سازگار ہوگا یا پھر وقت یا نہیں ہوگا اب تو جو بھی ہونا ہے فیصلہ یہیں ہوگا

یسین احمد
مصحف اقبال توصیفی کا کلام میں نے پڑھا ہے اور سنا بھی ہے لیکن ان کا کوئی شعری مجموعہ میرے پاس نہیں ہے ۔ جو بھی کلام پڑھا ہے وہ مختلف رسائل میں شائع ہوا تھا ۔ اب نثری تحریر میرے ہاتھ میں آئی تو مسرت کا احساس ہوا ۔ قمر جمالی صاحبہ کے گھر پر ایک مختصر سی ادبی نشست میں میں بھی مدعو تھا ۔ وہیں توصیفی کے مضامین کا مجموعہ کچھ نثر میں بھی ملا ۔ سرسری طور پر اوراق الٹایا تو اشتیاق بڑھ گیا ۔ واپسی میں میں ایک آئسکریم پارلر میں کچھ دیر کے لئے رکا تھا وہیں میں نے کتاب کا مطالعہ شروع کیا ۔ اس وقت میرے سامنے آئسکریم تھی لیکن جب کتاب پڑھنا شروع کیا تو مجھ پر ایسی محویت طاری ہوئی کہ آئسکریم کھانا بھول گیا ۔ میرے لئے آئسکریم سے زیادہ لذیذ کتاب کے مضامین ثابت ہوئے ۔زیر مطالعہ کتاب میں مضامین ، تنقیدی جائزے اور انٹرویو شامل ہیں ۔ یہ ساری چیزیں مختلف رسائل میں شائع ہوئی ہیں یا مختلف جلسوں میں پڑھی گئی ہیں لیکن جب گل بکھرے بکھرے ہوں تو اس کی جاذبیت اور دلکشی محدود سی محسوس ہوتی ہے اور یہی گل سمیٹ کر یکجا ہوجائیں تو ان کی دلکشی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ یہی حال مذکرہ کتاب کا ہے ۔

توصیفی نے کئی مضامین بڑی دردمندی کے ساتھ ضبط تحریر لائے ہیں۔ خصوصاً مخدوم محی الدین ، بات پھولوں کی ۔ مغنی تبسم کی یاد میں ، احمد ہمش میری کچھ یادیں اور طیب انصاری جو بادہ کش تھے ۔ یہ ایسی شخصیتیں ہیں جن کی جدائی کا احساس نہ صرف حیدرآباد بلکہ سارے اردو ادب کے پڑھنے لکھنے والوں نے شدید طورپر محسوس کیا ہوگا ۔ مخدوم محی الدین کے بارے میں توصیفی نے سچ ہی لکھا ہے کہ وہ (مخدوم) تاملناڈو کے کسی شہر یا گاؤں میں پیدا ہوتے تو MGR کی طرح لوگ گھروں میں ان کی پوجا کرتے ۔ مخدوم جیسا بانکا سجیلا شاعر دوبارہ اردو ادب کو نصیب نہیں ہوگا ۔ مغنی تبسم شہر حیدرآباد کی ہر دل عزیز شخصیت تھے ۔ بحیثیت نقاد ، محقق اور شاعر مغنی تبسم نے اردو کو بہت کچھ دیا ہے ۔ توصیفی لکھتے ہیں کہ ’’مغنی صاحب کی شخصیت بڑی پہلودار تھی ۔ مغنی کی شخصیت کے بظاہر متضاد پہلوؤں میں ایک باہمی ربط تھا ۔ ممکن ہے بعض اوقات بعض حالات میں کچھ لوگوں کو مغنی بے رحم اور سفاک نظر آئیں لیکن مغنی ایسے نہیں تھے ۔ نرمی ، شفقت اور محبتوںکا ایک دریا جو ان کے اندر موجزن تھا ، مغنی کے ذرا قریب بیٹھنے والے اپنے شانے کو چھوتی ہوئی ہواؤں میں اس دریا سے اٹھنے والی موجوں کی نمی بہ آسانی محسوس کرسکتے تھے‘‘ ۔ حسن عسکری ، چند ملاقاتیں یہ دوسرے مضمون کا عنوان ہے ۔ مضمون مختصر ہے شاید اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ مصحف اقبال توصیفی ان سے کم کم ملے ۔ حسن عسکری کی شخصیت کا مفصل جائزہ نہیں لے سکے ۔ بہرحال عسکری کے سنگ بیتی چند گھڑیوں کا ذکر ان کی شخصیت اور فن کے بارے میں مختصراً بیان کرنے پر ہی اکتفا کیا ۔
کتاب کے تیسرے اور چوتھے مضامین میں نرمل جی اور احمد ہمش کا ذکر آیا ہے ۔ نرمل جی ہندی کے شاعر تھے ۔ ساری زندگی چلچلاتی دھوپ میں جھلستے رہے اور حلق کا کینسر موت کا سبب بنا ۔ احمد ہمش پاکستان سے لوٹے تھے یہاں بسنے کی کوشش کی ۔ لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ احمد ہمش کی ایک طویل رفاقت توصیفی کو ملی تھی بہت سا خلوص اور پیار ایک دوسرے کو بانٹا اور جب بچھڑے تو پھر نہ ملے ۔ احمد ہمش کا انتقال کراچی میں ہوا ۔ توصیفی نے ان دونوں پر جو مضمون لکھا ہے اس میں ایک دبی دبی سی آنچ پنہاں ہے جو قاری کے دل کو بھی جلاتی ہے ۔ طیب انصاری پر جو مضمون توصیفی نے لکھا مختصر ہے ۔ مضمون کی شروعات بھی طیب انصاری کے انتقال کی خبر سے ہوتی ہے ۔ توصیفی نے لکھا ہے طیب انصاری نہ صرف شگفتہ مزاج تھے بلکہ قدرت نے بے لوث جذبہ خلوص ودیعت کررکھا تھا ۔ فانی کے مندرجہ ذیل شعر پر توصیفی نے اپنا مضمون ختم کیا ہے ۔

نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم
تعزیتی مضامین کے بعد توصیفی نے تنقیدی جائزہ پیش کئے ہیں جن کی تعداد گیارہ ہے ۔ توصیفی کا منفرد انداز تحریر نے تنقیدی جائزوں میں ایسی تازگی اور توانائی بخشی ہے وہ دیرپا ثابت ہوگی ۔ چاہے وہ شاذ تمکنت کی شاعری ہو یا عابد سہیل کے خاکوں کا مجموعہ کھلی کتاب ۔ مجتبیٰ حسین کی تحریروں کا مجموعہ ہو یا زبیر رضوی کی لہر لہر ندیا گہری ۔ راشد آذر کا قرض جاں ہو یا علی باقر کی افسانہ نگاری ، علی ظہیر کی موج صد رنگ یا پھر محسن جلگانوی کا تھوڑا سا آسمان زمیں پر ۔ اکرم نقاش کی حشر سی برسات ہو یا پھر اسلام عمادی کی ادبی گفتگو یا پھر غزل کے رنگ ۔

کتاب کے اگلے مضمون پر نظر پڑتے ہی مجھ کو بے ساختہ دو شعر یاد آگئے ۔
بزم عشق و عشرت میں کیا کسی نے سوچا تھا
وقت توڑ دیتا ہے عشق کا خمار آخر

یہ دونوں شعر شفیق فاطمہ شعریٰ کے ہیں ۔ توصیفی نے اگلے مضمون میں شفیق فاطمہ کے بارے میں لکھا ہے دراصل یہ مضمون نہیں انٹرویو ہے جو سوغات (بنگلور) کے مدیر محمود ایاز (مرحوم) کی خواہش پر توصیفی نے لکھا تھا ۔ شفیق فاطمہ منفرد لب و لہجے کی شاعرہ تھیں لیکن ان کو ادب میں وہ مقام و مرتبہ نہیں ملا جس کی وہ مستحق تھیں ۔ عالباً اس کی وجہ ان کی بھاری بھرکم شاعری تھی ۔ حمید نسیم (مرحوم) نے شفیق فاطمہ شعریٰ کے کلام کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب تک ہمارے جدید شعراء میں راشد سب سے مشکل گو شاعر مانے جاتے ہیں مگر شعریٰ کا کلام میں نے دیکھا تو راشد بہت آسان نظر آنے لگی ۔ توصیفی کے اس انٹرویو نے شفیق فاطمہ کی زندگی کے شخصی و فنی گوشوں کو نہایت ہی اسلوبی سے اجاگر کیا ہے ۔ یہ ایک طویل انٹرویو ہے مگر دلچسپ ہے ۔ یہ تحریر یادگار ثابت ہوگی ۔

غالب سمینار 2006 میں توصیفی نے ایک مضمون بعنوان ’غالب کی شاعری کے چند پہلو‘ پڑھا تھا جو اس کتاب میں شامل ہے بچپن ہی سے توصیفی کو غالب کی شاعری سے رغبت رہی حالانکہ ابتداء میں وہ غالب کی فارسی آمیز زبان کو ہضم نہیں کرسکے لیکن رفتہ رفتہ غالب کی دل نشین شاعری توصیفی کے دل میں گھر کرتی گئی ۔ مضمون میں غالب کے بہت سے اشعار بھی پیش کئے ہیں جو مضمون کی لطافت میں اضافہ کرتے ہیں ۔ آخر میں توصیفی کی نظم ’’لالہ صحرا‘‘ تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ اقبال ایک ایسے شاعر ہیں جس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ، لکھا جارہا ہے اور لکھا جائے گا۔ توصیفی نے مختصر اور محتاط انداز میں اس نظم کا تجزیہ کیا ہے ۔ آخر میں یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی ہے کہ اس نظم کے ادبی محاسن کے بارے میں بھی میں نے بس چند اشارے کئے ہیں ۔ اس گفتگو کو طول دیا جاسکتا تھا ۔ اس مضمون کے ساتھ ہی کتاب کا اختتام عمل میں آتا ہے ۔ کتاب کے ابتداء میں توصیفی کا تحریر کردہ پیش لفظ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے رسمی گفتگو کی ہے ۔ ان تحریروں کے علاوہ میرا خیال ہے کہ جو مال اچھا ہے وہ الگ توصیفی نے باندھ کررکھا ہے اگر نہیں رکھا ہے تو ان کو لکھنا چاہئے کیونکہ ان کی شاعری میں جو دل نشینی ملتی ہے وہی دل نشینی نثر میں بھی موجود ہے ۔