سرزمین دکن عظیم خطیب،مصباح القراء سے محروم

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری          خیر اللہ بیگ
ہندوستان اور برصغیر و عرب کی مایہ ناز علمی شخصیت مصباح القراء حضرت مولانا محمد عبداللہ قریشی الازہری کا خطبہ جمعہ یا ہر سال رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں نماز تراویح کے دوران روح پرور قرأت کلام کی سماعت کرتے ہوئے ایمان کی تازگی سے سرشار ہونے والے ہزاروں فرزندان توحیدگہرے دکھ اور صدمہ سے دوچار ہوگئے ہیں۔ مولانا کا سانحہ ارتحال علمی دنیا میں عظیم خلاء پیدا کرے گا۔ شہر حیدرآباد میں فنِ قرأت میں جداگانہ شناخت بنانے والی عظیم ہستی عالم، فاضل و صوفی سے محروم ہوگیا۔ مکہ مسجد سے تقریباً 30سال سے وابستگی کے علاوہ مخصوص لحن قرأت تجوید کے ذریعہ علم قرأت و تجوید کے مشن کو جاری و ساری رکھے ہوئے تھے۔ علالت کے باوجود انتقال سے چند ہفتے قبل بھی حضرت نے قرأت کا درس دیا تھا۔ اس لئے انہیں قرأت کی دنیا کا روشن چراغ قرار دیتے ہوئے ہزاروں معتقدین نے بہ دیدۂ نم آخری دیدار کیا۔ مکہ مسجد میں جہاں ان کی قرأت و لحن سے فضاء معطر ہوا کرتی تھی نماز جنازہ کے وقت یہی فضاء سوگوار دکھائی دے رہی تھی۔ عقیدتمندوں نے آنسوؤں کی جھڑی لگادی تھی۔فی زمانہ کھوکھلے وعظ اور تبلیغ والے خالی لوگ ملیں گے عشق کی عملی مثال اب ہمارے سامنے موجود دکھائی نہیں دے گی۔

مولانا کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کو دیکھ کر احساس ہوا کہ حیدرآباد کے مسلم معاشرہ میں ابھی بڑے بزرگوں کا احترام کرنے کا جذبہ برقرار ہے لیکن مسلم معاشرہ میں ایسے بھی لوگ ہیں جو پڑوسیوں کے جلوس جنازہ اور قبرستان تک جانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ یہ مسلم معاشرہ اتنا مصروف ہوتا جارہا ہے کہ نماز جنازہ میں شرکت کو بھی ایک فضول اور تضیع اوقات سمجھنے لگا ہے۔ کسی معاشرہ میں جب ’’ وٹامن بے حسی ‘‘ کی زیادتی ہوجائے تو ہڈیاں بھی مردار ہوجاتی ہیں اور پھر ایسے میں جہاں اخبارات میں تعزیتی پیامات دے کر کام چل جاتا ہے تو مسجد تک چل کر نماز جنازہ میں شرکت کرنے کی ضرور ت کیا ہے۔ مرحوم کے حق میں مغفرت کی دعا اخبار میں بیان شائع کرواکر بھی کی جاسکتی ہے، قبرستان تک جاکر وقت ضائع کیوں کیا جائے۔ان دنوں مرحومین کے ساتھ معاشرہ کے افراد کا رویہ اس افسوسناک حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ یہ قوم ’ وٹامن بے حسی‘ کی زیادتی کا شکار ہورہی ہے۔ خشک عقلوں والے یہ بنجر لوگ جب اپنے عقائد کی اُجاڑ زمین پر اپنی ہی سمجھ کا چھڑکاؤ کرتے ہیں تو پہلے سے ہی سم زدہ زمین پر خار دار جھاڑ کے سوا کچھ نہیں اُگے گا۔ نفسا نفسی کی اس گھڑی میں جہاں سبھی کو اپنی پڑی ہے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو مولانا عبداللہ قریشی الازہری کی نماز جنازہ میں شرکت کرنا اپنی عقیدت کا مضبوط اظہار تھا۔
