رشیدالدین
تلنگانہ اور آندھراپردیش میں پولیس کی جانب سے بربریت کے مظاہرے کے ساتھ ہی ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر سری کرشنا کمیٹی رپورٹ کا وہ حصہ نظروں میں گھوم گیا جس میں ریاست کی تقسیم کی صورت میں نکسلائیٹس اور فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں میں اضافہ کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ سری کرشنا کمیٹی نے لاء اینڈ آرڈر کے مسئلہ پر علحدہ خفیہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے امن و ضبط کی صورتحال میں ابتری کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
تلنگانہ کے ضلع نلگنڈہ اور آندھراپردیش کے ضلع چتور میں 7 اپریل کو ایک ہی دن میں دونوں ریاستوں کی پولیس نے جس طرح خون کی ہولی کھیلی اس سے سری کرشنا کمیٹی کے اندیشے درست ثابت ہوئے ہیں۔ ریاست کی تقسیم کو ابھی ایک سال مکمل بھی نہیں ہوا کہ قانون کے محافظ اور رکھوالے انسانی خون کے پیاسے بن گئے اور قانون شکن ثابت ہوئے۔ ظاہر ہے جب قانون کے محافظ ہی لاقانونیت پر اتر آئیں تو پھر سماج میں نراج کی کیفیت پیدا ہونا کوئی عجب نہیں۔ دونوں ریاستوں کی پولیس کی جانب سے ایک ہی دن اور تقریباً ایک ہی وقت میں کارروائی انجام دینا اپنے آپ میں کئی سوال کھڑے کرتا ہے اور اسے محض اتفاق کہا نہیں جاسکتا۔ پولیس کا کام ملزمین کو عدالت کے کٹہرے تک پہنچانا ہے نہ کہ سزا دینا لیکن یہاں خود پولیس نے اپنے اختیارات اور حدود سے تجاوز کرتے ہوئے جج اور عدالت کا کام کیا۔ خود ہی جرم ثابت کرتے ہوئے ملزمین کو سزا دیدی ۔ یوں تو ملک میں پولیس کے ہاتھوں اس طرح کی قانون شکنی کی اور بھی مثالیں موجود ہیں
لیکن مذکورہ دونوں واقعات نے سابقہ تمام واقعات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سری کرشنا کمیٹی نے تلنگانہ میں بطور خاص امن و ضبط کی صورتحال کے سلسلہ میں جن اندیشوں کا اظہار کیا تھا، اس کے مطابق ہی واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔ عوامی سطح پر نہیں بلکہ قانون اور عوام کے محافظین کی سطح پر بربریت اور سفاکی کا یہ مظاہرہ مزید تشویشناک اور صورتحال کی سنگینی کو ثابت کرتا ہے۔ تلنگانہ میں صرف ایک ہفتہ میں پولیس کے ہاتھوں اقلیتی طبقہ کو نشانہ بنانے کے 3 واقعات منظر عام پر آچکے ہیں اور ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے تلنگانہ میں کوئی عوامی منتخب حکومت نہیں بلکہ پولیس کی حکمرانی ہے اور حکومت اس کے زیر اثر ہے۔ کیا یہ وہی سنہرا تلنگانہ ہے جس کا خواب عوام کو دکھایا گیا تھا؟ ایسا تلنگانہ جس میں ترقی کے یکساں مواقع ، تمام طبقات اور مذاہب کے ساتھ مساوی سلوک کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ دونوں واقعات کے سلسلہ میں طویل مباحث یا تفصیلات کی اس لئے بھی ضرورت نہیں کیونکہ کسی بھی اعتبار سے پولیس کی کہانی کو درست تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آلیر میں ہوئی ہلاکتوں کو جائز قرار دینے کیلئے جو کہانی بنائی گئی، وہ حقیقی صورتحال سے ہرگز میل نہیں کھاتی۔ پولیس کی یہ کارروائی غیر قانونی تو ہے ہی ، ساتھ میں غیر انسانی اور قیدیوں کے ساتھ سلوک سے متعلق عالمی قوانین اور قواعد کے مغائر ہے۔ جس طرح انسانی حقوق تنظیموں اور عوام کی جانب سے آزادانہ اور غیر جانبدار تحقیقات کی مانگ کی جارہی ہے، حکومت ضابطہ کی تکمیل کے لئے کسی نہ کسی انداز کی تحقیقات کا ضرور اعلان کردے گی۔ اگرچہ واقعہ کی نوعیت اور ہلاکتوں کا انداز مزید کسی تحقیقات کا متقاضی نہیں ہے اور وہ مقام جہاں جرم کا ارتکاب کیا گیا Scene of affence، وہاں کا منظر اور وہاں موجود شواہد خود جرم کی طرف واضح اشارہ کر رہے ہیں۔ تاہم تحقیقات کے دائرہ کار یہ نہ ہوں کہ جرم کس نے کیا بلکہ اس بات کی جانچ ہونی چاہئے کہ کس کے حکم اور اشارہ پر یہ کارروائی کی گئی۔ ایسے زیر دریافت قیدی جو زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے مجبور اور بے بس تھے، ان پر اندھا دھند فائرنگ کا ڈائرکٹر و اسکرپٹ رائٹر کون ہے؟ کون ہے اس پردہ زنگاری میں جس نے اس خونی کھیل کی منصوبہ بندی کی۔ اس کارروائی کے درپردہ مقاصد کیا تھے؟ اس درندگی کے درپردہ عناصر اور ان کے عزائم کو بے نقاب کرنا تحقیقات کا اصل محور ہونا چاہئے تاکہ وہ عناصر بے نقاب ہوں جن کی نشاندہی سری کرشنا کمیٹی نے کی تھی۔
