پی چدمبرم
زبردست خط ِ اعتماد یا مینڈیٹ ہمیشہ خیر کی بات نہیں ہوتی، کمزور اور منتشر اپوزیشن حکومت کی ذمہ داری کو مزید گراں بنادیتی ہیں اور متواتر دوسری میعاد حکمرانوں کو حیلے بہانوں سے محروم کردیتی ہے۔ مجھے یقین ہے وزیراعظم نریندر مودی عوام کی بہت ساری توقعات اور اُن کی مجلس وزراء پر عائد ہونے والے بھاری بوجھ سے بخوبی واقف ہیں۔ اُن کی پہلی میعاد کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے وہ اس چیلنج کو پورا کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس راہ میں دو مسائل ہیں۔ پہلا، ہندوستان میں کاموں کی انجام دہی کو روایتی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ دوسرا، عوام کے مختلف طبقات کے مسابقتی دعوے جن میں غریب ترین، کمزور ترین، سب سے زیادہ محروم اور استحصال کے شکار اور پستی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی آوازیں ہمیشہ ہی اٹھتی رہتی ہیں۔ ہمارا تجربہ رہا ہے کہ پہلی میعاد کے ختم پر اول تو روایتی طریقوں نے مزید وقت اور اعزازی ذمہ داری بڑھا دی ہے اور دوم یہ کہ غریب ترین، کمزور ترین، محروم اور استحصال کے شکار بدستور غریب، کمزور، محروم اور استحصال کا شکار ہیں۔
اپنی دوسری میعاد میں مسٹر مودی کو ضرور روایتی طریقوں کو ترک کردینا چاہئے۔ مسٹر اروند پناگریا (مسٹر مودی کے دوست) اور مسٹر وینکٹیش کمار نے ان طریقوں کو یوں بیان کیا ہے: ’’اُن کی (مسٹر مودی کی) حکمرانی کا ایک کلیدی عنصر سکریٹریز کے متعدد گروپوں کا تقرر رہا، جن میں ہر گروپ کو معیشت کے اہم شعبوں میں آنے والے سال میں عمل آوری والے پراجکٹوں، پروگراموں اور پالیسیوں کے بارے میں خاکے تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی… ان کو جیسے ہی قطعیت دے دی جائے، یہ پریزنٹیشن آنے والے سال میں بڑے شعبوں کیلئے روڈ میاپ بن گئے۔‘‘ پھر مصنفین متنبہ کرتے ہیں: ’’مگر جب بنیادی اصلاحات کا معاملہ پیش آیا، اس طریقہ کے منفی پہلو ظاہر ہوئے۔ بیوروکریٹس فطرتاً محتاط ہوتے ہیں اور پراجکٹس اور پروگرامس کے حق میں اُن کا رویہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ پالیسی میں تبدیلیوں کی تجویز پیش کرتے ہیں، وہ بتدریج عمل پر یقین رکھتے ہیں اور روایتی حدود سے شاذونادر آگے بڑھتے ہیں۔‘‘ میں ان سے پوری طرح متفق ہوں۔ تاہم، میں ان کے متبادل طریقہ کار سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں۔ گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کچھ مختلف نہیں ہے۔ متبادل ماڈل میں مشن ہیڈ نے منسٹر کی جگہ لے لی ہے، اڈوائزر نے سکریٹری کی ذمہ داری سنبھال لی اور نوجوان پروفیشنلز کو جوائنٹ سکریٹری اور اس کی ٹیم کی جگہ دے دی گئی ہے۔
اس کے نتائج کچھ مختلف نہ ہوں گے جیسا کہ سوچھ بھارت یا اُجوالا کے نتیجوں سے تصدیق ہوتی ہے۔ سوچھ بھارت کے معاملے میں تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں کوئی ریاست کھلی جگہ میں رفع حاجت کے قدیم رواج سے آزاد نہیں ہے۔ جو بھی ٹائلٹس بنائے گئے ہیں، اُن کا کتنا تناسب غیرمستعمل یا ناقابل استعمال ہے؟ اُجوالا کے معاملے میں کامیابی یا ناکامی کا ثبوت ایک سال میں استفادہ کنندہ کی جانب سے خریدی جانے والی پکوان گیس (کے سلنڈروں) کی اوسط تعداد ہے: کیا یہ مایوس کن 3 یا بہت بڑی اوسط تعداد 8 ہے؟ آپ کو جواب معلوم ہے جیسا کہ مجھے ہے۔