1987ء سے 2006ء تک پابندی سے مکہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا مجھے بھی شرف حاصل ہوا تھا۔ حضرت خلیل اللہ شاہ قبلہ ؒ کے سانحہ ارتحال کے بعد حضرت انور اللہ شاہ صاحب ؒ نے پہلی صف میں اپنی موجودگی کے ساتھ روحانی کیفیت کو تازگی بخشی تو یہ سلسلہ بھی آپ کی رحلت تک جاری تھا۔ بعد نماز جمعہ مریدین اور عقیدتمندوں کو مصافحہ کا موقع دیتے تو امام و خطیب عبداللہ قریشی صاحب سے بھی مصافحہ کرنے والوں کا اژدھام فیض و برکات سے استفادہ کرکے گھروں کو واپس ہوتا تھا۔ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک روحانی یادداشتوں کے ساتھ روز مرہ زندگیوں کی اُلجھنوں میں مصروف لوگوں کو راحت مل ہی جاتی تھی جس کو پاکر اپنی تکالیف و تفکرات اور پریشانیوں سے چھٹکارا پالیتے۔ مولانا قریشی کے سانحہ ارتحال کے بعد اس خلا کا پُر ہونا مشکل ہے۔ مکہ مسجد کی تاریخی اہمیت کی صفوں سے کئی بزرگوں کے باب ایک کے بعد ایک بند ہوتے جارہے ہیں۔ دنیا بہت پریشان رہا کرتی ہے، اور اس دنیا سے دل لگانے والے بھی مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرتے آرہے ہیں۔ ایسے ہی مسائل سے دوچار انسانوں کو مولانا عبداللہ قریشی الازہری کثرت سے استغفار کی تلقین کرتے تھے۔

جس معاشرہ میں پازیب کی جھنکار سن کر لوگوں کو وجد آتا ہے تو مؤذن کی صدا ناکام کیوں ہوتی ہے یہ سوچنا ہوگا۔ مکہ مسجد میں عبادت گذاروں کے ہاتھ میں تسبیح کے دانے جب تک گردش کرتے رہتے ہیں ماحول میں مخصوص سرور پیدا ہوتا ہے۔ جو لوگ پابندی سے مکہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے عادی ہیں انہیں  یہ اندازہ ضرور ہوگا کہ یہاں آنے والی بزرگ ہستیوں کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ ان کے سامنے جب جلیل القدر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خوش اخلاق، ملنسار اور منکسرالمزاج بزرگ ہوں تو عبادتوں کا لطف دوبالا ہوتا ہے۔ قدرت نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے سرفراز فرمایا تھا مگر افسوس کہ حکومت وقت نے ہی انہیں ان کی بزرگی اور شخصیت کے مطابق پذیرائی نہیں کی۔ مگر حکومت تلنگانہ کی جانب سے خطیب اور امام مکہ مسجد کی اہمیت اور افادیت کو مخصوص نگاہی سے دیکھا جاتا تو ایک منفرد اقدام ہوتا۔ پیرانہ سالی کے باوجود وہ ایک طویل عرصہ تک تاریخی مکہ مسجد میں انتہائی منظم انداز میں امامت و خطابت کی ذمہ داری کو انجام دیا۔ رمضان المبارک میں نماز تراویح میں آپ کی تلاوت قرآن مجید سننے کیلئے دور دور سے مصلی حاضر ہوتے تھے۔ مخارج کی ادائیگی کی ستائش کی جاتی اور قرأت سن کر مصلیوں پر وجد طاری ہوجاتا تھا۔ جمعہ کا عربی خطبہ بھی فصاحت و بلاغت سے لبریز ہوتا اور وہ جب فلسطین کے مظلوم عوام کے بارے میں بیان کرتے تو آواز گلوگیر ہوجاتی۔ چیچنیا ، بوسنیا کے مسلمانوں کی حالت زارپرخداوند کریم کے رحم و کرم کی دعائیں کرتے۔

