سب یہی کہتے ہیں میں ہوں دوسرا کوئی نہیں

رشیدالدین

ملک میں عام انتخابات کا بگل بجتے ہی سیاسی پارٹیاں اور عوام الیکشن موڈ میں آچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 16 ویں لوک سبھا کیلئے 9 مراحل پر مبنی رائے دہی کا اعلان کیا ہے اور تمام مراحل 36 دن میں مکمل ہوں گے ۔ دنیا میں جمہوری طرز انتخابات کا یہ سب سے طویل اور وسیع عمل ہے جس پر ہر ہندوستانی کو ناز ہے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک اسے حیرت اور رشک سے دیکھتے ہیں۔ 81 کروڑ 45 لاکھ رائے دہندے ملک کی 28 ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں قائم کئے جانے والے 9 لاکھ 30 ہزار پولنگ بوتھ پر حق رائے دہی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی پسند کے امیدواروں کو اپنے نمائندوں کی حیثیت سے چنیں گے ۔ 18 لاکھ 78 ہزار 306 الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جائے گا ۔ ملک کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب رائے دہندے کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ تمام امیدواروں کو مسترد کردے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک میں 10 کروڑ نئے رائے دہندوں کا اضافہ ہوا ہے جو 2009 ء کے چناؤ کے بعد انتخابی فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں اکثریت 18 تا 19 برس والوں کی ہے جو پہلی مرتبہ انتخابی عمل میں شریک ہوں گے ۔

مجموعی رائے دہندوں میں 2.88 فیصد کا تعلق 18 تا 19 برس کے نوجوان رائے دہندوں کا ہے جبکہ 15 ویں لوک سبھا کے چناؤ میں وہ 0.75 فیصد تھے ۔ لوک سبھا کے ساتھ آندھراپردیش ، اڈیشہ اور سکم اسمبلیوں کیلئے بھی چناؤ ہوں گے اور نتائج کے اعلان کے بعد آندھراپردیش دو ریاستوں میں منقسم ہوجائے گی۔ اگرچہ ملک کے رائے دہندوں نے ابھی تک 15 لوک سبھا کو منتخب کیا لیکن 16 ویں لوک سبھا کے چناؤ ہر اعتبار سے جداگانہ نوعیت اور اہمیت کے حامل ہیں۔ عوام کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ دور رس اثرات کا حامل ہوگا۔ یوں تو سابق کی طرح اس بار بھی وہی سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں زور آزمائی کر رہی ہیں لیکن 2014 ء عام انتخابات کو بجا طور پر دو نظریات کا مقابلہ کہا جاسکتا ہے۔ سیکولرازم ، مذہبی رواداری اور تمام مذاہب کے ساتھ سماجی انصاف کا مقابلہ فرقہ پرست طاقتوں سے ہے جو ترقی اور مضبوط اور مستحکم حکومت کے نعرے کے ساتھ اپنی حقیقت کو عوام سے چھپاتے ہوئے میدان میں ہے اور روزانہ رائے دہندوں کو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں۔ رائے دہندوں کو اب یہ طئے کرنا ہے کہ وہ کس طرح کا ہندوستان چاہتے ہیں۔ عوام کو یہ بھی طئے کرنا ہے کہ آیا ملک میں دستور و قانون کی بالادستی ہونی چاہئے، جمہوریت اور جمہوری اقدار مستحکم ہوں یا پھر مذہب اور ذات پات کے نام پر نفرت کا کاروبار چلتا رہے۔ کیا قانون اور دستور کی حکمرانی کے بجائے فرقہ پرست جنونیوں کا راج ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ ملک کے رائے دہندے باشعورہیں اور وہ یقیناً دانشمندانہ فیصلہ دیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود کو سیکولر قرار دینے والی جماعتیں کس حد تک مستحکم ہیں اور فرقہ پرستی کے سیلاب کو کس طرح روک پائیں گی۔