دونوں ریاستوں میں پولیس کارروائیوں کے بعد ایک اہم تبدیلی محسوس کی گئی۔ چتور میں 20 افراد کی ہلاکت کے بعد پہلے دن پولیس ، حکومت ، سرکاری میڈیا حتیٰ کہ غیر سرکاری آزاد میڈیا نے بھی مہلوکین کو سرخ صندل کے اسمگلرس قرار دیا لیکن انسانی حقوق کمیشن ، حقوق انسانی کی تنظیموں اور دوسرے گوشے سے زبردست دباؤ اور انکاؤنٹر پر شبہات کے اظہار کے بعد تمام نے اپنا موقف تبدیل کرلیا۔ پہلے دن جنہیں اسمگلرس کہا جارہا تھا، اب انہیں لکڑی کاٹنے والے کہا جارہا ہے۔ مہلوکین اسمگلرس سے اچانک لیبر میں تبدیل ہوگئے جبکہ آلیر کے واقعہ کے بعد سے آج تک پولیس ، سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا کی جانب سے مہلوکین کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے تاکہ پولیس کی اس بربریت کو درست ثابت کیا جاسکے۔ اتنا ہی نہیں میڈیا کے بعض گوشوں نے فرضی کہانیوں اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا الزام عائد کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ ابھی الزامات کا معاملہ عدالت میں زیر دوران ہے اور عدالت نے دہشت گردی کے الزامات پر اپنی مہر نہیں لگائی اور نہ ہی عدالت میں دہشت گرد سرگرمیوں کے ثبوت کی تصدیق کی، پھر کس طرح صرف الزامات پر کسی کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے؟ قانون کی رو سے جرم ثابت ہونے تک ملزم کو مجرم اور قصوروار نہیں کہا جاسکتا۔ چونکہ تلنگانہ میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مسلمان ہیں لہذا ہر کوئی جانبداری کے مظاہرے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ پولیس کی کارروائیاں جب انکاؤنٹر کہی جارہی ہیں تو مہلوکین کی شناخت کے اظہار میں یہ تضاد کیوں؟ میڈیا دیگر معاملات میں انویسٹیگیٹیو جرنلزم یعنی تحقیقی صحافت کی دہائی دیتا ہے لیکن مسلم نوجوانوں کے معاملہ میں اس سے گریز کیوں ؟ میڈیا کیوں پولیس کا ترجمان بن جاتا ہے اور پولیس کے سر میں وہ بھی بولی بولنے پر مجبور ہے؟
ملک میں ہندوتوا ایجنڈہ کی ترجمانی کے لئے شہرت رکھنے والے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ سبرامنیم سوامی بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں، لہذا ان کے لئے یہ کام اور بھی آسان ہوچکا ہے، وہ بی جے پی سے باہر رہتے ہوئے بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں۔ نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے جارحانہ فرقہ پرستی طاقتوں کی سرگرمیاں جس طرح بے لگام انداز میں جاری ہیں، اسی کا فائدہ اٹھاکر سبرامنیم سوامی نے نئی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا۔ ویراٹ ہندوستان سنگھم نامی تنظیم کے ذریعہ وہ ہندوتوا کے ایجنڈہ پر عمل آوری کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ جو کام آر ایس ایس اور اس کی محاذی تنظیمیں سرکاری سرپرستی میں انجام دینے سے قاصر ہیں، اس کا بیڑہ سبرامنیم سوامی نے اٹھایا ہے۔ اس تنظیم کے ایجنڈہ میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کو اولین ترجیح دی گئی۔ اس کے علاوہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ، گاؤ کشی پر امتناع اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی تنسیخ جیسے امور ایجنڈہ کا حصہ ہیں۔