جب مکہ مسجد کو سیاسی ٹولیوں نے اپنے احتجاج، نعرہ بازی ، سنگباری کا مرکز بنایا تو نماز جمعہ کا سلام پھیرتے ہی مسجد کے باب الداخلہ سے نعروں کی آوازیں آنی شروع ہوتیں تو خطیب صاحب ’ استغفر اللہ ‘ کا ورد کرتے۔ نماز سے قبل وہ مصلیوں سے بارہا اپیل کرتے کہ وہ مسجد کے تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے نماز کے بعد پُرامن طریقہ سے گھروں کو واپس جائیں لیکن مقامی سیاسی جماعت کی ٹولیوں کو اپنے سیاسی آقاؤں کی ہدایت پر عمل کرنا ہوتا تو کسی بھی مسئلہ پر احتجاج کرنے کیلئے  چند برس تک مکہ مسجد کو ٹھکانہ بنایا گیا تو جس کے جواب میں پولیس فائرنگ کرتی، آنسو گیاس برساتی اور جوتوں سمیت مسجد کے صحن میں داخل ہوتی۔ ایک مرتبہ آنسو گیس کا شیل جب مسجد کے صحن میں گرا اور جائے نماز کو آگ لگی تو مصلیوں میں شدید برہمی پیدا ہوئی تھی لیکن خطیب صاحب نے پُرامن رہنے کی تلقین کی اور پولیس کے ظلم کا شکار بننے سے روکا۔ میں چونکہ ان برسوں میں نماز جمعہ کیلئے پابندی سے مکہ مسجد کی پہلی صف میں بیٹھنے کی کوشش کرتا تھا۔ مسجد کے باہر شور و غل ختم ہونے تک خطیب صاحب اور دیگر بزرگوں کے ہمراہ وہیں بیٹھے رہتے۔ جب سکون بحال ہوتا تو گھروں کو واپس ہوتے۔ مسجد کے باہر نکلنے پر پتہ چلتا کہ یہاں سنگباری اور پولیس کی فائرنگ اور آنسو گیس کے شل برسائے گئے، سڑکوں کو جنگ کا میدان بنادیا گیا۔کئی ہفتوںبلکہ مہینوں تک ہر جمعہ کو پولیس بندوبست کے نام پر مصلیوں کو ہراساں کرنے کاعمل اس مسجد سے پابندی وقت مصلیوں کو دور کرنے کا سبب بھی بنا، لیکن جو لوگ اپنے ارادوں کے پکے تھے ہر صورت میں مسجد کا رُخ کرتے تھے۔ پولیس فوٹو گرافی ہو یا خاردار تار کو پھلانگ کر مسجد میں داخل ہونے کی کیفیت سے گذرتے تھے۔ ان حالات میں بھی خطیب و امام مولانا عبداللہ قریشی الازہری نے خطبہ جمعہ اور نماز پرسکون انداز میں ادا کرتے اور مصلیوں کو ’’ استغفر اللہ ‘‘ یا پنجم کلمہ کا تین مرتبہ ورد کرواتے تھے تاکہ شہر کے حالات پُرامن ہوجائیں اور خدائے بزرگ و برتر کی ناراضگی دور ہوجائے۔بہر حال جب کمشنر پولیس کی حیثیت سے پرتاپ سنگھ اور ساؤتھ زون ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے اوما پتی تھے تو مکہ مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر شدید پولیس کارروائی ہوتی تھی جس کے بعد کمشنر پولیس کا تبادلہ کردیا گیا اور بعد کے دنوں میں حالات بتدریج بحال ہوگئے اور 18مئی 2007 کا مکہ مسجد بم دھماکہ اس تاریخی مسجد کے اندر پیش آنے والا سب سے زیادہ افسوسناک واقعہ تھا جس میں کئی مصلیان شہید ہوئے تھے اور مابعد دھماکہ پولیس فائرنگ میں کئی بے قصور مسلمان ہلاک ہوئے۔ ان تمام واقعات نے مولانا کو شدید صدمہ سے دوچار کردیا تھا لیکن وہ ایک عظیم خطیب ماہر ادیب ، عالم دین، تفسیر، حدیث، فقہ کلام کے بہتر استاد کے ساتھ ساتھ نہایت بامروت شخصیت تھے۔ ان کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج ان کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جائے گا۔ سرزمین دکن اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم شخصیت اور زبردست عالم سے محروم ہوگئی ہے۔ مکہ مسجد اور سرزمین دکن کے عوام کی نظروں کے سامنے وہ رہیں یا نہ رہیں ان کے خطبات اور ان کی خدمات کی یادیں ہر ایک کے دل کے قریب رہیں گی۔
kbaig92gmail.com