عام انتخابات ایک طرف کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کی کارکردگی پر ریفرنڈم ہیں تو دوسری طرف وزیراعظم کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی کارکردگی پر بھی عوام اپنی رائے دیںگے ۔ انتخابی نتائج مستقبل میں ملک کی نئی راہوں کا تعین کریں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یو پی اے کے 10 سالہ دور میں مہنگائی ، کرپشن ، اسکامس اور کمزور حکمرانی نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی کے کئی حلیفوں نے ساتھ چھوڑ کر نیا راستہ تلاش کرلیا۔ حکومت کی عدم کارکردگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ کانگریس انتخابی مہم میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اور ان کے کارناموں کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کے موقف میں نہیں ہے۔ حکومت کی کارکردگی سے زیادہ نئے وعدوں کے ساتھ کانگریس رائے دہندوں کا دل جیتنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی نے ہندوتوا کی علامت اور سنگھ پریوار کے پروردہ نریندر مودی کو نہ صرف وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر پیش کیا بلکہ یو پی اے حکومت کی ناکامیوں کو انتخابی موضوع بنایا ہے۔ گجرات فسادات کے آرکیٹکٹ نریندر مودی کی زبان سے ترقی اور مساوی انصاف کی باتیں خود انہیں منہ چڑا رہی ہیں۔ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے جس شخص نے گجرات فسادات کو گودھرا واقعہ کا ردعمل قرار دیا تھا

اور پولیس کو ہدایت دی تھی کہ فسادیوں کو کھلی چھوٹ دی جائے، آج وہی نریندر مودی وزیراعظم کی کرسی کیلئے سیکولرازم کا نقاب اوڑھ چکے ہیں۔ وزارت عظمی کیلئے انہوں نے اڈوانی کے بجائے واجپائی کے ایجنڈہ کو اختیار کیا۔ حالانکہ حقیقی چہرہ تو کرسی پر فائز ہونے کے بعد ہی آشکار ہوگا۔ جس شخص نے گجرات فسادات کیلئے معذرت خواہی سے انکار کیا، جس کے نزدیک مسلمان کسی جانور کے بچے کے برابر ہے، انہیں وزیراعظم کی کرسی پر فائز کرنے پارٹی صدر راج ناتھ سنگھ نے مسلمانوں سے معذرت خواہی کی پیشکش کی ہے ۔ سوال ابھی بھی برقرار ہے کہ جس نے غلطی کی وہ تو نادم نہیں اور نہ ہی معذرت خواہی کو تیار ہے، پھر پارٹی ان کی جانب سے معذرت خواہی کیوں کر رہی ہے۔ بی جے پی کی معذرت خواہی کی اصلیت تو اس وقت بے نقاب ہوگئی جب کلیان سنگھ کو جن کی حکومت کے دوران بابری مسجد شہید کی گئی تھی، انہیں نہ صرف پارٹی میں شامل کیا گیا بلکہ اہم عہدہ دیا گیا ہے۔ عام انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں اس لئے بھی ہے کہ گجرات فسادات کے ذمہ دار جس شخص کو امریکہ نے ویزا دینے سے انکار کیا، اسے پارٹی نے وزارت عظمی کا امیدوار بنادیا ہے۔ افسوس کہ بی جے پی اور اس کے وزارت عظمی امیدوار سے مقابلہ کیلئے کانگریس کے پاس نہ ہی کوئی عوامی پرکشش شخصیت ہیں اور نہ ہی حکمت عملی۔ شکست کے خوف سے کانگریس ، راہول گاندھی کو وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے میں پس و پیش کر رہی ہے۔ انتخابات میں اکثریت کے حصول کی صورت میں راہول کو وزیراعظم بنانے کی منصوبہ بندی کے ساتھ کانگریس آگے بڑھ رہی ہے ۔ ویسے بھی کانگریس پارٹی کا سیکولرازم اپنا وزن اور اعتبار کھونے لگا ہے۔ کانگریس کا سیکولرازم کا نعرہ خود اس کے قائدین کی زبان تک محدود ہے اور حلق سے نیچا نہیں اترتا۔ کانگریس کے دور اقتدار کے مسلم کش فسادات کی ایک طویل داستاں لکھی جاسکتی ہے۔

