے سطح غربت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔
ریاست کی تقسیم کے بعد تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور آندھرا پردیش میں تلگودیشم کی حکومت تشکیل پائی، تاہم دونوں ریاستوں کے چیف منسٹرس کے چندر شیکھر راؤ اور این چندرا بابو نائیڈو ایک دوسرے سے ملاقات کے لئے تیار نہیں تھے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف میڈیا اور جلسوں میں تنقید کرتے ہوئے اپنی اپنی ریاستوں کے عوام کی تائید حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ گورنر نرسمہن نے افطار پارٹی کے ذریعہ دونوں کو ملانے کی کوشش کی تھی، مگر چیف منسٹر تلنگانہ نے راج بھون کی افطار پارٹی سے خود کو دُور رکھا۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کے دورۂ حیدرآباد کے موقع پر مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے دونوں چیف منسٹرس کو بیگم پیٹ ایرپورٹ پہنچنے اور ایک دوسرے سے ملنے کی ترغیب دی۔ اس موقع پر دونوں چیف منسٹرس چندرا بابو نائیڈو اور کے چندر شیکھر راؤ نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا اور خوشگوار ماحول میں گفتگو کی۔ بعد ازاں گورنر نے راج بھون میں دونوں چیف منسٹرس کو طلب کیا اور دونوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ یعنی پہلی مرتبہ دونوں چیف منسٹرس نے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر دونوں ریاستوں کے مسائل حل کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے اتفاق کیا۔ اس اجلاس کے بعد دونوں نے اجلاس کو ثمرآور قرار دیتے ہوئے کہا کہ کئی مسائل پر خوشگوار انداز میں بات چیت ہوئی اور آئندہ بھی ملاقات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ریاست کی تقسیم کے بعد دونوں ریاستوں کے مسائل اور چیلنجس کو ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے، جب کہ اشتعال انگیزی اور ہٹ دھرمی سے دونوں ریاستوں کا نقصان ہوگا، لہذا سیاسی مفاد پس پشت ڈال کر مسائل کو صرف مسائل کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، تب ہی کسی مسئلہ کا حل برآمد ہوگا۔ مقامی (لوکل)، اسکالر شپس اور تعلیمی ادارہ جات میں داخلوں کے علاوہ برقی اور پانی کی تقسیم ایسے مسائل ہیں، جو صرف بات چیت کے ذریعہ حل ہوسکتے ہیں۔
آندھرا پردیش قانون ساز اسمبلی کا بجٹ سیشن جاری ہے۔ تلگودیشم حکومت نے اپنا پہلا بجٹ ایک لاکھ کروڑ سے زائد پیش کیا ہے۔ مالی بحران کے باوجود بھاری بجٹ پیش کرنا قابل ستائش اقدام ہے، مگر بجٹ میں اقلیتوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے صرف 370 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں، جو انتہائی کم اور ناکافی ہیں۔ غیر منقسم آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کے 9 سالہ دور حکومت میں اقلیتوں کا بجٹ صرف 36 کروڑ تک محدود تھا، جب کہ کانگریس کے دس سالہ دور حکومت میں یہ بجٹ 127 کروڑ تک پہنچ گیا اور اب چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے کابینہ کے اجلاس میں اقلیتی بجٹ کو 1000 کروڑ کرنے کی منظوری دی ہے۔ آندھرا پردیش کا اقلیتی بجٹ مایوس کن ہے، جب کہ چندرا بابو نائیڈو نے حیدرآباد میں منعقدہ علماء و مشائخ کے اجلاس میں ڈھائی ہزار کروڑ روپئے کے اقلیتی ڈکلیریشن کا اعلان کیا تھا، تاہم اقتدار حاصل ہونے کے بعد انھوں نے اقلیتوں کے لئے صرف 370 کروڑ روپئے مختص کیا۔ وہ اقلیتوں کے لئے اس سے زیادہ بجٹ مختص کرسکتے تھے، مگر انھوں نے اقلیتوں کو نظرانداز کردیا۔ واضح رہے کہ جب بھی تلگودیشم نے بی جے پی سے اتحاد کیا ہے، تلگودیشم پر زعفرانی رنگ غالب رہا۔ تلگودیشم کے 9 سالہ دور حکومت میں اقلیتی بجٹ صرف 36 کروڑ تھا، جب کہ ریاست کا مجموعی بجٹ 56 ہزار کروڑ تھا۔ اب جب کہ آندھرا پردیش کا مجموعی بجٹ ایک لاکھ کروڑ ہے تو اقلیتی بجٹ کو صرف 370 کروڑ تک محدود رکھا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو بی جے پی قیادت کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں سے منحرف ہو رہے ہیں۔