سبرامنیم سوامی یکم جنوری 2016 ء سے رام مندر کی تعمیر کے حق میں مہم شروع کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سبرامنیم سوامی کو اچانک نئی تنظیم کے قیام کا خیال کیوں آیا ؟ جس طرح گزشتہ ایک سال میں نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف گرنے لگا ہے ، اس سے نہ صرف بی جے پی بلکہ سنگھ پریوار فکرمند ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر عوامی مقبولیت اسی تیزی کے ساتھ گھٹتی رہی تو آئندہ عام انتخابات میں اقتدار پر واپسی کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ لہذا سنگھ پریوار نے منصوبہ بند انداز میں سبرامنیم سوامی کو میدان میں اتارا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک طرف نریندر مودی ملک میں نفرت اور فرقہ پرستی کی سیاست اور اس سے مربوط سرگرمیوں پر قابو پانے کا دعویٰ کر رہے ہیں تو دوسری طرف سبرامنیم سوامی جیسے قائدین کو جیسے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ بابری مسجد کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے لہذا اس معاملہ میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ رہا سوال مسلمانوں کو متبادل اراضی کی فراہمی کا تو یہ اس لئے بھی ممکن نہیں کہ شرعی اعتبار سے جس مقام پر مسجد تعمیر ہوجائے، وہ تاقیامت مسجد برقرار رہتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سبرامنیم سوامی ہندوتوا ایجنڈہ کے ذریعہ بہار ، مغربی بنگال اور اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی انتخابی مہم کے آغاز کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس ایجنڈہ کے ذریعہ وہ مذکورہ تینوں ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے بی جے پی کے حق میں ہندوؤں کے ووٹ متحد کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ سبرامنیم سوامی کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو رائے دہی کے حق سے محروم کرنے کیلئے عدالت میں درخواست پیش کی تھی۔ دراصل اپنی دختر کی مسلمان شخص سے شادی سے برہم ہوکر شاید سبرامنیم سوامی نے مخالف مسلم ایجنڈہ کو اختیار کرلیا ہے۔ سبرامنیم سوامی کی اس مہم کا بی جے پی کو کتنا فائدہ ہوگا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن ریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہونے جارہے ہیں
، وہاں کے بی جے پی یونٹ خود مایوسی کا شکار ہیں۔ قومی سطح پر نریندر مودی حکومت کی عدم کارکردگی اور عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں ناکامی نے بی جے پی کیلئے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ نئی دہلی میں بی جے پی کی بدترین شکست کے بعد اسے دوبارہ اپنا موقف بحال کرنا آسان نہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کی خوشنودی کیلئے بعض غیر معروف اور نام نہاد مذہبی نما افراد کی وزیراعظم سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ اس ملاقات کے اہتمام کا مقصد مسلمانوں میں جو تاثر دینا ہے وہ یہ کہ حکومت کی کارکردگی سے مسلمان مطمئن ہیں اور نریندر مودی نے مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں جو وعدے کئے تھے، ان پر عمل کیا جائے گا۔ نریندر مودی بھلے ہی اس طرح کے نقلی اور فرضی مذہبی رہنماؤں سے لاکھ ملاقاتیں کرلیں لیکن وہ مسلمانوں کا دل ہرگز جیت نہیں پائیں گے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے وابستہ بعض قائدین نریندر مودی سے ملاقات کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ملاقات طئے ہوجائے جس کے لئے نریندر مودی کے قریبی صنعت کار سرگرداں ہیں۔ بھلے ہی پرسنل لا بورڈ کی اصل قیادت مودی سے ملاقات نہ کرے لیکن بورڈ سے وابستہ چند افراد کو مودی کے دربار میں پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جائے گی کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی مرضی سے یہ ملاقات ہورہی ہے۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ میں پولیس کی بربریت پر شہود عالم آفاقی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
جھوٹ ہے سب آئے تھے فسادی
سب یہ کرشمے ورد