کانگریس کی کمزور اور ناقص حکمرانی کے نتیجہ میں اس کے کئی حلیف ساتھ چھوڑ کر چلے گئے اور تیسرے محاذ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ کمیونسٹ جماعتوں کی زیر قیادت محاذ میں ابتداء میں 11 پارٹیوں کے نام تھے لیکن قیام کے وقت تعداد گھٹ کر 9 ہوگئی ۔ پھر کچھ دن بعد جیہ للیتا نے بھی تیسرے محاذ سے دوری اختیار کرلی۔ جن توقعات کے ساتھ یہ محاذ قائم کیا گیا تھا، انتخابات سے قبل ہی وہ کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس محاذ میں فی الوقت بائیں بازو کی چار پارٹیوں کے علاوہ اہم جماعتوں میں جنتا دل یونائٹیڈ اور سماج وادی پارٹی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں وزارت عظمیٰ کے خواہشمند موجود ہیں۔ سماج وادی پارٹی سے ملائم سنگھ یادو اور جنتا دل یونائٹیڈ سے نتیش کمار کی نظریں وزارت عظمی کی کرسی پر ہیں۔ نتیش کمار نے تو یہ کہتے ہوئے اپنی دعویداری کو مضبوط کرنے کی کوشش کی کہ راہول گاندھی کبھی حکومت میں شامل نہیں رہے لہذا انہیں حکومت چلانے کا تجربہ نہیں۔ اسی طرح نریندر مودی کبھی پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہوئے لہذا وہ بھی اس عہدہ کیلئے نااہل ہیں جبکہ وہ (نتیش کمار) حکومت چلانے اور پارلیمنٹ دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ بعض علاقائی جماعتوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں انفرادی شناخت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تیسرے محاذ میں شامل جماعتوں کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔ اگر ایک پارٹی محاذ میں شامل ہو تو اس کی حریف جماعت دوسرے سہارے کی تلاش پر مجبور ہے۔ زائد نشستوں کے حصول کے لالچ نے سیاسی صف بندیوں میں اصول کی جگہ موقع پرستی کو اختیار کرلیا۔ بائیں بازو جماعتوں سے قریب رہنے والے لالو پرساد نے کانگریس کی کشش میں سوار ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کے حریف نتیش کمار تیسرے محاذ میں شامل ہوگئے۔ حالانکہ وہ کل تک بی جے پی کے ساتھ تھے۔ ممتا بنرجی کسی نے محاذ میں شریک نہیں ہوسکتیں جس میں کمیونسٹ جماعتیں ہوں ۔

ڈی ایم کے جو یو پی اے حکومت میں شامل تھی، اب بی جے پی سے قریب دکھائی دے رہی ہے۔ گجرات فسادات کے مسئلہ پر این ڈی اے چھوڑنے والے رام ولاس پاسوان نے بی جے پی سے اتحاد کرلیا اور فسادات کے ذمہ دار شخص کو وزیراعظم بنانے کی مہم میں شامل ہوگئے۔ این ٹی راما راؤ کی دختر پرندیشوری جو کانگریس کے ٹکٹ پر دو مرتبہ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئیں اور مرکزی وزارت میں شامل تھیں ، انہوں نے بی جے پی کا دامن تھام لیا ۔ این ٹی راما راؤ اور چندرا بابو نائیڈو بھی بی جے پی کے حلیف رہ چکے ہیں ۔ الغرض این ٹی آر خاندان کی بی جے پی سے قربت کوئی نئی بات نہیں۔ بعض اہم علاقائی جماعتوں نے ابھی کسی محاذ کا رخ نہیں کیا جن میں بیجو جنتا دل ، ترنمول کانگریس ، انا ڈی ایم کے ، تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس شامل ہیں۔ کمیونسٹ جماعتوں کی کمزوری کے باعث وہ طاقتور محاذ کے قیام میں اہم رول ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ کیرالا اور مغربی بنگال میں شکست سے سبق لیتے ہوئے انہیں اپنے نظریات کو تبدیل کرتے ہوئے خود کو حالات سے ہم آہنگ کرنا چاہئے تھا لیکن کمیونسٹ جماعتیں ابھی بھی خود کو بدلنے تیار نہیں۔ ان جماعتوں کے پاس قومی طرز کی قیادت کی کمی ہے جو دوسری جماعتوں کیلئے قابل قبول ہو۔ اب جبکہ بیشتر انتخابی سروے معلق پارلیمنٹ کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں، لہذا کم از کم انتخابات کے بعد سیکولر جماعتوں کو متحد ہوکر فرقہ پرستوں کو اقتدار سے روکنے کی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے ۔ راجیو گاندھی کے بعد سے ملک میں مخلوط حکومتوں کا دور چل پڑا ہے اور پتہ نہیں یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مہم اور قائدین کے دعوؤں پر علی احمد جلیلی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
سب یہی کہتے ہیں میں ہوں دوسرا کوئی نہیں
اس صدی کا اس سے بڑھ کر حادثہ کوئی نہیں