بنیادی سطح کی اصلاحات صرف بنیادی پالیسیوں اور کچھ عملی رکاوٹ کے ذریعے ہی روبہ عمل لائی جاسکتی ہیں۔ 1991-96ء میں ہم نے معاشی اہمیت کی مختلف رہنما سرکاری کتابوں کو بالائے طاق رکھا اور بیرونی تجارت کو بڑے پیمانے پر بدلا۔ ہم نے فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ کو طاق پر رکھ دیا جس کے بعد بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر بڑھتے گئے۔ ہم نے انڈسٹریل لائسنسنگ کو ختم کیا اور پھر چھوٹے صنعتکاروں کی نئی نسل اُبھر آئی۔ مسٹر مودی کو کچھ اسی طرح کی کوششیں تعلیم، نگہداشت صحت، اور دیہی سڑکوں اور حمل و نقل کے شعبوں میں ضرور کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر اسکولی تعلیم میں وہ کانگریس منشور سے آئیڈیا اختیار کرسکتے ہیں اور اس موضوع (معاملہ) کو ریاستوں کی فہرست میں منتقل کردیا جائے، ریاستوں کو رقم دی جائے اور انھیں تجربے، اختراع اور مسابقت کی آزادی بھی دی جائے۔ عوام ریاستی حکومتوں سے نتائج کا تقاضہ کریں گے، اور کچھ مدت میں نتائج پالیں گے۔
کلیدی نظریہ اور جو سب سے زیادہ مزاحم ہوگا وہ حکمرانی میں غیرمرکوزیت لانا ہے۔ مختصر مدتی نتائج بھلے ہی غیراطمینان بخش ہوں لیکن اوسط تا طویل مدت میں بہتر حکمرانی والی ریاستیں موجودہ صورتحال کے مقابل بہتر نتائج پیش کریں گی اور اس کے نتیجے میں عوام ریاستی سطح پر بہتر حکمرانی کا تقاضہ کرنے لگیں گے۔ حکمرانی کو غیرمرکوز کرنے سے جن شعبوں میں بہت فائدہ ہوگا، وہ ابتدائی اور ثانوی نگہداشت صحت، پینے کا پانی، صاف صفائی، قابل تجدید توانائی، برقی کی تقسیم وغیرہ ہیں۔
دوسرا طاقتور چیلنج ’غریبوں میں غریب ترین‘ ہے۔ چونکہ وہ سب سے غریب ہیں، اس لئے وہ خواندگی، صحت، امکنہ، صاف صفائی، غذا اور پانی کی کھپت، اور سرکاری اشیاء اور خدمات تک رسائی کے پیمانے میں بہت نیچے بھی ہوتے ہیں۔ کسی گاؤں چلے جائیں اور آپ انھیں گاؤں کے کونے کونے میں پائیں گے۔ غریب تر ریاستوں میں آپ دیکھیں گے کہ سارے دیہات اُن ہی سے بھرے ہیں۔ اسے تسلیم کرلیں، گزرتے برسوں اور گزرتی متواتر حکومتوں کے ذریعے ترقیاتی عمل نے ہندوستان کے 20 فیصد غریب ترین افراد کو یونہی چھوڑ دیا ہے۔ وزراء اور عہدیداران جو دیہات کا دورہ کرتے ہیں، وہ بڑی سڑک پر رُک جاتے ہیں یا روک دیئے جاتے ہیں۔ غریب ترین تک رسائی حاصل کرنے اور اُن کی مدد کرنے کا واحد راستہ انھیں اپنی آپ مدد کرنے کے قابل بنائیے… جوت جلائیں، اسے اُن کے دلوں اور گھروں کو گرمانے دیجئے ، اور انھیں غربت کی جکڑ سے نکل کر خود کو اُبھرنے کا موقع دیں۔ پی ایم۔ کسان یوجنا کی اُن تک رسائی نہیں ہوگی کیونکہ بہت تھوڑے ہی کچھ زمین رکھتے ہیں، ان کی اکثریت زرعی مزدور ہے اور ان کی نمایاں تعداد قصبات اور شہروں میں رہتی ہے۔ پالیسی میں خلاف معمول تبدیلی رقم کی راست منتقلی کے ذریعے بنیادی آمدنی ہوگی۔ مسٹر مودی اس آئیڈیا کو ڈاکٹر اروند سبرامنیم سے منسوب کرسکتے ہیں اور انھیں اس محکمہ کی سربراہی کیلئے طلب کرسکتے ہیں تاکہ اس اسکیم کی ترتیب دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد کیا جاسکے۔
اگر ہم یونہی سالانہ 6-7 فیصد شرح ترقی کے ساتھ رینگتے رہیں تو کچھ زیادہ تبدیل ہونے والا نہیں۔ اگر ہم موجودہ پالیسیوں میں ردوبدل، موجودہ قوانین میں ترمیم یا انتظامی نظاموں میں کچھ بدلاؤ بھی کرتے ہیں تو کچھ خاص تبدیلی آنے والی نہیں۔ عہدیداروں کو غیرمعمولی اختیارات سونپ دینے یا عوام کو مقدمہ اور قید سے دھمکانے سے بھی کچھ تبدیلی آنے والی نہیں۔ کسی بھی جمہوریت میں انقلاب پذیر بدلاؤ کا واحد سب سے مؤثر طریقہ عوام کو بااختیار بنانا اور اُن کی اجتماعی ذہانت اور قابلیت پر بھروسہ جتانا ہے۔